گزشتہ روز برطانوی نشریاتی ادارے ‘بی بی سی’ نے ’سنکیانگ کے تربیتی کیمپ میں میری بیوی کو الف برہنہ کیا گیا‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی۔ رپورٹ کے مطابق:
چین کے صوبہ سنکیانگ میں حالیہ دنوں منظر عام پر آنے والے ری ایجوکیشن سنٹرز کے حوالے سے بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ بی بی سی اردو نے ایسے چند پاکستانیوں سے بات کی جن کی بیویاں ان مراکز میں بند ہیں، یا وہاں قید کاٹنے کے بعد رہا ہو کر آئی ہیں۔ انھوں نے جو کہانیاں سنائیں ان سے ان مراکز کے اندر کے حالات اور وہاں ‘تربیت’ حاصل کرنے والوں کے ساتھ سلوک کا اندازہ ہوتا ہے۔
اگر چین میں کاروبار کامیاب ہو جائے تو وہاں شادی ضرورت بن جاتی ہے کیوں کہ وہاں پر کوئی غیر ملکی زمین، جائیداد نہیں خرید سکتا۔
بہت سے پاکستانیوں نے اس لیے وہاں شادیاں کیں کہ وہ اپنی بیوی کے نام پر جائیداد خرید کر اپنے کاروبار کو مستحکم کرسکیں، کیونکہ بقول ان کے، وہ سمجھتے تھے کہ چین پاکستان کا دوست ہے اور وہ پاکستانی شہریوں کو چین میں کبھی بھی نقصان نہیں پہنچائے گا۔
٭ ان کہانیوں میں فرضی نام استعمال کیے گئے ہیں کیوں کہ ان لوگوں کو خطرہ ہے کہ ان کی شناخت ظاہر ہونے سے ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔
ظہیر الدین
ان کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے۔ انھوں نے 2000 میں سنکیانگ سے گارمنٹس اور سبزیوں کی درآمد برآمد کا کاروبار شروع کیا۔ اسی دوران ان کی ملاقات صوبیہ نامی ایک مقامی خاتون سے ہوئی، جو کچھ عرصے بعد شادی پر اختتام پذیر ہوئی۔ اس شادی سے ان کے دو بچے بھی پیدا ہوئے۔
ظہیر جن گارمنٹس کی خرید و فروخت کرتے تھے ان میں عبایا، حجاب اور چادر جیسے کچھ ‘اسلامی’ لباس بھی شامل تھے۔ چینی حکام نے ایک دن دکان پر چھاپہ مارا اور ظہیر کی غیرموجودگی میں صوبیہ کو اپنے ساتھ لے گئے۔ نو ماہ تک ‘تربیتی’ مرکز میں رہنے کے بعد اسے رہائی ملی۔
ظہیر نے بتایا:
‘صوبیہ نے رہائی کے بعد کہا کہ اس کو نو ماہ تک تربیتی مرکز میں رکھ کر اسلام مخالف تربیت فراہم کی جاتی رہی۔ اسے کئی مرتبہ مرد اہلکاروں نے الف برہنہ بھی کیا اور کہا کہ اس پر شرمندگی کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے کھانے میں ہمارے مذہب میں ممنوع قرار دی جانے والی خوراک دی جاتی اور اگر وہ انکار کرتی تو بھوکا رکھا جاتا۔
‘کھانے کے وقت کہا جاتا کہ کھانا مانگو اور ساتھ میں اس کے لیے چین کمیونسٹ پارٹی کا شکریہ ادا کرو۔ تربیتی مرکز میں رقص اور مختصر لباس پہننے کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ مزاحمت پر مرد اہلکار تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔
‘مجھے صوبیہ نے بتایا کہ مرکز میں حکام کی ہدایات کے مطابق وقت گزارنا شروع کردیا تو اس پر نرمی برتی جانے لگی اور پھر ایک روز اس سے اچھے چال چلن کا حلف لے کر اس کا پاسپورٹ ضبط کر کے اس کو مشروط رہائی دے دی کہ وہ اسلامی تعیلمات، مسلمان خاوند اور بچوں سے دور رہے گی۔’
عبدالکریم
اسی طرح کے ایک اور کاروباری گلگت بلتستان کے رہائشی عبدالکریم ہیں جن کی چینی اہلیہ اب تک تربیتی کیمپ کے اندر بند ہیں۔ انھوں نے بتایا:
‘مہینے میں دو تین مرتبہ فون پر بیوی سے بات ہوتی ہے۔ جس میں وہ کوئی بات نہیں کرتی، صرف اتنا کہتی ہے کہ انتظار کیا جائے۔ وہ مجھے بتاتی ہے کہ اس کی تربیت ہو رہی ہے اور وہ بہت اچھے طریقے سے اپنی تربیت مکمل کر رہی ہے اور کوشش کر رہی ہے کہ حکام کو مطمئن کر کے باہر آ جائے۔
اس سے زیادہ کوئی بات نہیں ہوتی۔ چین میں موجود میرے اپنے ذرائع بتاتے ہیں کہ میری بیوی کی جلد رہائی کا امکان کم ہی ہے، اوراس کو نظر بند رکھ کر اسلام مخالف تربیت دی جا رہی ہے، جس میں ان سے تمام وہ کام کروائے جاتے ہیں جو اسلام میں ممنوع ہیں۔’
ذوالفقار علی
ان کا تعلق بھی گلگت بلتستان سے ہے اور انھوں نے بھی ایک چینی خاتون سے شادی کی تھی اور وہیں مقیم تھے۔ انھوں نے بتایا:
‘تقریباً ڈیڑھ سال قبل ایک روز پولیس اہلکار میرے گھر پر آئے اور انھوں نے مجھ سے کہا کہ ہم آپ کی بیوی کو لے کر جارہے ہیں اور اس کو ساتھ اپنے ساتھ کوئی بھی چیز لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔
‘اس موقعے پر میں نے کچھ مزاحمت کی کوشش کی تو انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس وقت کم ہے اس کا فائدہ نہیں ہو گا۔ ایک اہلکار نے میری بیوی کو میرے سامنے بازو سے پکڑا اور تقریباً گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے۔ میری کم عمر بیٹی چلاتی رہی مگر انھوں نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔
‘حکام کو ہمارے گھر میں موجود قرآن مجید اور کچھ ایسے لوگوں سے تعلقات پر اعتراضات تھے جو اسلام پر عمل پیرا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میری بیوی کو اب ری ایجوکیشن سنٹر کے نام پر نظر بند رکھا گیا ہے۔
‘یہ تربیت اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ اس کو سکھایا جارہا ہے کسی بھی مذہب کی انسان کی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔
‘گرفتاری کے شروع کے دنوں میں تو بات چیت نہیں ہوتی تھی مگر اب چار ماہ سے ہر دس دن کے بعد میری بیوی کی فون کال آتی ہے۔ فون پر وہ خود کو نارمل ظاہر کرنی کی کوشش کرتی ہے مگر نارمل ہوتی نہیں ہے۔
‘اس کال کا دورانیہ صرف پانچ منٹ ہوتا ہے اور اس دوران وہ صرف میرا حال چال پوچھتی ہے اور میں اس کا حال پوچھتا ہوں تو مجھے وہ بہت تسلی دیتی ہے کہ میں ٹھیک ہوں اور جلد آ جاؤں گئیں اور اس موقعے پر وہ بچی کا پوچھتی ہے، اور اپنے پانچ منٹ میں سے دو، تین منٹ بچا کر اپنی ماں کے ساتھ بھی بات کرتی ہے۔
‘اس سے کئی مرتبہ کہا کہ بیٹی کے ساتھ بھی بات کرلیا کرو مگر نہیں کرتی اور وجہ بھی نہیں بتاتی بس یہ کہتی ہے کہ میں ایسا نہیں چاہتی۔’
شاہزیب سومرو
شاہزیب کا تعلق سندھ کے ایک کاروباری خاندان سے ہے۔ چین کے سفر کے دوران کاروبار کے سلسلے میں ان کی ملاقات شہلا نامی مسلمان چینی خاتون سے ہوئی۔ دونوں نے مل کر کاروبار شروع کیا اور جلد ہی شادی کر لی۔
تاہم ایک دن مقامی پولیس چھاپہ مار کر شہلا کو ساتھ لے گئی۔ شاہزیب کے مطابق:
’شہلا کو نظر بند ہوئے ایک سال سے زائد ہو چکا ہے۔ مہینے میں تین چار مرتبہ فون پر بات ہوتی ہے۔ وہ بات کا آغاز کرتے ہی مجھے سے کہتی ہے کہ میں تمھیں یاد کرتی ہوں اور بات ختم کرنے سے پہلے کہتی ہے کہ ‘مجھے بھولنا نہیں میں باہر آ کر تمھارے پاس ہی آؤں گی۔
‘میرے پاس جو اطلاعات ہیں ان کے مطابق شہلا اور گرفتار خواتین کی رہائی کا جلد امکان نہیں ہے۔ کچھ خواتین دو دو سال بعد رہا ہوئی ہیں مگروہ خواتین اب اپنے پاکستانی خاوندوں کے ساتھ رابطہ نہیں رکھتیں۔
‘میری اطلاع کے مطابق رہا ہونے والیوں میں سے تین خواتین پاکستان آئی ہیں مگر یہاں پر بھی ان کے لیے مسائل موجود ہیں۔’
ان دنوں میں مغربی ذرائع ابلاغ میں سنکیانگ کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی کہانیاں بڑی تعداد میں شائع ہورہی ہیں۔امریکا سے برطانیہ تک کے کسی بھی ذریعہ ابلاغ کا جائزہ لینے سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ وہ سنکیانگ سے متعلق خبروں اور کہانیوں کو ایک مہم کی صورت میں شائع کررہے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مغربی ذرائع ابلاغ حقوق انسانی کے تحفظ کے لئے خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ سیاہ جھوٹ پر مبنی رپورٹس شائع کررہے ہیں۔ بس! وہ اس ساری صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ تصور کیجئے اگر پاکستانی قوم کے اندر وہ چین کے خلاف جذبات کو ابھارنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر کیا عالم ہوگا۔
اس سارے منظرنامے میں چینی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ علیحدگی پسندی کے خلاف مہم کے نام پر مذہبی آزادیوں کو ختم نہ کرے، وہاں کے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ نہ کرے۔ اگرچینی حکومت ایسا کرتی ہے تو وہ اپنے خلاف مغرب کی بڑی مہم کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوجائے گا، بصورت دیگر “روڈ اینڈ بیلٹ انیشی ایٹو” جیسے عظیم منصوبے کو خطرات لاحق ہوں گے اور یہ 2049 میں مکمل ہونے کے بجائے کبھی مکمل نہ ہو۔