یغورمسلمان، نئی کہانی سامنے آگئی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سائرہ ارم ………

چین بظاہر ایک پرامن ملک ہے لیکن چینی صوبے سنکیانگ میں مسلمانوں کی صورتحال اس کی نفی کرتی ہے ۔ ستمبر 2018 کے نیویارک ٹائمز نے دیگر بڑے مغربی اخبارات کی طرح اس مسئلے کو اٹھایا ۔ جس کے ایک مضمون کا مختصر ترجمہ یہاں دیا جارہا ہے:
"چین کے انتہائی مغرب میں صحرا کنارے لوہے کے تاروں سے گھری ایک عمارت نمایاں کھڑی نظر آئے گی ، یہاں بڑے چھوٹے لال چہرے چینی زبان سیکھتے ، قانون پڑھتے ، لیکچرز سنتے ، قومی ترانے گاتے اور خود تنقیدی مضامین لکھتے نظر آتے ہیں ۔ یہاں عام افراد کا داخلہ ممنوع ہے۔ یہ ختن کا قید خانہ ہے۔ اس علاقے میں سیرو تفریح ممنوع ہے کیونکہ تمام قیدی یغور مسلم ہیں اور یہی ان کا جرم ہے۔
اکتالیس سالہ عبدالسلام مہمت نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ "پولیس نے انھیں ایک جنازے پر قرآن پاک تلاوت کرنے پر گرفتار کرلیا تھا۔ یہ کوئی انتہا پسندی ختم کرنے کی جگہ نہیں بلکہ یہ اپنی نسلی شناخت (یغور )مٹانے کا مقام ہے ۔ ہم لوگ ایک خفیہ فوج کے نرغے میں رہتے ہیں ، ان سب کا مقصد اسلام سے محبت کو ختم کرنا ہے "۔ موجودہ ختن میں لوگ سیکولر، نقاب و داڑھی کی پابندی سے آزاد ، مسجدوں میں جانے کے لئے رجسٹریشن کروا کر کیمروں کے سامنے عبادت کرتے ہیں۔کہیں بھی آنے جانے میں یغور افراد کو شناخت کے سخت مراحل سے گزارا جاتا ہے۔
چین کافی عرصے سے سنکیانگ میں اسلام کو دبانے اور اپنا اثرورسوخ بڑھانے میں کوشاں ہے جس کے لیے وہ یغور قوم پر اس ڈھب کے ظلم کرنے پر اتر آیا ہے ، سنکیانگ کی آبادی کا بیشتر حصہ مسلم نسل پرست ہے جس کی تاریخ میں مذہب،زبان،تہذیب اور کہیں کہیں آزادی کی تحاریک نے چینی بادشاہتوں اور بیجنگ کو غیر محفوظ کردیا۔
"ہم اسلام اور علیحدگی کے خلاف جنگ جیت چکے ہیں”۔ چینی حکومت کا ختن میں یہ اعلان اس بات کا ثبوت ہے۔ بڑے پیمانے پر یغور مسلمانوں کی گرفتاریوں کے علاوہ ارباب اختیار نے لوگوں کے گھروں میں شک کی بنیاد پر کیمرے بھی نصب کئے ہیں ۔بعض دفعہ اپنے ہی گھر میں قید یہ افراد ایک دوسرے سے بات تک نہیں کر سکتے اور نماز بھی ادا کرنے میں یہ کیمرے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ایک طرف یہ ستم اور دوسری طرف چین نے ان سب حقائق کی اقوام متحدہ میں تردید کی ہے ، حالانکہ حکومت کے اپنے ذرائع ان سب کی تصدیق کرتے ہیں ۔ اخبار نیو یارک ٹائمز نے کچھ لوگوں کے خفیہ انٹرویوز بھی کئے جنھیں زبردستی ان کیمپس میں رکھا گیا اور ان سے مذہب بدلنے کے معاہدے پر دستخط لئے گئے۔ سنکیانگ میں اب بڑے پیمانے پر ایسے ادارے قائم ہورہے ہیں جہاں تعلیم دینے کے نام پر تبدیلئ مذہب کوہدف بنا کر مسلم یغور کو قید کیاجاتا ہے۔
مسلم ممالک خصوصاً پاکستان کو اس معاملے میں مداخلت اور احتجاج کرنا چاہئے کیونکہ ایک تو وہ مظلوم مسلمان ہیں دوسرے ہمارے پڑوسی ہیں۔ دنیا بھر کی خبروں پر نظر رکھنے والے میڈیا کو یہ سچ بھی نشر کرنا چاہئے اورپاکستانی سیاست دانوں کو پارلیمنٹ میں بھی یہ مسئلہ اٹھانا چاہیے ۔ بظاہر چین کا رویہ ایک امن پسند ، دوست اور مددگار کا لگتا ہے لیکن درون خانہ معاملے ذرا پیچیدہ ہیں اور ان پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں