سابق امریکی صدر باراک اوباما کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے

سیاست دانوں کے لئے مطالعہ کتب کس قدر ضروری ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ثاقب محمود عباسی :

” کسی لیڈر کے لیڈرشپ لیول کا اندازہ لگانا ہو تو اس کی لائیبریری وزٹ کرلیں “۔ جم ران

پاکستان میں تقریباً ہر شخص مفتی ، حکیم اور سیاسی امور کا ماہر ہوتا ہے۔ آپ عام سے عام شخص سے بھی بات کرلیجیے ۔ وہ سیاست پہ ایسے تبصرے کرے گا ، واقعات کی توجیح پیش کرے گا اور سازشی تھیوریاں بیان کرے گا کہ آپ کے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔

مسئلہ مگر یہ نہیں کہ عام لوگوں ، گلی محلے کے دوکاندار یا ریڑھی و چھابڑی والے کے خیالات سیاست کے بارے میں سطحی اور عامیانہ ہوتے ہیں ۔ افسوسناک صورتحال تو یہ ہے کہ ہمارے یہاں اوپینین میکرز اور رائے سازوں کا بھی سیاست کے بارے میں علم حددرجہ عامیانہ ، سطحی اور اوٹ پٹانگ باتوں اور سنی سناٸی معلومات پر مبنی ہوتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہمارے یہاں پڑھنے کی زحمت گوارہ نہیں کی جاتی۔

پڑھنے ، مطالعہ کرنے ، سوچنےسمجھنے ، غوروفکر اور مشاہدہ کرنے کے بغیر جس چیز کے بارے میں جو بھی اوپنین یا رائے بنی گی وہ عامیانہ اور سطحی ہی ہوگی۔

آج کا دور معلومات یا انفارمیشن کا دور ہے۔ بنیادی نوعیت کی معلومات کا حصول بہت آسان ہے ۔ گوگل اور یوٹیوب نے معلومات کے سمندرکو کوزے میں سمو دیا ہے۔ کسی بھی موضوع پہ ہزاروں کتابیں ، آرٹیکلز اور تحقیقات آپ سے محض ایک کلک کی دوری پہ ہیں۔ ایسے میں بنیادی سیاسی و سماجی مسائل کے بارے میں پڑھ لینا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

ہمارے سیاسی مسائل کی سب سے بڑی وجہ سیاست کے علم سے عدم واقفیت ہے۔ رائے سازوں ، اوپینین میکرز اور دانشوروں کی کم علمی اور کج فہمی کا تو کیا رونا، وہ لوگ جو سیاست کو اپنا پروفیشن اور کیرئیر بناتے ہیں ، سیاستدان، وہ بھی سیاست کو پڑھ کر، سمجھ کر اس فیلڈ میں نہیں آتے، نا ہی کتاب سے تعلق استوار رکھتے ہیں۔

سیاستدان ہی ملکوں اور قوموں کے راہبر ہوتے ہیں ۔ اگر وہ خود درست راستے سےناآشنا ہوں گے ، کنفیوز اور منتشرالخیال ہوں گے ، خیال کی پختگی سے عاری ہوں گے تو قیادت کس طرح کرسکیں گے ؟ جسے خود رستے کا علم نہ ہووہ کسی اور کی راہبری کیا کرے گا ؟

دنیا کے تمام بڑے لیڈرز ، قائدین، مصلحین اور انقلابی راہنماٶں میں بے پناہ مطالعے کی عادت یکساں نظر آتی ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے دنیا بدل ڈالی، اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے مطالعے کے عادی تھے۔ تمام عظیم لیڈروں نے اپنی تربیت جیلوں میں یا جلاوطنی کے زمانے میں گہرے مطالعے سے خود کی۔ جیل یا جلاوطنی کے زمانے نے انہیں مطالعے کے لیے وافر وقت میسر کیا ۔ اسی زمانے میں انہوں نے فکر وعمل کی یکسوئی حاصل کی اور پھر جدوجہد کے میدان میں اترے۔

پاکستان میں گیلپ کے سروے کے مطابق 78فیصد خواندہ پاکستانیوں نے نصابی کتب کے علاوہ کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی ۔ اسی سروے کو آپ سیاسی قیادت سے ریلیٹ کرکےان کے ذوقِ مطالعہ کا اندازہ لگاسکتے ہیں ۔

پاکستانی سیاست ایکٹوازم کے گرد گھومتی ہے ۔ ظاہربیں( Extroverts ) کے پاس اول تو وقت کم ہوتا ہے ، وقت ہو تو مطالعے کا ذوق نہیں ہوتا ۔ اس لیے نہایت سطحی علم کے حامل لوگ محض ایکٹو ازم کی بنیاد پہ پارلیمنٹ تک کا حصہ بن جاتے ہیں ۔

اب پارلیمنٹ تک پہچ تو گئے مگر وہاں جا کر کرنا کیا ہے ؟ ستانوے فیصد پارلیمنٹرینز کو اس کے بارے میں فرسٹ ہینڈ نالج نہیں ہوتا ۔ ستم بالائے ستم ان کے مصاحبوں اور دوستوں میں بھی ایسے لوگ شامل نہیں ہوتے جو انہیں ان کے فرائض اور ذمہ داریوں سے آگاہ کرسکیں۔

سیاست کے مطالعے کا مطلب سیاسات میں ڈگری حاصل کرنا نہیں بلکہ تاریخ ، فلسفے ، ادب اور سماج کے گہرے علوم کو پڑھنا اور سمجھنا ہے۔ کتاب پڑھنا تو بڑے دور کی بات ، انقلابی نظریے اور منشور رکھنے والی جماعتوں کے ذمہ داران کی گفتگو بعض اوقات بچوں کی سی ہوتی ہے۔ وہ سنی سنائی باتوں سے کام چلاتے اور چند تقریریں رٹ کر انہی سے ہی کام چلاتے رہتے ہیں۔

جب تک معاشرہ سماجی علوم کی اہمیت و افادیت کو نہیں سمجھے گا تب تک سیاسی پسماندگی کا شکار رہے گا ۔ جب تک ذہین ترین طبقہ سیاسی وسماجی علوم کی طرف نہیں آئے گا تب تک معاشروں کو بدلنا ناممکن ہے۔

فکری انقلاب کے بغیر کوئی دوسرا انقلاب یا تبدیلی لانا ناممکن ہے ۔ ایسی تبدیلی آبھی جائے تو وہ عارضی تبدیلی ہی ہوگی ، مستقل اور پائیدار تبدیلی کبھی نہیں بن سکتی۔

جب تک سیاسی تحریکوں اور جماعتوں کی صفِ اول کی قیادت سیاسی و سماجی علوم سے گہری واقفیت حاصل نہیں کرتی ، وہ کوٸی ڈھنگ کا کام سرانجام نہ دے سکےگی۔ ملکی مسائل کا ادراک ، معاشرے کا درست اور معروضی تجزیہ ، افراد کے رویے اور برتاٶ ، ڈیموگرافکس سے گہری واقفیت ، پلاننگ ، سٹریٹیجی اور مینجمنٹ کو سمجھے بغیر ہوائی قلعے تو ضرور تعمیر کیے جاسکتے ہیں مگر برسرِزمین کوئی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔

میں جب سماجی و سیاسی علوم کے مطالعے کی بات کرتا ہوں تو اس سے میری مراد ڈگری کا حصول یا اکیڈیمک مطالعہ نہیں ہے ۔ میرے نزدیک علم وہ ہے جسے برتا جا سکے ، جسے عمل میں ڈھالا جا سکے ۔ اس علم کو Workable Knowledge کہتے ہیں ۔ یہ علمِ ِ نافع انسان کو مطالعے ، سوچنے ، غوروفکر کرنے اور گہرے مشاہدے کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے۔

سیاست دانوں کے لیے اسی علم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اچھا سیاست دان معاشرے کو کنفیوز نہیں کرتا، معاشرے میں مسائل پیدا نہیں کرتا ، معاشرے میں انارکی اور انتشار کا سبب نہیں بنتا ۔ اچھے سیاست دان کا کام قوموں کو یکسوئی بخشنا ، مسائل کا درست مگر آسان اور قابلِ فہم تجزیہ پیش کرنا اور ان مسائل کا قابلِ عمل حل پیش کرنا ہوتا ہے۔

ایک اچھا سیاست دان دانشور بھی ہوتا ہے مگر نرا دانشور نہیں ہوتا ۔ سیاست دان کے پاس نہ صرف مسائل کی وجوہات ہوتی ہیں بلکہ ان کا حل بھی موجود ہوتا ہے۔ اور صرف حل ہی موجود نہیں ہوتا بلکہ execution کی حکمت عملی بھی ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں سیاست دان پرابلم سولور ہوتا ہے ۔ بڑے سے بڑے مسئلے کا حل نکال لینا اور نامساعد حالات و مشکلات میں نئے راستے نکال لینا ہی سیاست دان کا خاصہ ہوتا ہے۔

لوگوں کی اکثر یت کو مسائل کا رونا رونے کی عادت ہوتی ہے لیکن ان کی اکثریت مسائل کی وجوہات کا کھوج لگانے سے قاصر ہوتی ہے۔ اس کے بعد اوسط ذہانت کے حامل لوگ مسائل کا درست تجزیہ بھی کرلیتے ہیں لیکن وہ اس کا حل پیش کرنے سے قاصر رہتے ہیں ۔ ذہین لوگ مسائل کے حل بھی پیش کردیتے ہیں لیکن وہ ان عملی اقدامات سے واقف نہیں ہوتے جو ان مسائل کو حل کرنا کے لیے درکار ہوتے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں وہ یہ تو جانتے ہوتے ہیں کہ ” کیا “ کرنا چاہیے مگر ” کیسے“ کرنا چاہیے اس سے نا بلد ہوتے ہیں ۔

صرف جینیس لوگ ہی مسائل کے درست تجزیوں سے لے کر مسائل کے حل کے لیے درکار درست عملی اقدام کرنے کے قابل ہوتے ہیں ۔ معاشرے میں ان لوگوں کی تعداد نہایت کم ہوتی ہے۔ یہ دراصل ایک صلاحیت ہے جس کا حصول ممکن ہے ۔ اس فن کو سیکھا جاسکتا ہے ۔ مسائل کو حل کرنا ایک ذہنی اپرووچ کا نام ہے۔ اسی طرح عملی اقدام کی صلاحیت کا ہونا ایک آرٹ اور مہارت ہے جسے سیکھا جا سکتا ہے۔

سیاست کومحض دولت ، عزت ، شہرت اور طاقت کے حصول کا ذریعہ سمجھ لینا درست نہیں بلکہ یہ تو قوم بنانے ، معاشرے کو سنوارنے ، افراد کا معیارِ زندگی بہتر بنانے ، ایک خوبصورت مستقبل کی تشکیل کرنے اور آنے والی نسل کو ایک بہتر جہان دے کرجانے کی بھاری ذمہ داری کا نام ہے۔ سیاست تو دراصل ” فنِ جہانبانی “ ہے۔ اور جہانِ نو کی تعمیرعرق ریز مطالعہ کی عادت کے بغیرممکن نہیں ہے۔

(زیرِتحریر کتاب ” سیاست ، فنِ جہانبانی “ سے ایک ٹکڑا )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں