دعاعظیمی، اردو افسانہ نگار

کلام گلابوں کی خوشبو کا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

دعاعظیمی :

اس کے چاروں طرف پھول ہی پھول تھے، مکمل کھلے ہوئے، شباب کو چھوتے ہوئے، معصوم ادھ کھلے، نئی نئی آنکھ وا کرتے ہوئے، نرم جوہی کی کلیاں، پراسراریت سے معمور کسی دوشیزہ کے آنکھ میں پھیلے کاجل کی مانند، ہریالی ہی ہریالی کسی بیاہتا کے آنگن کے جیسی، ماں کے شفیق دامن کے جیسی۔

اس نے محبت سے دیکھا، ہرا رنگ نیلے رنگ کی انگلی کو چھو رہا تھا، ہوا سہیلی کی طرح اٹھکیلیوں اور پہیلیوں میں مگن تھی….. صبح کا منہ کسی ماں نے اسکول جانے والے بچے کی طرح زبردستی دھلایا تھا ابھی صبح کی آنکھ میں نیند باقی تھی….

باد بہاری کے آنچل میں ٹھنڈک کے محبت کے رسیلے پیامات تھے…. آج تو چھٹی کا دن تھا..بچے دیر تک سوئے رہنے کا ارادہ رکھتے تھے، بڑے اپنے نظام الاوقات کے مطابق کام میں مصروف نظر آنے کی کوشش کر رہے تھے… سارے بڑے ایک سے کیوں ہو جاتے ہیں….. جیسے سارے شجر سایہ دار……
سوائے ان کے جن کا تنا کچھ زیادہ ہی سیدھا ہو کھجور کی طرح….. ایک درخت پھل دیتا ہے ایک سایہ…..

ایک کو دوسرے پہ فضیلت تو ہے اس فضل ربانی کو دل سے تسلیم کر لیں تو دل میں ملال پیدا نہیں ہوتا، رنجش نہیں رہتی… ایک دوسرے کو مکمل خامیوں اور خوبیوں سمیت قبول کر لینا اور خود اپنی ذات کو اپنی خامیوں سمیت قبول کر لینے میں ہی عافیت ہے. سب سے پہلا درگزر اپنی ہستی سے کرنا چاہیے اور پھر کرتے چلے جانا چاہیے

مگر پھر پرفیکشن
ہا ہا ہا

سب فضول ہے ….. جو پرفیکٹ ہوتے ہیں وہی پرفیکشن کے رسیا ہوتے ہیں…
کامل ہونا خاص کی نشانی ہے اور ہنر کا وقت پہ سیکھ جانا اور فطری رحجانات کا ہونا اس کے لیے دونوں ضروری ہیں مگر کوشش اور کوشش ہی اہم ہے۔

ہوا میں سرشاری ہے اور ہرا رنگ نیلے کی انگلی پکڑنے کو مچل رہا ہے….نظارے تیزی سے پیچھے کی جانب بھاگنے لگے گلابوں کی خوشبو موتیے کی کلیوں سے کلام کرتی رہی…


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں