’وقت نیوز‘ پر بُرا وقت کیوں آیا؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبدالقیوم فہمید

سنہ 2009ء اور 2010ء کے دوران راقم کو پاکستان کے سب سے معتبر نظریاتی ابلاغی ادارے “نوائے وقت” کے نوزایدہ ٹی وی چینل “وقت نیوز” کے لاھور اور اسلام آباد نیوز اسٹیشنز میں کام تجربہ ہوا۔ باقاعدہ نیوز سیکشن میں کام کا یہ پہلا موقع تھا مگراس دو سالہ عرصے میں اپنے سینیر صحافی ساتھیوں سے بہت کچھ سیکھا وہیں کچھ ایسی تلخ یادیں بھی لوح دماغ پر مرتسم رہ گئیں۔ وقت نیوز کے ساتھ وابستگی کا زیادہ وقت لاھور میں گزرا جبکہ چند ماہ اسلام آباد میں بھی وقت نیوز کا اندرونی تماشا دیکھا۔
یہ چند سطور لکھنے کا مقصد صرف یہ یاد دلانا ہے کہ وقت نیوز کے بارے میں جن خدشات کا آج سے کئی سال پیشتر اظہار کیا جا رہا تھا ، بالآخر وہ درست اور سچ ثابت ہوئے۔ سنہ 2009ء میں جب وقت نیوز جوائن کیا تو میرا واسطہ “منجھے” ہوئے سینیر صحافی زاھد رفیق جیسے نام نہاد “صحافی بابوں” سے پڑاجو خود کئی سال کی مغز ماری کے باوجود ابھی صفر پر کھیل رہے تھے۔ زاھد رفیق صحافی سے ٹرک ڈرائیور زیادہ لگتے۔ کاش کہ وہ جتنا زور بلا وجہ کی ہنگائی آرائی اور’’پھڑ لو پھڑلو‘‘ پر صرف کرتے تھے اتنا پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی بہتری پر لگاتے توبہت مفید ہوتا مگر میں آج تک یہ جاننے سے قاصر ہوں کہ زاھد صاحب کو آخر کس برتے پر میں ‘صحافیت’کی دم لگائی تھی۔
میرے تمام احباب اس بات سے اتفاق کریں‌ گے کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے سیکشن میں کام کا طریقہ کار الگ الگ ہوتا ہے۔ خیر سے زاھد صاحب اپنا گھر کا غصہ نیوز روم میں اپنے ماتحتوں پر نکالتے۔ ان کے سوا باقی بیشتر احباب ہونہار اور باصلاحیت تھے۔ اگرچہ الیکٹرانک میڈیا میں کام کا تجربہ کم لوگوں کو تھا، البتہ ہرایک میں سیکھنے کی دھند ضرور پائی جاتی تھی۔

کچھ عرصہ بعد شفٹ تبدیل ہوئی تو صبح کی اس اہم شفٹ کی انچارج محترمہ میڈم عنبر شاھد تھیں۔ انہوں ‌نے راقم کی پیشہ وارانہ کم زوریوں کی نشاندہی، اصلاح ، رہ نمائی اور حوصلہ افزائی میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اس شفٹ میں سینیر صحافی عرفان کلیم کو استاد کا درجہ نہ دینا حق تلفی ہوگی۔ ان کے خبر نگاری کے ماہرانہ فن سے بہت متاثر ہوا۔ برادر حسنین خواجہ، طاہر رشید، نسیم نیازی، فاروق سپرا ، عاطف بٹ، محمد عاصم اور طاھر ملک جیسے احباب الیکٹرانک میڈیا میں پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی انجام سے بہ خوبی واقف تھے۔ یہاں شاہد ملک صاحب کا ذکر کرنا ناگزیر سمجھتا ہوں۔ ابلاغیات کے فن میں میں وہ ہم سب کے ہردلعزیزاستاد ہیں، وہ جہاں بھی ہیں اللہ کریم انہیں صحت وتندرستی کے ساتھ رکھے۔ مجھے ذاتی طورپر شاہد صاحب سے بھرپور استفادہ نہ کرپانے کا قلق ہے، تاہم جتنا کچھ سیکھا وہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ افسوس کے شاہد صاحب جیسے مہان صحافی اساتذہ کو ادارے کی بہتری کا فری ہینڈ دیا جاتا تو وقت نیوز پر ایسا برا وقت کبھی نہ آتا۔ زبان وبیان،تلفظ اور بول چال میں وہ ید طولیٰ ہی نہیں بلکہ وہ پورے ادارے کے لیے ایک قیمتی اثاثہ تھے۔
اس وقت مجید نظامی صاحب حیات تھے مگر پیرانہ سالی کے باعث وہ ٹی وی چینل کو زیادہ توجہ نہیں دے پاتے تھے۔ ٹی وی چینل کے مدار المہام شخصیات کے بارے میں اس وقت بھی کئی افواہیں گردش کرتی رہیں۔ جس خاتون کو ٹی وی چینل کا “سی ای او” بنایا گیا تھا اس کے شوق ہی نرالے تھے، جبکہ پیشہ وارانہ صحافت کے حوالے سے ان کا تجربہ اکثر سوالیہ نشان ہی رہا۔ ان کے حکم پر کی گئی بعض حماقتیں ایسی بھی تھی جس کے نتیجے میں چینل کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا۔
لاھور اسٹیشن کے بعد کچھ عرصہ اسلام آباد میں محترم صابر شاکر صاحب کی نگرانی میں‌ کام کیا۔ صابر شاکر اسم با مسمیٰ شخصیت ہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ انتہائی باخبر اور دارالحکومت میں صحافتی امور کے لیے اہل تھے۔ میری معلومات کے مطابق شاہد ملک اور صابر شاکر صاحبان کا انتخاب مجید نظامی مرحوم نے کیا تھا مگر یہ دونوں حضرات زیادہ عرصہ کے لیے وقت نیوز کا ساتھ نہیں دے پائے۔ اسلام آباد اسٹیشن پر کئی ایسے لوگ بھی دیکھے جن کے ساتھ صحافت کا سابقہ لاحقہ لگانا خود صحافت کے عظیم پیشے کی توہین ہوگی۔ تاہم ان رنگ بہ رنگے صحافتی شہزادوں اور پریوں میں میڈم آسیہ انصر ، بشیر چوہدری اور ریاض کھوسہ باصلاحیت، ہونہا، باخبر اور پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے واقف احباب کی خدمات کو فراموش نہیں‌ کیا جا سکتا۔ یہ سب بھی بہت چلد وقت نیوز کو خیر آباد کہہ گئے۔
وقت نیوز کے ساتھ بہت سے احباب کی وابستگی کی وجہ اس کی نظریاتی پہچان تھی مگر جب ادارے کی باگ ڈور غیر نظریاتی، غیر پیشہ وراور نااہل لوگوں کے ہاتھ میں آئی تو ادارے کا زوال یقینی تھا۔ ایک عرصے تک پاکستان کی صحافت پر راج کرنے والے حمید نظامی اور مجید نظامی کی برسوں کی محنت پر پانی پھیرنے میں فرد واحد کا ہاتھ نہیں۔ وقت نیوز کے کلیدی عہدوں پر بیٹھے بیشتر صحافتی جگادریوں کی پیشہ وارانہ صلاحیت شروع ہی سے سوالیہ نشان رہی۔
ادارے میں نیچے سے اوپر تک کارکنوں کی تربیت اور ان کی پیشہ وارانہ صلاحیت کی اصلاح کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ ہرشخص زبردستی تھوپا گیا ’جُگاڑ‘اور اپنے سرسے بوجھ اتار پھینکنے کی کوشش کررہا ہے۔ رہی سہی کسر کارکنوں کے مشاہروں میں بلا جواز کٹوتیوں سے نکال دی جاتی۔
ٹی وی چینل صرف خبرناموں کا پیٹ بھرنے سے نہیں ناظرین کو نئی معلومات دینے پہچانے جاتے ہیں۔ وقت نیوز کرنٹ افیئرزکے پروگرامات کے حوالےسے اپاہج تھا۔ اگرچہ کسی حد تک وحید صاحب اور بعد میں محترم مطیع اللہ جان نے اس میں جان ڈالنے کی کوشش کی مگر وہ بھی دیر پا ثابت نہ ہوئی۔ پیشہ وارانی کمز وریوں، جگاڑ پن، لاپرواہی اور بے گار نے بالآخر وقت نیوز کو قصہ ماضی بنا دیا۔ اس کے نتیجے یہ ادارہ آگے بڑھنے اور پاکستان میں الیکٹرانک ابلاغیات میں اپنا نام بنانے کے بجائے سرے سے وجود ہی کھو بیٹھا۔ پاکستان سے ٹوٹ کر محبت کرنے اور نظریاتی تشخص کے حامل مجید نظامی کی روح تڑپ رہی ہوگی۔ایسے موقع پر کہاوت یاد آتی ہے “آگ کا بیٹا خاک”۔ اس تجربے سے ثابت ہوا کہ اگر بہترین ادارہ نا اہل لوگوں کی ٹیم کے حوالے کردیا جائے تو وہ اس کا اسی طرح بیڑہ غرق کردیتے ہیں۔ اگر ایک ملک چلانے والی ٹیم بھی نا اہل ثابت ہو نتیجہ سب کے سامنے ہوگا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں