رضوان رانا، اردوکالم نگار

ارطغرل غازی اور ہمارا مستقبل

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

رضوان رانا:

آج کل ہمارے پاکستان میں ایک ترک ڈرامے کے بہت چرچے ہیں۔ بلا مبالغہ یہ ڈرامہ ہر طرف چھایا ہوا ہے. اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا ایوان بھی اس کی گونج اور بازگشت سے بچ نہ سکا ۔ جب اپوزیشن کے اہم رہنما احسن اقبال نے اس ڈرامے کا حوالہ دے کر حکومت پر طنز کے تیر برسا دئیے اور پھر اس کے جواب میں ہمارے وزیر مواصلات مراد سعید نے بھی ڈرامے کے قافیے کو ہی استعمال میں لا کر خوب داد وصول کی.

اس ڈرامے کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس کا ہرکردار تاریخ کے موافق ہے. اور میری معلومات کے مطابق سب سے اہم اور دلچسپ بات یہ کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کی سرپرستی میں یہ پورا ڈرامہ تیار ہواہے.

ایک عام تاثر یہ ہے کہ یہ ڈرامہ دیکھنے کے بعد مسلمانوں کے درمیان سے بزدلی اور احساس کمتری ختم ہوتی ہے اور بلاشبہ انہیں اپنی تہذیب اور تاریخ پر فخر ہونے لگتاہے. اسی طرح مشکل حالات کاسامنا کرنے اور مصائب جھیل کر روشن مستقبل کی تعمیر کا حوصلہ بھی ملتاہے.

جیسا کہ ہم جانتے ہیں دنیا کی سب سے طویل ترین عالمی حکومت خلافت عثمانیہ کہلاتی ہے. کوئی ساڑھے چھ سو سالوں تک دنیا کے چار براعظموں پریہ خلافت قائم رہی اور اسے جن لوگوں نے قائم کیا تھا ان کی حیثیت چرواہے اور خانہ بدوشوں کی تھی. سکونت اختیار کرنے کیلئے ان کے پاس کوئی زمین اور ریاست نہیں تھی. کبھی سلجوکی سلطنت کے سایے میں پناہ لی اور کبھی ایوبی حکومت کے رقبہ میں خیمہ زن ہونے کیلئے اجازت لینی پڑی توکبھی منگولوں نے اپنے ماتحت کرنے کی کوشش کی.

اس ڈرامہ میں خلافت عثمانیہ کے بانی محمد عثمان غازی کے والد ارطغرل غازی کا کردار دکھایا گیا ہے جنہوں نے قائی قبیلہ کے سردار سلیمان شاہ کے یہاں تقریباً 1200 عیسوی میں جنم لیا. اپنے قبیلہ کی دو ہزار فوج اور بہادر ساتھیوں کے ساتھ منگولوں کا مقابلہ کیا. صلیبیوں کو تگنی کا ناچ نچایا اور حلب کی ایوبی حکومت اور قونیہ کی سلجوکی سلطنت کو غداروں اور سازشیں کرنے والوں سے پاک کیا۔

اپنی بہادری ،شجاعت اور ذہانت کی وجہ سے ترکی کی راجدھانی موجودہ انقرہ کے علاقے میں کئی ایک قلعہ اور شہرفتح کیے. اور پھر اپنے آخری وقت میں سوگوت شہر آباد کیا جہاں خلافت عثمانیہ کے بانی محمد عثمان کی پرورش اور تعلیم و تربیت ہوئی.

منگول ،بازنطینی اور سلجوکی سلطت کے غداروں نے ارطغرل کو ختم کرنے اور مارنے کیلئے ہر ممکن جدجہد کی لیکن کبھی کامیابی نہیں ملی. آج بھی یورپین قوم اور منگول ارطغرل کا نام سن کر کانپ اٹھتے ہیں۔

ارطغرل غازی نے اپنی تلوار اور ذہانت دونوں کا بھر پور استعمال کیا. کبھی تلوار کا استعمال کرکے فتح حاصل کی توکبھی ذہانت کا استعمال کرکے دشمنوں کو شکست سے دوچار کیا، ان کی جنگی مہارت ،ذہانت اورپوری دنیا کو متحد کرنے کی فکر بتاتی ہے کہ وہ عالم اسلام کے عظیم جرنیل اور مسلم دنیا کے ناقابل فراموش ہیرو تھے.

انہوں نے ہی عالم اسلام کی سب سے بڑی خلافت اور سب سے لمبی مدت تک قائم رہنے والی دنیا کی سپر پاور قوت کیلئے راہ ہموار کی تھی. جبکہ میرے مطابق اردو تاریخ میں ارطغرل غازی کا تذکرہ دستیاب نہیں ہے جس کی وجہ سے ہندوپاک کے بیشتر مورخین ان کی شخصیت اور کردار سے ناواقف ہیں اوروہ خلافت عثمانیہ کی تاریخ کا آغاز براہ راست محمد عثمان غازی سے شروع کرتے ہیں.

ڈرامہ کا ہر کردار حقائق پر مبنی ہے . تاریخی واقعات ،غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک ، سرداری اور حکمرانی کا طریقہ، جنگ کی تربیت، دشمنوں کے نرغے میں پھنس جاتے وقت دفاع کیسے کرنا چاہیے. اپنے لوگوں کے ساتھ جب جنگ کی نوبت آجائے تو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے. مشکل حالات کا سامنا کیسے کرنا چاہیے. ایسی تمام چیزوں کی معلومات ملتی ہیں.

اس ڈرامے میں عیسائیوں کی سازشوں کو بڑی تفصیل سے دکھایا گیا ہے، عالم اسلام کی نااتفاقی بھی بڑی ایمان داری سے دکھائی گئی ہے، مسلمانوں میں چھپے غداروں کو بھی بہت احسن انداز سے دکھایا گیا ہے۔ ڈرامہ میں معمولی رومانس کے ساتھ تصوف کو بھی بھر پور انداز میں پیش کیا گیاہے.

میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک میں اسے عام مسلمان اور خواتین وحضرات کے ساتھ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے علماء،اسکالرز، مفتیان کرام ،دانشوران ، افسران ،سیاست دان ، حکمراں طبقہ سمیت سبھی لوگوں کو دیکھنا چاہیے کیونکہ ہر ایک کیلئے اس میں پیغام، جذبہ ،تحریک اور سبق آموز کردار ہے اور پاکستان کے موجودہ ماحول میں ہر ایک مسلم نوجوان کو اسے دیکھنے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیئے.

یہ ڈرامہ ریلیز ہونے کے بعد ترکی کے متعلق مغرب اور یورپ کی بے چینی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور سب سے حیرت انگیز بات یہ کہ امریکی میڈیا نے اسے ترکی کا سافٹ ایٹم بم قرار دیتے ہوئے الزام عائد کررکھاہے کہ اردگان اس کے ذریعے مسلمان نوجوانوں کو ورغلا رہے ہیں. انہیں عظیم اسلامی سلطنت کے دلکش خواب دکھا کر ایک ایسا جذبہ پیدا کیاجارہاہے جو عنقریب قیامت خیز طوفان کی صورت میں نمودار ہوگا. اور ترک صدر رجب طیب اردگان نے مغرب کے ایسے تمام پیروپیگنڈ ے کا جواب صرف اس جملہ کے ذریعہ دیاہے کہ
”جب تک شیر خود اپنی تاریخ نہیں لکھیں گے تب تک شکاری ہی ہیرو بنے رہیں گے“

ہمارے وزیراعظم عمران خان بھی اس میں خاصی دلچسپی رکھتے ہیں اور ان کے حکم پر پی ٹی وی اس ڈرامے کو اردو زبان میں ٹیلی کاسٹ کر رہا ہے. یہ ڈرامہ 150 قسطوں پر مشتمل ہے اور پانچ سیشن میں تقسیم ہے اور ہر ایک قسط کا دورانیہ ڈھائی گھنٹہ ہے. اس سے قبل دنیا کے تقریبا 80 ممالک میں اسے دکھایا جا چکا ہے.
میری یہ راۓ ہے کہ آپ اسے دیکھیے ،اپنے دوستوں کو دیکھائیے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اس کے بارے میں معلومات پہنچائیے…!!!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں