درخت، استور، گلگت بلتستان

رٹو سے آگے ( 7 )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کا ایک دلچسپ اردو سفرنامہ

ابن فاضل :

رٹو سے آگے ( 1 )

رٹو سے آگے ( 2 )

رٹو سے آگے ( 3 )

رٹو سے آگے ( 4 )

رٹو سے آگے ( 5 )

رٹو سے آگے ( 6 )

اللہ کریم کو جتنا زیادہ سائنس کے طالب علم جان سکتے ہیں گمان فاضل ہے کہ دوسرے لوگوں کے لیے وہ مشکل ہے. اور جتنا تھوڑا بہت سائنس کا تعارف ہمیں حاصل تھا، اس کے مطابق اللہ کریم کی تعریف کیلئے ہمارے پاس ” لامحدود امکانات “ سے بہتر کوئی الفاظ نہیں تھے مگر آج ہم اس تعریف میں تبدیلی کرنے پر مجبور تھے۔

اب ہمارے مطابق مکمل تعریف یوں تھی. ” لامتناہی حسن اور لامحدود امکانات “ . نہیں جانتے کہ ہم سے کیسے اتنی بڑی چوک ہوگئی. کہ ہم نے حسن کو قدرت سے جدا کردیا. ہم نے بارہا سن رکھا تھا کہ اللہ جمیل ہے اور جمال سے محبت رکھتا ہے. مگر ان دیکھے جمال کی شبیہ اس ذہن کم کوش کے قرطاس تخیل پر بن کے ہی نہیں دے رہی تھی. جب تک ہم نے راما جھیل نہیں دیکھ لی تھی.

کسی قدر گہرے پتھریلے پہاڑوں پر برف نے جانے کب سے اپنا مسکن بنا رکھا تھا. اوائل جون کی دھوپ کی تمازت، ان برفانی پہاڑوں کی سرد مہری سے سرٹکڑا کر اپنے ہونے کا احساس دلا رہی تھی. یوں لگا جیسے اس دھوپ کی کئی ماہ کی کوشش سے کچھ گہرے کالے پتھروں نے برف کے کفن سے نجات پاکر پھر سے سانس لینا سیکھ لیا ہے. اور باقی اس سعی میں ہوں.

تین اطراف سے ان کالے سفید پہاڑوں نے کندھے سے کندھا ملا کر ایک پالنا سا بنایا ہوا تھا. جس کی آغوش میں کسی شیرخوار کے نامہ اعمال سا شفاف زمرد پانی ایک چھوٹے سے پرسکون ساگر کی طرح خاموش حسن فطرت کی ترتیب میں اپنی تفویض کردہ ذمہ داریاں نبھا رہا تھا . اس شفاف سیال کی سطح پر جابجا کونج کے پروں سے سفید برف کے تودے تیرتے پھررہے تھے.

جب فطرت نے اپنے حسنِ لامتناہی کی کچھ جھلک دکھانے کا فیصلہ کرہی لیا تھا تو پھر اس سے بہتر مظاہرہ امتزاج رنگ وبو کون کرسکتا ہے. اور اس خطہ ارضی پر یہ مظاہرہ اپنے اوج کمال پرتھا. آپ بھی مشاہدہ کریں، وہ دیکھیں سامنے برف سے لدے کالے سفید پہاڑوں کے دامن میں گہرے سبز پانیوں کی جھیل پر تیرتے ہوئے برف کے تودے، پس منظر میں صاف گہرا نیلا آسمان جس پر سنبل کی روئی ایسے سفید بادل، فضاؤں میں کیسری اور ارغوانی پرندے چہکارتے ہوئے جیسے اس ارمغانِ فطرت پراس کا شکرانہ ادا کررہے ہوں.

اور جب وہ خاموش ہوں تو ماحول میں اس قدر سکوت اور طلسم کہ حیرت سے گم بت بنے بس دیکھا کئے. ایسا لگا ایقان کو ایک نئی جہت ملی کہ جو خالق ایسا حسن اس عالمِ عارضی پر تخلیق کرسکتا ہے اس کے لیے عالم ابد میں جنت تخلیق کرنا کیا مشکل رہا ہوگا.

جیسے خالق اپنی رحمت کی تفہیم کیلئے ممتا کی اکائی استعمال کرتا ہے. ویسے ہی جب سے ہم نے راما جھیل کا یہ نظارہ دیکھا ہے خوبصورتی کے پیمانے کیلیے اسے ہی استعمال کرتے ہیں. تب سے اس کائنات میں کوئی حسن راما کے حسن کا دسواں حصہ ہے اور کوئی اس کا ایک چوتھائی.

راما جھیل، رٹو
راما جھیل، رٹو

وہ جو کہتے تھے کہ سر شام اس پر پریاں اترتی ہیں. بیچارے سچے تھے. اگر کہیں پریاں تھیں اور انہیں حسنِ فطرت کی پہچان ملی تھی تو پھران کی اٹھکھیلیوں کے لیے روئے ارضی پر اس سے بہتر جگہ اور کہاں ہوگی. یہیں کھڑے کھڑے اس نامعلوم گورے کا یہ مقدمہ کہ
Beauty thy name is Rattu.
بھی دل کی عدالت نے بنا سنوائی کے ہی خارج کرتے ہوئے اپنا یکطرفہ، یک سطری فیصلہ سنا دیا.
Beauty thy name is Rama.
بھئی ہماری راما ہماری مرضی. بھائی انگریز تم چلو بھاگو یہاں سے.

پھر نہ جانے کتنی حیات ہم اس نظارے کو گم سم بے حرکت دیکھتے رہے. جی چاہے کہ اس کا سارا حسن اپنے اندر جذب کرلیں تاکہ باقی کی زندگی اس حسن کے زیر اثر گزار دیں. مگر وہ کیا ہے کہ اس کائنات میں ضرورت سے سفاک شاید ہی کوئی چیز ہو. اور ضرورت جب کھانے کی ہو جسے عرف عام میں بھوک کہتے ہیں تو پھر اس کے سامنے حسن کیا بیچتا ہے یہ تو جسموں کے سودے کروا دیتی ہے، جانوں کے نذرانے دلا دیتی ہے. سو ہم بھی اس کمبخت بھوک کے ہاتھوں مجبور اس طلسم کدہ ارضی کو خیر باد کہنے پر مجبور ہوئے تھے.

اکثراوقات پہاڑوں سے واپسی کا سفر انتہائی آسان ہوتا ہے اور چڑھائی کی نسبت بہت جلد طے ہوتا ہے. اس کے علاوہ یہ شاید کوئی نفسیاتی گنجل بھی ہے کہ جو راستہ ان دیکھا ہو اس پر سفر کٹنے میں نہیں آتا. جبکہ دیکھے بھالے رستے بہ سرعت تمام طے ہوتے جاتے ہیں. لہذا ہم بہت جلد واپس ریسٹ ہاؤس پہنچ گئے. کھانے کیلئے ریسٹ ہاؤس کے متولی سے پہلے سے گٹ مٹ کی جاچکی تھی. سو ہم سرکاری سہولیات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے تازہ دم ہوکر کھانے کے انتظار میں سستانے لگے.

آلو کی بھجیا نے مرغ مسلم کا سا مزا دیا. ساتھ توے کی باریک مگر بڑی بڑی روٹیاں جن کا الٹا، سیدھا ایک سا تھا ہمارے حیطہ تصورمیں آج بھی مجسم ہیں. کھانا خوب ڈٹ کر اور مزے لیکر کھایا گیا. چائے کے بنا ہمارا کھانا جب سے ہی مکمل نہیں ہوتا، سو چائے بھی پی. کھانے کا بل اور راہنمائی کا مشاہرہ چکانے کے بعد سامان اٹھا کر واپس استور کی طرف چل دیے.

ریسٹ ہاؤس سے واپسی پر بستی سے پہلے ایک عجب نظارہ دیکھا. فصلوں کی سیرابی کیلئے راما جھیل سے آنے والے نالے سے ایک چھوٹا نالہ نکال کر لایا گیا تھا. اس چھوٹے نالے میں کہ جس کا پانی بالکل شفاف سبز تھا. دور سے ایک نسبتاً کالے رنگ کے پانی والا ایک اور چھوٹا نالہ لاکر ملایا گیا تھا. ہمیں یہ بات غیر معمولی لگی کہ اگر پانی کی مقدار کا مسئلہ ہوتا تو راما والے نالہ میں اتنا پانی تھا کہ اس سے تھوڑا سا اور پانی باسہولت لیا جاسکتا تھا. پھراس قدر محنت اور تردد کی کیا ضرورت تھی. ہم اس مرحلہ فکرونظر پھر ٹھہر گئے.

کسی مقامی آدمی کی تلاش شروع کی. ریسٹ ہاؤس خاصا پیچھے رہ گیا اور بستی ابھی دور تھی. پھر شام کا سفر رات کی طرف بھی جاری تھا. ایسے ایسی دورافتادہ جگہ پر کسی ذی روح کا ملنا مشکل لگ رہا تھا.

لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ لگن سچی ہو تو قدرت راستے نکالتی ہے. کچھ دیر میں دو لوگوں کا وہاں سے گزر ہوا. ہم نے سوال داغا. جو جواب ملا وہ ناقابل یقین تھا. انہوں نے بتایا کہ اگر صرف راما جھیل کے پانی سے فصلوں کو سیراب کیا جائے تو کھیتوں میں چوہے بہت پیدا ہوتے ہیں جو فصلوں کا بہت نقصان کرتے ہیں. یہ دوسرے نالے میں پہاڑوں سے قدرتی طور پر کوئی ایسا کیمیائی مرکب گھل کر آتا ہے کہ اس کا تھوڑا سا پانی اس میں شامل کرنے سے چوہے پیدا نہیں ہوتے. اللہ اکبر. قدرت انسانوں پر کس قدر مہربان ہے. اس کیلئے جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے.

ہم نے پوچھا بھائی اس نالے کا منبع کہاں ہے اور اس میں کون سا مرکب ہے جو اتنا زبردست دافع چوہا ہے؟ کہنے لگے: ہمیں کیا پتہ ہو.

مجھے لگتا ہے ہمارا یہ رویہ کفران نعمت ہے. اسی لیے قدرت ہم سے روٹھی روٹھی سی رہتی ہے اور ہم دوسری اقوام عالم کے دست نگر بنے رہتے ہیں کہ ہم اپنے اوپر کی گئی عنایتوں پر غوروفکر نہیں کرتے اور اسے انسانوں کے بھلے کیلئے استعمال نہیں کرتے.

اب دیکھیں کہ نہیں معلوم کب سے یہ مشق جاری ہے اور اس پوری بستی میں ایک بھی شخص ایسا نہیں کہ جس نے کبھی یہ سوچا ہو کہ اس پانی کا تجزیہ کروایا جائے اور اس قدرتی چوہا کش کیمیائی مرکب کا کھوج لگا کر، اس کا منبع تلاش کرکے اسے سارے ملک میں فروخت کیا جائے. جس سے نہ صرف یہ کہ لاکھوں ڈالر کے زہروں کی درآمد بھی ختم ہو گی بلکہ بستی میں سینکڑوں لوگوں کو باعزت بابرکت روزگار بھی ملے گا. شاید اس ایک مصنوعہ سے ہی اس علاقہ میں اتنی خوشحالی آجائے کہ جس کا تصور بھی ابھی محال ہے.

اس حصول علم کے بعد ہم وہاں سے چلے اور بستی سے کچھ پہلے مناسب جگہ دیکھ کر شاہی خیمہ لگا دیا. تھکاوٹ بہت تھی. سو تمام گدھے، گھوڑے بیچ کر سو رہے. صبح ناشتہ بستی کے ایک ہوٹل میں کیا گیا. یہ جو پہاڑوں کے باسی ہیں ان کا انڈہ بنانے کا انداز بھی بڑا عجیب ہوتا ہے.

نہیں معلوم انہیں کیا وہم رہتا ہے کہ انڈہ اگر تھوڑا سا کم پکا رہ گیا تو شاید اس کا چوزہ بن کر بھاگ جائے گا. پھر اس رفع وہم میں انڈہ اتنا پکاتے ہیں کہ اس کا پلاسٹک سا بن جاتا ہے. ساتھ میں ایک عجیب سی ناخوشگوار آنڈیانا بو سارے ماحول میں پھیل جاتی ہے. وہ خود توشاید اس کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں مگر طبع ’ سلیم ‘ پہ سخت ناگوار گزرتی ہے.

اب تو ہم انہیں کہتے ہیں کہ بھائی بالکل کچا سا آملیٹ بنا دو. اور ’ بالکل کچا ‘ تین بار کہتے تب جا کر تھوڑا سا کم ربڑ مارکہ آملیٹ ملتا ہے. مگر اس وقت ابھی ہم ان سے اتنا شناسا نہیں تھے. سو پورا ربڑمارکہ آملیٹ ہی کھانا پڑتا تھا.

استور میں خاصی بڑی چھاؤنی ہے. ناشتہ کے بعد ہمارا ارادہ تھا کہ ہم چھاؤنی کا دورہ کرتے اور کیپٹن اشفاق حسین کے کسی ہم پیشہ سے ان کی شکایت کریں کہ دیکھیں جی ! کیسے معصوم ذہنوں کو ورغلاکر مشقِ آوارگی پر اکساتے ہیں. ہوسکے تو ان کا کورٹ مارشل کیا جائے.

دس بجے کے اس پاس ہم قریب ہی واقع ان کی ایک عمارت کے دروازہ پر کھڑے مسلح دربان کو تعارف کروارہے تھے. بھائی کسی آفیسر سے کہو کہ یونیورسٹی آو انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے کچھ آوارگان آپ کے پیش رو کی شکایت کرنے کیلئے آئے ہیں.

ہماری درخواست افسران بالا تک پہنچا دی گئی. کچھ دیر بعد ہم ایک صاف ستھرے کمرے میں دھلی دھلائی وردی میں ملبوس چاک وچوبند وجیہہ کپتان صاحب کے روبرو بیٹھے تھے. کپتان صاحب کا نام ذہن سے محو ہوگیا، بہت تپاک سے ملے. انہوں نے ہمیں بالکل ویسے ہی کپ میں چائے پلائی جن کا نقشہ ’ شہاب نامہ ‘ میں جھنگ کے کسی سیلاب میں بہہ جانے والے ریسٹ ہاؤس کی عمارت کے دورہ پر قدرت اللہ شہاب نے کھینچا ہے. بس فرق یہ تھا کہ ان پر جانسن اینڈ جانسن 1850 نہیں لکھا تھا.

چائے پیتے ہوئے ہم نے مدعا بیان کیا کہ صاحب کیپٹن اشفاق حسین کی شکایت لگانے آئے ہیں کہ معصوم پڑھاکو بچوں کو دعوت آوارگی دیتے ہیں. ان کا کچھ کریں. کپتان صاحب نہ صرف باذوق آدمی تھے بلکہ انہوں نے یہ ساری دعوت آوارگی پڑھ بھی رکھی تھی. ہماری شکایت پر تادیر قہقہے لگاتے رہے.

ہم نے ان کو کورٹ مارشل میں لاچار دیکھا تو عرض کی حضور چلیں دعوت آوارگی پر نہیں کرتے مقدمہ نہ کریں، سرکاری راز افشاں کرنے پر تو کریں دیکھیں کیسے سب کو بتا دیا کہ عسکری تربیتی مرکز میں تین دن آلو مٹر پکتے ہیں اور تین دن مٹر آلو. کہنے لگے یہ راز نہیں غلو ہے اور اس کا این او سی موصوف نے قبلہ یوسفی سے لے رکھا ہے.

چھائونی کے محل وقاع اوروقوع کی بابت سویلینز کو دی جاسکنے والی معلومات مہیا کیں . پھر کمال شفقت سے اپنے سی او سے بھی ملوایا. وہاں بھی کیپٹن اشفاق حسین کا ذکرہوا اور قہقہے لگے. بارہ بجے کے قریب ہم وہاں سے نکل کر واپس بستی کی طرف آگئے. آج ہمارا ارادہ بستی اور اس کے گردونواح میں بے مقصد گھومنے کا تھا.

ہم اے حمید صاحب کی کہانیوں کے ساتھ بڑے ہوئے ہیں. یہ وہ دور تھا جب پڑھنے کا ایسا خبط ہوا کرتا تھا کہ اخبار، رسائل، ڈائجسٹ جو ہاتھ لگتا پڑھ ڈالتے تھے. یہاں تک کہ مرچ مصالحہ جات کے ساتھ آنے والے اخبار کے کاغذ کی پڑیاں بھی سیدھی سودھی کرکے پڑھتے تھے. اخبار کے آخری صفحہ کے حاشیہ پر لکھی یہ لائن کہ
” ادارہ نوائےوقت نے ہیرا پریس آفاق منزل سے چھپوا کرشائع کیا ، جلد 131 شمارہ 256 “
تک پڑھتے تھے.

اے حمید صاحب بہت لکھتے تھے. ان کی بچوں کی کہانیاں عنبر ناگ ماریہ کی ہی ڈھائی سو سے زائد جلدیں شائع ہوچکی ہیں. نوائےوقت میگزین میں ” بارش، خوشبو سماوار “ کے عنوان سے ہر اتوار ان کا خوبصورت کالم چھپا کرتا تھا. ہماری اردو سے محبت میں اے حمید کا بڑا ہاتھ ہے، خدا غریق رحمت فرمائے. ان کا ایک جملہ آپ کو سنانے کے لیے یہ ساری تمہید باندھی گئی ہے. کہا کرتے تھے ” سب سے بڑا ایڈونچر اجنبی شہر کی گلیوں میں گھومنا ہے. “ اور ہم نے ساری حیات یہ ایڈونچر کیا ہے. اور ان کے اس قانون کی داد دی ہے.

آج بھی دوپہر سے لے کر شام تک یہی کیا، استور نوردی کی. اس دوران یہ بھی علم حاصل کیا کہ رٹو کیلئے گاڑی کب اور کہاں سے جائے گی. کیونکہ کل ہمیں اپنے اولین ہدفِ مہم یعنی رٹو کیلئے روانہ ہونا تھا. سر شام ایک مناسب جگہ دیکھ کر خیمہ نصب کر دیا گیا. اور خیمہ کی باہر گھاس پر بیٹھ کر گزرے دن کا تجزیہ کر رہے تھے . سورج ابھی گھر روانگی کیلئے جرابیں بوٹ پہن رہا تھا کہ قریبی گھروں کے باسی دو لوگ ہمارے پاس تشریف لائے. ایک صاحب کا نام محمد حسین تھا. دوسرے کا یاد نہیں رہا.

تعارف ہوا، معمول کی گپ شپ ہوئی. مقامی طرز زندگی کے بارے میں بہت سی معلومات ملیں. محمد حسین نے پوچھا کہ رات کا کھانا کہاں سے کھائیں گے. ہم نے کہا یہ تو ہمارے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور بڑے فخر سے اپنی روداد چاول پکوائی سنائی.

ان کا خیال تھا آج رات کا کھانا ان کی طرف سے. ہم نے بڑے ادب سے معذرت کی مگر وہ بضد رہے. انہوں نے بہت اصرار کیا تو بالآخر ہم نے ہامی بھر لی. وہ چلے گئے. بہت دیر ہوگئی. غوری صاحب نے ہلکا ہلکا بلبلانا شروع کردیا تھا، سو ہم نے متبادل ذرائع پر غور کرنا شروع کردیا، قریب تھا کہ کوئی ستواں سا اچھوتا سا تخیل لیے ہمارا ہم سفر چھوٹا شیطان حاضر ہوتا محمد حسین صاحب ہی تشریف لے آئے. ایک بڑی سی چنگیر میں گھر کی بنی روٹیاں، ایک نسبتاً بڑی پلیٹ میں دال ماش، انتہائی توجہ پکائی گئی، سلیقہ سے سجائی گئی. اور ایک چھوٹی سی کولی میں دیسی گھی.

وہ دیسی گھی کیا تھا صاحبو! کوئی تحفہ بیش بہا تھا. استور میں دسمبر کی شاموں میں اترتے برف کے گالوں کی طرح سفید، کسی بھی قسم کی ہیک سے بالکل مبرا اور دانےدار. اٹھائیس سال ہو چکے آج بھی اس گھی کا معیار آنکھوں کے سامنے اور اس کا ذائقہ دہن میں ہے.

ہم نے محمدحسین سے کہا کہ بھئی یہ کیا نسخہ کیمیاء ہے ہم نے تو آج تک ایسا گھی نہ دیکھا نہ چکھا. کہنے لگا کہ ہمارے یہاں ایک درخت ہوتا ہے جس کے تنے سے کاغذ ایسی پرتیں اترتی ہیں. وہ عام طریقہ سے گھی بناکر ان کاغذ نما پرتوں میں لپیٹ کر زمین میں دبا دیتے ہیں. تین سال سے دس سال تک یہ زمین میں دبا رہتا ہے. جب نکالتے ہیں یہ ایسا زبردست بنا ہوتا ہے. وہ بتا رہا تھا اور ہم حیرتوں میں گم اس کی شکل دیکھ رہے تھے.

ایسے دوردرازعلاقہ میں ایسی دریافت اور نہ جانے کب سے. ہم بہت متاثر ہوئے مگر تاسف بھی ہے. ایسی نادرونایاب شے لیکن اس کی کاروباری افادیت سے نابلد ہیں یہ لوگ. ادھر لورپاک ڈنمارک والے دنیا بھر دس ارب یورو کا سالانہ مکھن اور پنیر بیچتے ہیں. بیلجیئم، اٹلی اور سپین کا پنیر دنیا میں مہنگے داموں بکتا ہے.

ہمارے لوگوں نے باقاعدہ منصوبہ سے اس درخت کی کاشت کی ہوتی. بڑے پیمانے پر گھی بناتے پہلے ملک بھر میں بیچتے پھر دنیا کو تعارف کرواتے. سارے عمل کی سائنٹیفک سٹڈی ہوتی. ویڈیوز بنتیں. ایک غلغلہ مچا ہوتا ایک شورش برپا ہوتی. کروڑوں ڈالر سالانہ کی برآمدات ہوتیں. مگر ہائے افسوس برفانی علاقوں کے برف جیسے ٹھنڈے لوگ. ( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں