رٹو۔ گلگت بلتستان

رٹو سے آگے ( 2)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ابن فاضل :

پہلے یہ پڑھیے:

رٹو سے آگے (1)

اس زمانے میں کسی بھی سیاحتی مہم جوئی سے پہلے بھی دو مہمات درپیش ہوتیں. ایک یہ کہ گھرسے اجازت کیسے لی جائے اور دوسرا کون سا راستہ یا ٹریک کیا جائے؟ پوری ایمانداری سے کہہ رہے ہیں کہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ زیادہ مشکل مرحلہ ہردو میں سے کونسا رہا. جونہی ماں جی کو بھنک پڑتی کہ سیاحت کی مشاورت ہورہی ہے، ان کے تیور بدلے بدلے بلکہ اکھڑے اکھڑے دکھائی دیتے. قابل توصیف حرکتوں پر ڈانٹ واجب ٹھہرتی.

بخدا تا وقت نہ جان پائے کہ ایسی شفیق، مدھر، معطر، منور ہستی ایسا رویہ کیوں روا رکھتی ہے جب تک خدا نے صاحب اولاد نہ کردیا. اب تو ہر پل باخبر رہنے کے باوجود جی کے ٹکڑوں کو ہائکنگ کیلئے بھیجتے ہوئے دل بیٹھتا ہے،

ان کا ظرف سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ اولاد کی خوشی کیلئے کیا کیا جھیلتی تھیں. پہلے دن جب گھر سے نکلتے اور آٹھ دس دن بعد جب گھر لوٹتے کچھ خبر نہیں ہوتی کہ کہاں ہیں، کس حال میں ہیں. اور کب لوٹیں گے. ماؤں کی قدر کیاکرو میرے دوستو، میرے بچو جب نہ رہیں تو ایک لمس کی آرزو میں گھنٹوں آنسوؤں کے نذرانے دینا پڑتے ہیں.

بہرحال ہم باورچی خانہ کے بالا خانے سے سامان اتار کر صحن میں ایک طرف سیڑھیوں کے نیچے رکھ دیتے جو ہمارا غیر اعلانیہ اعلان ہوتا کہ اب ہمارے اندر مہم جوئی کا خناس سما چکا ہے. دو تین دن میں ماں جی کا غصہ کچھ کم ہوجاتا اور وہ خود کو اس کوفت کیلئے کسی قدر آمادہ کرچکتیں تو ہم بڑے لاڈ سے گود میں سر رکھ کر اجازت لینے میں کامیاب ہی ہوجاتے. خدا اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے. اور بشری کوتاہیوں سے درگزر فرمائے.

اس دوران ٹریک کیلئے مغز ماری جاری رہتی. گوگل کا ظہور ابھی اس عالم آب وگل میں ہونا قرار بھی نہیں پایا تھا، سو ساری تحقیق و تفتیش دستیاب کتابوں سے ہی ہوتی. ان دنوں آکسفورڈ بک والوں کا ایک اٹلس یعنی نقشہ جات کی کتاب کہیں سے ہمارے ہاتھ لگ گئی. اس میں شمالی علاقہ جات کا ایک بہت زبردست اور مفصل نقشہ موجود تھا.

بس پھر بعد کی ساری آوارگی اسی اٹلس کی راہنمائی میں کی گئی. اس مہم میں یہ تو طے تھا کہ ہم نے جانا رٹو ہے مگر ہائکنگ سے متعلق لوگ جانتے ہوں گے کہ اس میں ایسا قریب ناممکن ہی ہوتا ہے کہ آپ جس راستہ سے جائیں اسی راستہ سے واپس آجائیں. سو ہماری تحقیق اب اس نکتہ پر مرکوز تھی کہ رٹو سے گزرتے ہوئے ہم آگے کہاں جائیں گے اور وہاں سے واپس گھر کس راستہ سے پہنچیں گے.

نقشہ بتارہا تھا کہ رٹو سے تقریباً تیس سے پینتیس کلومیٹرآگے تین راستے آزاد کشمیر میں داخل ہوتے ہیں. ان میں سے دو تو وہی میرملک اور فولووئی وادی سے ہوتے ہوئے جبکہ تیسرا شنٹر پاس سے ہوکر جاتا تھا. کچھ مزید تلاش و بسیار کے بعد یہ معلوم ہوگیا کہ شنٹر پاس سے ہوکر جانے والا راستہ نسبتاً آسان بھی ہے اور موسمی اعتبار سے بھی زیادہ محفوظ ہے. سو ہم نے طے کر لیا کہ رٹو سے ہوتے ہوئے شنٹر پاس جائیں گے. اور وہاں سے کیل آزاد کشمیر اور کیل سے پھر واپس گھر. یوں مہم سے پہلے کی دونوں مہمات کامیابی سے پار کی جاچکی تھیں.

اس مہم میں ہمارے ساتھ تین لوگ تھے.
ایک صاحب نسلاً غوری پٹھان ہیں. مگر غور صرف اتنا ہی فرماتے ہیں کہ کچھ دیر بعد انہوں نے کھانا کیا ہے. رنگ ان کا ہالینڈ کی ٹیموں کے یونیفارم ایسا مالٹا چمک دار، اونچے لمبے تنومند بلکہ بھاری بھر کم. جینز اور شرٹ میں بالکل ایسا لگتا جیسے کوئی جرمن باشندہ ابھی ابھی لفتھانسا ائیر کی پرواز سے اتر کروارد ہوا ہے.

مگر آوز بالکل نیرہ نورایسی اور لہجہ عارف لوہار سا. اس زمانے کے زمینی فون پر بہت بار آنحضرت نے خاتون بن کر بہت سے نوجوان کی دھڑکنیں بے ترتیب کررکھی ہیں. ہم جب انہیں کہیں ساتھ لے جاتے تو صرف ایک ہی شرط پر کہ وہ بولیں گے نہیں.

دوسرے دوست کھوکھر صاحب دیکھنے میں بالکل عام انسانوں جیسے، چھ فٹ کے قریب قد، متناسب جسم. شکل اور انداز کسی قدر دیہاتی مگر خوش لباس. آج کل دیار غیر میں زبردست کامیاب کاروباری شخصیت ہیں.

تیسرے ساتھی کا قد لامبا مگر بہت دھان پان سے. رنگ تیرگی شب ہجر سے تھوڑا سا کم سانولا، دانت نہایت سفید چمکدار اور بال نہایت کالے اور چمکدار. کھوکھر صاحب انہیں پیار سے چٹا کہہ کر مخاطب کیاکرتے. خوش لباس مگر زودرنج. مگر بہت محبت کرنے والے. اپنی طرز کے واحد. امریکہ میں مقیم ہیں. ایک سٹور چلاتے ہیں.( جاری ہے)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں