رضوان رانا، اردوکالم نگار

تذکرہ جناب مہتاب الدین چاولہ (تمغہ امتیاز) کا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

رضوان رانا:

کرونا وائرس کے باعث 26 اپریل بروز اتوار ، 2 رمضان المبارک کو اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہونے والے مہتاب چاولہ صاحب واقعتاً ایک عہد ساز، شاندار شخصیت کے مالک اور سچے پاکستانی بزنس مین ہونے کے ساتھ ایک بہترین انسان تھے۔ وہ کراچی بزنس کمیونٹی میں ایک جانی پہچانی شخصیت اور ایک بڑی ٹیکسٹائل فیکٹری کے چیئرمین بھی تھے۔

اگرچہ ان کی خدمات اور اعزازات کی فہرست اس قدر طویل ہے کہ ان پر ایک نہیں کئی کالم لکھے جا سکتے ہیں لیکن میرا اس وقت انھیں خراج تحسین پیش کرنے کا مقصد اُن کی پاکستان اور اسں ملک سے بے انتہا محبت ہے۔ یہی وہ ایک خاص وجہ تھی کہ میرے نزدیک بہت سارے دوسرے ٹیکسٹائل مالکان سے تعلق اور دوستی میں مہتاب چاولہ انکل کا اپنا ایک منفرد مقام ہے۔

مجھے افسوس اور دکھ ہے کہ میں اتنے زیادہ قریبی اور ذاتی تعلق کے باوجود ، رمضان المبارک میں انتہائی مصروفیت اور آئسولیشن پیریڈ کی وجہ سے ان کے جنازے میں شریک نہ ہو سکا۔ اس لیے گزشتہ روز میں اظہار افسوس اور دعاء کیلئے اُن کے گھر حاضر ہوا تاکہ ان کے بیٹوں ریحان چاولہ ، کاشف چاولہ اور فرخ چاولہ سے مل کر ان کے بے مثال اور عظیم والد کی یادیں تازہ کر سکوں۔

ریحان بھائی اور فرخ بھائی سے تو ملاقات نہ ہو سکی مگر کاشف چاولہ سے میری دو گھنٹے کی طویل نشست نہ صرف انکل مہتاب چاولہ کی یادوں سے بھرپور تھی بلکہ اس میں کورونا وائرس اور آج کل کے حالات پر بھی بات ہوئی،ایک دوسرے سےاُمید اور حوصلے سے بھرپور معلومات بھی شئیر کیں، انھوں نے رہنمائی بھی فراہم کی اور اپنے ذاتی تجربات کے ذخیرہ سے استفادہ کرنے کا موقع بھی دیا۔

مجھے بالکل بھی یہ اندازہ نہ تھا کہ کرونا وائرس سے اپنے والد کو کھونے ، پھر بذات خود کورونا کا شکار ہونے اور پھر خاندان کے دوسرے لوگوں میں اس وائرس کے پائے جانے پر ایک انسان کس کیفیت میں‌مبتلا ہوسکتا ہے اور کس قسم کے حالات کا سامنا کر سکتا ہے.

کاشف چاولہ سے مجھے معلوم ہوا کہ اس سارے گزرے وقت میں پہلے نہ صرف وہ خود کورونا کے شکار ہوئے، پھر ان کے بھائی، بہن اور خاندان کے دیگر بہت سے افراد اس کی لپیٹ میں آئے اور پھر الحمدللہ ٹھیک بھی ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ جیسے ہی ہمارے ملک میں یہ وبا پھیلنا شروع ہوئی، تمام تر احتیاط کے باوجود مارچ کے آخری عشرے میں لاک ڈاؤن سے پہلے یہ وائرس ان کی ایک ملازمہ سے ان کی والدہ اور پھر والد کو منتقل ہوا اور پھرسخت احتیاط کے باوجود آہستہ آہستہ گھر کے دوسرے افراد تک منتقل ہوتا رہا مگر بفضل باری تعالی زیادہ تر لوگ اس سے محفوظ ہی رہے۔

کاشف چاولہ خود بتاتے ہیں کہ ایک طرف تو ہم والد اور والدہ کے علاج معالجہ میں مصروف تھے تو دوسری طرف خود اس وائرس میں مبتلا ہونے کا ڈر ایک عجیب کیفیت پیدا کیے ہوئے تھا۔ پھر ان کی والدہ تو روبہ صحت ہوئیں مگر والد جو دل کے مریض بھی تھے جانبر نہ ہوسکے. اسی دوران کاشف خود بھی کورونا کا شکار ہوگئے.

میرے پوچھنے پر کاشف نے بتایا کہ یہ وقت اور جذبات ناقابل بیان ہیں کہ کیسے ان کو الفاظ میں بیان کیا جائے. اور کیسے ان کو زبان سے ادا کیا جائے۔ ڈر، خوف ، ڈپریشن اور انزائٹی اس وائرس کے وہ کارگر ہتھیار ہیں جو ایک انسان کو ہارنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
پھر خود سے بڑھ کر اپنے بیوی بچوں کو وائرس کی منتقلی کا ڈر،
ایک جگہ اور گھر میں رہتے ہوئے اکیلے اور الگ ہو کر رہنے کا ایک انجانا سا خوف،
بیماری کے بڑھنے کا ڈر،
زندگی کے چھن جانے اور موت کی جانب یہ سفر، اس انجانے خوف کا مظہر تھا جو ہمارے معاشرے میں ہر طرف پھیلا ہوا ہے یا پھیلا دیا گیا ہے۔

کاشف نے بتایا کہ میں اب دوسرے لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ
اس وبائی مرض سے بچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ آپ کچھ بھی کر لیں یہ کسی نہ کسی کے ذریعے سے آپ تک پہنچ کر رہے گا تو بجائے اس سے ڈرنے اور گھبرانے کے آپ کو اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ ایک اچھا فائٹر وہ ہوتا ہے جو مقابلے کے لیے شاندار طریقے سے مکمل طور پر تیار ہو اور اپنے مخالف کے بارے میں پوری معلومات بھی رکھتا ہو اور یہ بھی جانتا ہو کہ کورونا وائرس سے مقابلہ کرتے ہوئے آپ کو چودہ یا پندرہ دن کیسے سنبھل کر اور احتیاط سے گزارنے ہیں تاکہ آپ کے اپنے خاص طور پر قریبی گھر والے ، آپ کے بیوی بچے اس کا شکار نہ ہوں۔

یہ بات طے ہے کہ اس وائرس کا شکار فرد اس وائرس سے کم لیکن اس کے ڈر سے زیادہ نقصان اُٹھاتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے آپ خدا نخواستہ اس کا شکار ہیں یا نہیں ہیں، آپ اس سے مت ڈریں بلکہ اس کا مقابلہ کریں، احتیاط کریں، ماسک پہن کر ہجوم میں جائیں، اپنے ہاتھوں کو کنٹرول کرنا سیکھیں اور ان کو اپنے چہرے اور منہ پر مت لگائیں۔

باہر سے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اپنے جوتے باہر اتاریں اور فوراً اپنے ہاتھوں کو دھوئیں۔
اگر پھر بھی یہ وائرس آپ تک پہنچ جائے تو گھبرائیں نہیں،
سب سے پہلے اپنے آپ کو دوسروں سے علیحدہ کر لیں، گرم پانی اور بھاپ کا استعمال شروع کر دیں، وقفے وقفے سے کلونجی اور ادرک والا قہوہ پئیں، قوت مدافعت کو بڑھانے والی اشیاء کا استعمال زیادہ کردیں اور اگر کہیں کمرے سے باہر جانا پڑے تو ہر وقت ماسک پہن کر رکھیں. دوسروں سے ملنے اور بات کرنے سے پرہیز کریں۔

مگر ان ساری احتیاطی تدابیر کے باوجود یہ یاد رکھیں کہ یہ مقابلہ ڈر سے ہے۔ آپ کا خوف اور ڈر نہ صرف آپ کو ڈیپریشن میں لے جائے گا بلکہ آپ کی قوت مدافعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا جو کہ نہ صرف اس وائرس کے خلاف آپ کی فرنٹ لائن فورس ہے بلکہ اندرونی جسمانی طور پر بھی بچاؤ کی واحد صورت ہے. آپ کا حوصلہ اور درست دلیرانہ طرز عمل اس وبائی مرض کو آپ کے لیے ایک معمولی بیماری سے آگے نہیں بڑھنے دے گا انشاءاللہ۔

اب ماشاءاللہ کاشف اور ان کے دوسرے عزیزواقارب صحت یاب ہو چکے ہیں اور یہ پلازمہ دونیٹ کر کے دوسرے مریضوں کی مدد کر رہے ہیں جو وینٹی لیٹر تک پہنچ چکے ہیں اور ڈاکٹرز کے مطابق اس وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کا پلازمہ سیریس کیسز مریضوں کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔

میری سب پاکستانیوں سے گزارش ہے کہ آپ بھی اگر کورونا سے صحت یاب ہو چکے ہیں تو اپنا پلازمہ ضرور ڈونیٹ کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ مریضوں کی جان بچائی جا سکے.

بے شک انسانیت کی خدمت ہی دنیا اور آخرت میں وہ بلند وبالا کامیابی ہے جس کی عظمت الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔

میں خاص طور پر کاشف چاولہ اور ان کی پوری فیملی کو خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گا کہ وہ مہتاب انکل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنا غم بھول کر دوسروں کی مدد اور خدمت کو اپنا نصب العین بنائے ہوئے ہیں۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ پوری دنیا کے انسانوں کو اس وبائی مرض سے نجات عطا فرمائیں اور ہماری غلطیوں ، کوتاہیوں اور گناہوں کو درگزر فرمائیں. آمین ثم آمین


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں