رضوان رانا :
چین کے جنوب مشرقی شہر ہینگزو میں ایک کمرے سے کاروبار شروع کرنے والا پینتیس سالا نوجوان مایون جسے دنیا ’ جیک ما ‘ کے نام سے جانتی ہے، نے پچپن سال کی عمر میں ٹھیک بیس سال بعد اپنی کمپنی علی بابا سے علیحدہ ہونے کا اعلان کر دیا جبکہ آج ان کی کمپنی چار سو ساٹھ بلین ڈالر مالیت کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی ای-کامرس کمپنی بن چکی ہے۔
جیک ما کو اگر علی بابا کا طلسم کہا جائے تو غلط نہ ہو گا مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد علی بابا کا سحر بڑھے گا یا ٹوٹ جائے گا ۔ اس کے لیے تو وقت کے ساتھ چلتے ہوئے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا. گو کہ جیک نے اپنے جانشین کے لیے اپنی کمپنی میں سب سے بہترین امیدوار چنا جو دس سال سے اسے تیار کر رہے تھے اس پوزیشن کے لیے۔ واضح رہے کہ پانچ سال پہلے انہوں نے ’ علی بابا ‘ میں اپنے جانشین کے طور پر ڈینیل زھینگ کا انتخاب کیا تھا جو اس وقت سے بطور سی ای او خدمات انجام دے رہے ہیں.
جیک ما نے ڈینیل زھینگ کو جانشینی سونپنے کے لیے کئی سال تک تیار کیا ۔ اکثر قیادت کی تبدیلی کاروباری اداروں میں بے یقینی کی کیفیت پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے، تاہم علی بابا اور ڈینیل زھینگ پہلے ہی ایک دوسرے سے اچھی طرح مانوس ہیں ۔
ڈینیل زھینگ کے بارے میں جیک ما کہتے ہیں کہ
بطور چیف ایگزیکٹو آفیسر ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد ڈینیل نے اپنی بہترین ذہانت، کاروباری سوجھ بوجھ اور لیڈرشپ خصوصیات کا مظاہرہ کیا ہے ۔ ان کی قیادت میں علی بابا نے مسلسل کئی سہ ماہیوں تک پائیدار ترقی دِکھائی ہے۔ وہ بہترین تجزیاتی ذہن کے مالک ہیں جبکہ کمپنی کے مشن اور ویژن کو بہت پیار سے دل کے قریب رکھتے ہیں.
اب ہم اس انسان کا تذکرہ کرتے ہیں جس نے بظاہر ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ ایک چھوٹے سے کمرے سے محض بیس سال کے اندر دنیا کی سب سے بڑی کمپنی قائم کی جس کی فروخت کا حجم امریکا کی سب سے بڑی ای-کامرس کمپنی ایمازون سے تین گُنا زیادہ ہو. یہ بے شک معجزہ جیسا کام ہے مگر اپنی محنت لگن اور انتھک جہد مسلسل سے کرشمہ کر کے دکھانا صرف جیک ما کو ہی آتا ہے.
مایون نے دس ستمبر انیس سو چونسٹھ میں کمیونسٹ چین کے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی. یہ وہ دور تھا جب کمیونسٹ چین مغرب سے کٹا ہوا تھا. ستر کے عشرے میں امریکی صدر نکسن کے دورہ ہینگزو کے بعد یہ شہر سیاحوں کی واچ لسٹ پر آیا اور آہستہ آہستہ سیاح اس خوبصورت شہر کو دیکھنے کے لیے آنے لگے.
مایون اس وقت پندرہ سولہ سال کے نوجوان تھے، صبح سویرے اُٹھ کر شہر کے مرکزی ہوٹل پہنچ جاتے تھے جہاں وہ سیاحوں سے انگریزی سیکھا کرتے تھے. والدین سے ’ مایون ‘ نام پانے والے اس بلند نظر شخص کو جیک کا نام ایک سیاح نے ہی دیا تھا. ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جیک ما کو کالج میں داخلہ لینے کیلئے دو بار انٹری امتحان میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور دو تین بار کوشش کے بعد وہ کامیاب ہوئے.
گریجویشن کے بعد متعدد ملازمتوں کے لیے رَد کیے جانے کے بعد بالآخر مقامی یونیورسٹی میں انھیں انگلش پڑھانے کی نوکری مل گئی جہاں وہ ماہانہ بارہ ڈالر کمایا کرتے تھے.
چند سال پہلے جیک ماہ نے اپنے ایک خطاب میں یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی بھی کئی بار اپلائی کیا مگر ہر بار مسترد کیے گئے.
جیک ما نے انیس سو پچانوے میں پہلی بار امریکا کا دورہ کیا اور جب وہاں انٹرنیٹ استعمال کرنے کا موقع ملا تو اس وقت انھیں کمپیوٹر یا کوڈنگ کا کوئی تجربہ نہیں تھا. دراصل جیک ما نے ان ہی دنوں ترجمہ کرنے کے کام کا آغاز کیا تھا اور ایک چینی کمپنی نے انھیں اپنے امریکی کلائنٹ کے پاس پھنسی ہوئی رقم کی واپسی کے لیے امریکا بھیجا تھا.
انٹرنیٹ پر انھوں نے جب ایک پراڈکٹ سرچ کی تو انھیں یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ سرچ کے نتائج میں ایک بھی چینی برانڈ یا کمپنی شامل نہیں تھی. اور یہی وہ لمحہ تھا جب انھوں نے چین کے لیے ایک انٹرنیٹ کمپنی کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا.
دلچسپ بات یہ ہے کہ دو دفعہ وہ انٹرنیٹ کمپنی قائم کرنے کی کوشش میں بری طرح فیل ہوئے۔ یہ کام چل نہ سکا.
پھر تقریباً چار سال بعد جیک ما نے اپنے سترہ کے قریب دوستوں کو ایک دعوت پر مدعو کیا اور انہیں علی بابا کمپنی کے بارے مکمل سمجھاتے ہوئے اس آن لائن مارکیٹنگ پلس کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے پر راضی کر لیا.
اکتوبر انیس سو ننانوے تک یہ کمپنی پچیس ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکی تھی. ساتھ ساتھ سن دو ہزار کے شروع میں جیک ما ای بے کی طرح ایک اور چینی کمپنی ٹاؤ باؤ بھی بنا چکے تھے. چند سال کی کامیابی کے بعد سب سے بڑا بریک تھرو تب ملا جب دو ہزار پانچ میں یاہو نے چالیس فی صد حصے داری کے بدلے علی بابا میں ایک بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کر دیا.
ستمبر دو ہزار چودہ میں علی بابا نیویارک اسٹاک ایکسچینج پر لسٹ ہوئی. اس موقع پر جیک ما نے ایک ٹیلی ویژن چینل کو بتایا کہ آج ہم نے جو چیز حاصل کی ہے وہ لوگوں کا پیسہ نہیں ان کا اعتماد ہے۔ اس وقت نیویارک اسٹاک ایکسچینج کی تاریخ میں ڈیڑھ سو ارب ڈالر کے ساتھ امریکا میں لسٹڈ کسی بھی کمپنی کا یہ سب سے بڑا اکاؤنٹ تھا اور اس آئی پی او کے ساتھ جیک ما چین کے امیر ترین شخص بھی بن چکے تھے.
جیک ما سحر انگیز شخصیت کے مالک انسان ہیں. وہ جب بولتے ہیں تو دنیا انھیں دھیان سے سُنتی ہے۔ جن میں سربراہانِ مملکت، ٹاپ بزنس لیڈرز، انٹرپرینیورز اور طلبا سب ہی شامل ہیں.
چین کا امیر ترین شخص ہونے کے باوجود، جیک ما میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی اور وہ اب بھی سادگی کے ساتھ رہنا آر زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں. انھیں پوکر کھیلنا، مراقبہ کرنا اور تائی چی پریکٹس کرنا پسند ہے.
جیک ما اپنی ذاتی زندگی کو میڈیا کی چکاچوند روشنیوں سے الگ رکھنا پسند کرتے ہیں. ان کی شریک حیات کا نام زھینگ یِنگ ہے. جن سے وہ اسکول کے زمانے میں ملے تھے اور گریجویشن کے بعد شادی کرلی تھی اور ان کے دو بچے ہیں، ایک لڑکا اور ایک لڑکی.
اب ریٹائرمنٹ کے بعد چیک ما صرف علی بابا کی پارٹنر شپ گورننگ باڈی میں شامل رہ کر اپنا کردار ادا کریں گے جو اڑتیس افراد پر مشتمل ہے اور جس کا علی بابا کی گورننس میں ایک اہم رول رہتا ہے.
چیک ما کے متعلق جان کر ہم اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ کئی کئی بار مسترد ہونا یا فیل ہونا اس بات کی ضمانت نہیں کہ آپ ایک ناکام شخص ہیں.
مایوس نہ ہوں اور اپنے اندر جھانکیں اور دیکھیں کہاں آپ سے غلطی ہو رہی ہے، اس کو درست کریں اور پھر ایک نئے جذبے سے اپنی کوشش کو تیز کردیں.
اور یہ کبھی نہ بھولیں
جیت اور ہار آپ کی سوچ پر منحصر ہے ۔
اگر مان لو ہار
اگر ٹھان لو تو کوئی آپ کو جیتنے سے روک نہیں سکتا.
یاد رکھیں جب تک آپ اپنے آپ سے نہ ہارو کوئی آپ کر ہرا نہیں سکتا. اگر آپ سورج کی طرح چمکنا چاہتے ہیں تو جناب والا ! پھر سورج کی طرح جلنا بھی سیکھیے….!!!