مسلمان فکرمند خاتون

خود ترحمی: خود کو یرغمال ہونے سے بچائیں ( قسط اول)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فریدہ یوسفی :

کیا آپ خود ترحمی کا شکار ہیں؟ زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے کبھی کبھی انسان کمزور لمحوں کے بھنورمیں ایسا پھنس جاتا ہے کہ اسے لگتا ہے، اس کی ہر کوشش ناکام ہے۔ دنیا مستقل اس کے ساتھ ناروائی کا سلوک برت رہی ہے۔ اس کی اچھا بننے اور اچھا کرنے کی ہر کوشش ناکام ہے۔

ایسا فیز ہر انسان کی زندگی میں آتا ہے، مسئلہ تب ہوتا ہے، جب ایسے کمزور لمحوں میں انسان کسی خودغرض انسان کے ہاتھ لگ جائے۔

خودترحمی کے حصار میں جاتے وقت انسان کا دل چاہتا ہے کہ کوئی اس کے درد کو سمجھے، کوئی جانے کہ وہ کتنی تکلیف میں ہے۔ لوگ اس کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ اس کی ہر اچھائی کا بدلہ برائی میں دے رہے ہیں
ایسے میں اسے بس اپنی ہاں میں ہاں ملانے والے کی تلاش ہوتی ہے۔ نصیحت اسے بری لگتی ہے اور اصلاح کے مشورے اسے زہر لگتے ہیں۔

مخلص لوگ اگر مل جائیں تو وہ اسے اس خودترحمی کے بھنور سے نکالنے کو جو بھی کوشش کریں وہ انھیں اپنا خیرخواہ نہیں سمجھتا، اس وقت سب سے خطرناک کسی خودغرض انسان کا دستیاب آجانا ہے۔ پھر خود ترحمی کے شکار فرد کا سارا کنٹرول اس کے ہاتھ چلا جاتا ہے، اسے یقین ہوجاتا ہے کہ یہی شخص میرا اصل ہمدرد و غمگسار ہے۔

خودغرض انسان کسی بھی مفاد کی بدولت اس شخص کے احساسات و جذبات کے ساتھ کھیلتا ہے۔ اپنا وقت گزارنے، دوسرے کی کیفیت سے محظوظ ہونے کا مشغلہ اس کے لئے محض ایک مشغلہ ہوتا ہے اور جب اس کا اس ساری مشق سے دل بھرجاتا ہے تو وہ خودترحمی کے شکار انسان کو بیچ راستے میں چھوڑ کر کسی اگلے مشغلے کی تلاش میں نکل جاتا ہے۔

ایسے کسی فریب کا شکار بن جانے والے خودترحمی میں مبتلا آدمی کے لئے دو راستے رہ جاتے ہیں یا تو وہ نشے کے عادی ہوجاتے ہیں تاکہ مدہوشی میں وہ سارے دکھوں اور غموں سے نجات پا لیں لیکن اس کی قیمت بہت مہنگی ادا کرنا پڑتی ہے یا پھر اپنی زندگی ختم کرلے جو کہ ظاہر دنیا کے ساتھ آخرت کی بھی بربادی ہے۔

کمزور ارادے اور بزدلی کے باعث ایسا نہ کرپائیں تو زندہ رہ کر اپنے اردگرد رہنے والوں کے لئے ایک اذیت بن جاتے ہیں۔ وہ خود کے ساتھ دوسروں کی گئی زیادتیوں کا بدلہ کسی تیسرے، چوتھے، پانچویں سے لینا شروع ہوجاتے ہیں۔ جنہوں نے ان کے ساتھ کچھ برا نہیں کیا ہوتا۔

ہر چیز کا مثبت رخ انھیں نظر آنا بند ہوجاتا ہے اور ہر چیز میں اس کا منفی تاثر نکال لاتے ہیں۔ یاسیت مایوسی بددلی پھیلانے میں پیش پیش رہتے ہیں، ان کے ذہن کوئی مثبت بات سوچنے سے قاصر ہوجاتے ہیں، لوگوں پر ان کا اعتماد ختم ہوجاتا ہے وہ سب کو خودغرض ،مفاد پرست اور بےحس سمجھنے لگتے ہیں۔

حتیٰ کہ وہ نعوذ باللہ اللہ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک سے بدگمان ہونے لگتے ہیں، بعض میں ایمان کی رمق باقی ہوتی ہے تو وہ اس کو کمال جرات سے کنٹرول کرتے ہیں

پھر اللہ سے ایسے شکوے کہ
آخر میں ہی کیوں؟ میرے ساتھ ہی کیوں؟ مجھے ہی سب دھوکے باز فریبی کیوں ملے؟ کوئی تو میرا ہوتا وغیرہ
ہر ایک سے شکوے، ہر ایک سے شکایتیں کرتے، ہر ایک سے نالاں نظر آئیں گے۔

ایک انتہائی صورت ان کے نماز، قرآن ، روزے سے دوری اختیار کرتے جانے کی شکل میں بھی سامنے آتی ہے۔ الغرض خودترحمی کے کمزور لمحوں میں کسی ایک خودغرض اور مفاد پرست کے ہاتھوں کھیلے جانے کے بعد یہ لوگ یا تو خودکشی کرتے ہیں یا معاشرے کے لئے ناسور بن جاتے ہیں۔

اس موضوع پر تو آپ کو بےانتہا ریسرچ مل سکتی ہے۔ بہت سے اقوال زریں بھی مل جائیں گے۔ دینی مصلح لوگوں کے فتوے بھی دستیاب ہوجائیں گے۔

لیکن جو لوگ انھیں اس حال تک پہنچاتے ہیں،جو اصل مجرم ہیں۔ ان ہر بات کرنا ہمارے معاشرے میں اتنا عام نہیں ان کےلئے ہمارا معاشرہ کہتا ہے:
” معاف کردو، معاف کرنا اچھی بات ہے۔ معاف کرنے والا بڑے دل والا ہوتا ہے ، پردہ رکھو“ یا پھر کہیں گے کہ ” تو تمھاری عقل کیا گھاس چرنے گئی تھی؟ تم نے اس کی بات کیوں مانی؟ تم ننھے کاکے تھے جو اس کی باتوں میں آگئے!!“

”تو دونوں کی دوستی تھی نا تب، اب انڈراسٹینڈنگ نہیں رہی تو کسی کے خلاف ہوجانا اچھی بات نہیں۔
پہلے مل جل کر الٹے سیدھے کام کرتے ہیں، جب شکایات پیدا ہوجاتی ہیں تو دوسرا مجرم، آپ پاک صاف
دوسرا ظالم اور آپ مظلوم۔“

ایسے معروف جملے خودترحمی میں مفادپرستوں کے ہاتھوں استعمال ہوجانے والوں کے لئے مزید زہر قاتل کا کام کرتے ہیں۔ زیادہ برا یہ ہوتا ہے کہ خودغرض اور مفاد پرست لوگوں کو پراعتماد بھی کرتے ہیں جو کہ ایک اور ناانصافی ہوتی ہے۔

خود کشی کرنے والے کو تو ہر کوئی ڈسکس کرتا ہے لیکن ان بےحس اور خودغرض لوگوں کی کوئی بات نہیں کرتا جواپنے تھوڑے سے فائدے کے لئے دوسروں کی زندگی سے کھیل جاتے ہیں۔ اور پھر بھی اپنی شاطر ذہنیت یا ”کمال ذہانت“ سے معاشرے میں قابل عزت اور مقبول بن کر زندگی گزارتے ہیں۔ اصل میں یہی لوگ چوراہے میں لٹکائے جانے کے قابل ہوتے ہیں۔

اگلی قسط میں ہم ان لوگوں اور ان کے رویوں پر بات کریں گے۔ ان شاءاللہ

( قارئین! آپ کو یہ موضوع کیسا لگا؟ ذیل میں تبصرہ کے ضمن میں اپنی رائے ضرور دیجئے گا، آپ کی رائے اس موضوع کو آگے بڑھانے میں مدد دے گی)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں