کرنل ویس مارٹن

”مودی کا مسلمانوں کے خلاف دباؤ ختم ہونا چاہیے“: امریکی مصنف

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

کرنل ویس مارٹن:
انگریزی سے اردو ترجمہ: زبیدہ رؤف /

امریکی فوج کے ملٹری پولیس کے کرنل ویس مارٹن( Col. Wes Martin) نے دنیا کے مختلف ممالک میں قانون نافذ کرنے والے عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں۔ انھوں نے بین الاقو امی سیاست اور کاروبار میں ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی ہے۔ چند روز قبل انہوں نے ایک مضمون میں نریندر مودی کا موازنہ ہٹلر سے کیا ہے۔ ان کے مضمون کا ترجمہ درج ذیل ہے:

شمالی ہندوستان عوام ، مذاہب اور حکومتوں کا ایک اجتماع ہے۔ 10 ملین سال تک مسلسل ہندوستانی زمین کی جغرافیائی دراڑ ٹیکٹونک پلیٹ کے خود کو یوریشین پلیٹ میں دھکیلنے کے نتیجے میں ہمالیہ پہاڑ وجود میں آئے تھے ۔ اس مشکل قسم کے خطہ کے اندر ایک دوسرے کے خلاف دباؤ ڈالنے والے ہندو اور مسلم مذاہب اور ہندوستان، پاکستان اور چین کی حکومتیں ہیں۔

انسانیت ہمیشہ جغرافیائی اور فطرت کے چیلنجز کو برداشت کرنے اور ان پر قابو پانے کے راستے تلاش کرتی آئی ہے۔ یہ خطہ انسانیت کی ایک ایسی مثال بن گیا ہے جو خود اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ بین الاقوامی زمینی تنازعہ کو کم کرنے اور خطے کی مخلوط آبادی کے تحفظات کے لئے، جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دیا گیا تھا۔ بھارت خارجہ پالیسی اور دفاعی امور پر اپنا کنٹرول برقرار رکھے ہوئے ہے ، بس عدالتی حکمرانی اور ہنگامی اختیارات ریاست کے پاس رہ گئے ہیں۔

بھارت اور پاکستان کے مابین تعلقات ہمیشہ تناؤ کا شکار رہتے ہیں، بعض اوقات محدود فوجی تنازعات بھی پھوٹ پڑتے ہیں۔ ہندوستان اور چین کے مابین اختلافات بنیادی طور پر سیاسی رہے ہیں۔

ہمالیہ نے دو طاقتور ممالک کو بڑی خوبی سے الگ کر رکھا ہے۔ تینوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں جو دباؤ بڑھانے میں کچھ ہچکچاہٹ کا باعث بنتے ہیں، اور حکومتوں کو بعد کے نتائج کا ڈر بھی رہتا ہے جو اپنی حدود کے تعین میں ناکامی کے باعث پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس خطے کا مجموعی رویہ کچھ ایسا ہے کہ:

”اگر میں کمزور ہوں تو میں بات چیت کیسے کر سکتا ہوں؟ اگر میری پوزیشن طاقتور ہے تومیں بات کیوں کروں ؟ “

کمزور ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ تناؤ کو کم کرنے کی خواہش سے ، پاکستان کے حال ہی میں منتخب وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کو پیغام دیا ، جس میں ”امن کی طرف دو قدم“ اٹھانے کی پیش کش کی تھی ،اگر انڈیا ایک قدم اٹھائے تو۔

بد قسمتی سے، بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے خان کی پیش کش کو ایسے ہی لیا جیسے چانسلر ایڈولف ہٹلر نے برطانوی وزیر اعظم نیولے چیمبر لین Neville Chamberlain کی ”ہمارے زمانے میں امن“ کی خواہش کو دیکھا تھا۔ بلکہ مودی اس سے بھی آگے بڑھ چکے ہیں۔

انہوں نے اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے ”سرحد پار کشیدگی“ کا بیانیہ دہرانا شروع کردیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ امن کی طرف ایک قدم اٹھانے کے بجائے مودی پاکستان کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر تناؤ بڑھا رہے ہیں۔

ہندوستانی گشت اور زیادہ جارحانہ ہو گئے ہیں، گویا کہ وہ مخاصمانہ فائرنگ کے تبادلے کو بڑاھاوا دیتے ہیں۔ یہ سب شیکسپیئر کے محاورے ”cry havoc and let slip the dogs of war“ کے جدید استعمال کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

ہٹلر نے چیکوسلواکیہ پر قبضہ کرنے سے قبل جرمنی کے مشتعل مظاہرین کے ذریعہ ملک میں شہری بدامنی پیدا کروائی تھی۔ جموں و کشمیر میں ہندوستانی کارکنوں نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ اگست 2019 میں ، مودی نے اس خطے کو مکمل طور پر مرکزی حکومت کے ماتحت قرار دیتے ہوئے آئینی ریاست کا درجہ مسترد کردیا۔ یہ کاروائی محاصرے کا آغاز تھی۔

گزشتہ دسمبر میں ، حکومت نے مسلم آبادی سے شہریت کا حق ختم کردیا۔ حراستی کیمپوں کی تعمیر کا کام فوری طور پر شروع کیا گیا تھا جنہیں مسلمانوں سے بھرنا شروع کیا اور اب ان کی جائیدادیں اور ملکیتیں چھینی جا رہی ہیں۔

کورونا وائرس کے پھیلنے کے ساتھ ہی مسلمانوں کے خلاف بد زبانی مہم کو ایک بڑا فروغ ملا۔ مودی اور ان کی پارٹی نے یہ دعویٰ کرنا شروع کیا کہ مسلمان آبادی اس وائرس کے پھلاؤ کی ذمہ دار ہے۔

بحران کے وقت ، لوگ ایک دوسرے کا رخ کریں گے، خاص طور پر جب ان کی حکومت کی طرف سے حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ سڑکوں پر حملوں کے نتیجے میں بہت سے کیسز میں فوری توجہ کی ضرورت کے باوجود مسلمان متاثرین کو اسپتال لے جانے سے انکار کردیا گیا۔

مناسب خوراک ، پانی اور طبی امداد کے بغیر، حراستی کیمپوں میں مسلمان آبادی کو محبوس کرنا تباہی کو یقینی بنائے گا۔ اس سے مودی کو ان کی کاروائیوں کے جھوٹے جواز کے طور پر زیادہ تعداد میں اموات کا دعوی کرنے کا جواز بھی فراہم ہو گا ۔

وبائی مرض نے ایک ڈبل لاک ڈاؤن کی صورتحال پیدا کردی ہے۔ فوجی اور پولیس دستے عوامی ردعمل کو روک رہے ہیں۔ شہری اپنے جابروں کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لئے اپنے گھروں سے نہیں نکل سکتے۔ مسلمان اپنے گھروں میں قید پر مجبور ہیں یا پھر حراستی کیمپوں میں لے جائے جاتے ہیں۔

ہمیشہ کی طرح ، باقی دنیا لفاظی ہی کرتی ہے ، کچھ اور نہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر نے شہریت کی منسوخی کو ”بنیادی طور پر امتیازی سلوک“ قرار دیا ہے لیکن حراستی کیمپوں کے بارے میں بہت کم کہا ہے۔ امریکا اور مغربی یورپ بھی کچھ نہیں کر رہے۔

الفاظ سے ہٹ کر ، مودی اور ان کی حکومت کے خلاف دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ جب تک کہ اس کی جارحیت اور نسل کشی بند نہیں ہو جاتی، البرٹ آئن سٹائن کا انتباہ غالب رہے گا:
”دنیا ایک خطرناک جگہ ہے ، نہ کہ ان لوگوں کی وجہ سے جو برے ہیں بلکہ ان لوگوں کی وجہ سے جو اس
کے بارے میں کچھ نہیں کرتے ہیں۔“


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں