کورونا وائرس، امریکا، ہسپتال عملہ نہ ہونے کے سبب بند

امریکا، آجکل کن حالات سے گزر رہا ہے، حیران کن انکشافات

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مدثر محمود سالار
کنگسٹن۔نیویارک:
آنٹی افشاں نوید صاحبہ کی تحریر واٹس ایپ پر موصول ہوئی، نیویارک کے کچھ حالات کا تذکرہ تھا ، سوچا کچھ دردِ دل میں بھی موبائل کے نوٹ پیڈ پر سیاہی سے نقش کردوں۔
آخری تحریر ایک عربی افسانہ نو مارچ کو ترجمہ کیا تھا اس کے بعد حالات نے اتنا بدل دیا کہ لکھنے کی چاہت ختم ہوگئی ہے۔

ہر طرف خاموشی ہے ، ماحول سہما ہوا ہے، گھڑی کی ٹک ٹک کی آواز ٹائم بم کی ٹک ٹک جیسی لگتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے ہیں، کسی بڑی خبر کے انتظار میں سب اپنے کان لگائے بیٹھے ہیں۔

میں ایکسرے روم میں بیٹھا کولیگز کے چہرے پڑھتا رہتا ہوں، سب خوفزدہ ہیں۔ کوئی چائینہ کو کوس رہا کوئی وائٹ ہاوس کو کوس رہا، کوئی اپوزیشن کے ساتھ کوئی حکومت کے ساتھ۔
نجانے کیوں ایسے لمحات میں مجھ میں کوئی سفاک درندہ جاگ کر سرگوشی کرتا ہے۔

میرے اندر وہ سفاک لہجہ بولتا ہے کہ اب بھگتو تم سارے! اب پچاس پیسے کے ماسک کو ترس رہے ہو، ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے پر مجبور ہو، ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنا تمہاری مجبوری بن گئی ہے، تم اب ہینڈ سینیٹائزر اور ٹشو پیپر کے رول پر ہنگامہ آرائی کے مستحق ٹھہرے، آہا دس ملین لوگ بے روزگارہوگئے، کیا کہا اب کھانے کو ترس رہے ہو؟ تو سنو

کل ہی کی بات ہے اسی کرہ ارض پہ ملکِ شام میں تم جیسے انسانوں پہ تم نے ایک لامحدود قیامت اتار دی، عراق میں تم نے لاکھوں گھر اجاڑ دیے، فلسطین کو کباڑیے کی دکان بنا دیا تم نے، افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی، روئے زمین کا کوئی ایسا خطہ باقی بچا ہے جہاں تم نے خون کی ہولی نہ کھیلی ہو؟ تمہارے آٹھ سو سے زیادہ ملٹری بیس دنیا کے کونے کونے پر اپنی جارحیت کا نمونہ لیے ابھی بھی باقی ہیں۔

تم نے انسانیت کو گالی بنا کر رکھ دیا، تم ساٹھ ستر سال سے دنیا کے خدا بنے بیٹھے تھے۔
تم بھول گئے کہ سورج بھی دن کے بارہ بجے کے بعد ڈھلنے لگتا ہے،تمہیں بھی ایک دن ڈھلنا تھا۔
ستر اسی یا سو سال سے خود کو سپر پاور کہلانے والو! تم ایک نہ دکھائی دینے والے جرثومے کے ہاتھوں دنیا کے سامنے ایسے ننگے ہوگئے ہو کہ ستر چھپانے کو درختوں کے پتے بھی میسر نہیں۔

ہزاروں ٹریلین ڈالر کی معیشت کا زعم رکھنے والو! تم ایک جھٹکے میں ڈیڑھ کروڑ افراد بےروزگار کروابیٹھے ہو، ایک تہائی آبادی گھر کا کرایہ دینے کے قابل نہیں رہی، تمہارے باشعور مہذب انسان قطاروں میں لگ کر اسلحہ خرید رہے ہیں تاکہ کل کو خوراک کے حصول کے لیے لوٹ مار کرسکیں۔ تمہارے ڈاکٹرز اور نرسز ہسپتال جانے سے ڈرتے ہیں، دنیا کو کیا علم کہ تم نے ڈنڈے کے زور پر نرسوں اور ڈاکٹرز کو ہسپتال آنے پر مجبور کیا ہوا۔

ہزاروں تجربہ کار طبی میدان سے منسلک افراد کئی ہفتوں سے ریٹائرمنٹ کی درخواستیں دیے جارہے ہیں۔ بس ایک جھٹکا لگا اور سپر پاور کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ کسی کو کیا خبر کہ تمہارے ہسپتالوں میں اب مریضوں کو رکھنے کے لیے بیڈ ہی میسر نہیں، ایک کمرے میں دو دو کرونا وائرس کے مریض داخل ہیں،

اب میڈیا کو کون بتائے کہ تمہاری عوام ہسپتال سے ماسک ، ہینڈ سینٹائزر اور ٹشو پیپر چرا کر اپنے گھروں میں لے جاکر ذخیرہ کر رہی؟ دنیا کو کیسے خبر ہو کہ تم اپنے طبی عملے کا ٹیسٹ کروانے سے خائف ہو، ایک بھی ورکر مریض نکلا تو ہزاروں افراد ہسپتال میں کام کے لیے نہیں آئیں گے۔ دنیا کو کیا خبر کہ تم ایک ایسی عظیم قوم ہو جس کے ڈاکٹرز اور نرسز دو دن سے نرسنگ ہوم آئے ہی نہیں اور سینکڑوں عمررسیدہ افراد کو بےیارومددگار چھوڑ کر اپنے گھروں میں دبک گئے۔

اب یہ تو کوئی نہیں بتائے گا کہ مارچ کے آخری ہفتے نیویارک ریاست میں فلٹر واٹر میسر نہیں تھا، اب کون بتائے کہ پانی کی بوتل کی قیمت دو ہفتوں میں ڈیڑھ گنا بڑھ گئی ہے۔ تمہارے پاس پینے کا پانی تک نہیں اور دعوے سپرپاور کے۔

اب کون زبان کھولے اور نوکری سے ہاتھ دھوئے کہ ہسپتال کے عملے کے لیے ہی ہسپتال میں پینے کا پانی میسر نہیں۔ کسے خبر کہ ہم ایک ماسک ایک ہفتہ استعمال کرنے پر مجبور ہیں، کوئی کیسے بتائے کہ تمہارے ہسپتالوں میں تھرمامیٹر اور سٹیتھو سکوپ بھی نہیں ہیں۔ اب اس سے زیادہ پول کیا کھلے گا کہ تمہارے ہسپتالوں میں ہیئر نیٹ، شوز نیٹ ، گاون اور گلوز ہی میسر نہیں ہیں۔

یہ وہ سپر پاور ہے جس کی عظمت دیکھ کر لوگ یہاں زندگی گزارنے کے خواب دیکھا کرتے ہیں۔ جس امریکہ کو ہم پاکستان میں بیٹھ کر حسرت کی نگاہوں سے سوچاکرتے تھے اس امریکہ میں طبی شعبہ کی حالت آپ کے سندھ کے کسی اجڑے ہوئے ہسپتال سے بدتر ہے۔
ویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلالِ والاکرام۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں