کھجور کا درخت، چاندنی رات

مرثد کی حیاداری

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مریم خالد / لاہور

مکہ رات کی چاندنی میں بھیگا ہوا تھا۔ مرثد دیوار کی اوٹ میں کھڑے تھے۔ آسمانوں سے آتی روشنی دیوار پر سے ہوتی ہوئی زمین پر ان کا سایہ تراش رہی تھی۔
پیچھے سے وہ آہستگی سے آئی۔
” مرثد! مرحبا! “

پرانی دوستیاں بھی یونہی زندہ رہتی ہیں، سیاہ راتوں میں پگھلتی چاندنی کی طرح۔ ماضی کے کتنے ہی دن انہوں نے اکٹھے گزارے تھے، زیست کے آسمان پہ مقدر کے تارے گنتے ہوئے مگر اب تو سب کچھ بدل گیا تھا۔ مرثد مسلمان ہو گئے تھے۔ مدینہ سے اپنے مسلمان قیدی بھائیوں کو چھڑانے کے لیے مکہ آیا کرتے تھے۔ آج بھی وہ اسی کوشش میں تھے کہ عناق نے ماضی کی ہوائیں تازہ کر دیں۔
کہتی تھی، ” اپنوں میں آ گئے ہو مرثد! آج رات ہمارے پاس گزارو۔ “

مرثدؓ نے عشق کے تارے ایک ہی جھٹکے میں نوچ کر زمین پہ دے مارے،
”عناق! اللہ نے زنا کو حرام قرار دیا ہے۔“

عناق کے چہرے پہ بدلیاں چھائیں، رنگ بدلے اور پھر بادل گرج گئے۔ آواز دور تک سنائی دی،
” خیمے والو! یہ شخص تمہارے قیدیوں کو اٹھائے بھاگ رہا ہے!“

یکایک آٹھ آدمی ان کی طرف دوڑ پڑے۔ مرثدؓ فوراً سے سنبھلے، بھاگے اور پہاڑ کے غار میں چھپ گئے۔ آسمان والے کی قدرت کہ دشمن انہیں ڈھونڈ نہ پائے اور ناکام لوٹ گئے۔ مرثدؓ اپنے قیدی بھائی کو لیے مدینہ چلے آئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہاں امت کے مرد ’ حیا اور پاکبازی‘ کی ہر صفت عورت کے دامن کے ساتھ نتھی کر کے اپنی آوارہ نگاہوں اور بہکتے کردار کو بےلگام چھوڑتے وقت بھول جاتے ہیں کہ اصحابِ نبیؓ نے بہتی چاندنیوں میں سر پہ کھڑی ابلیسی ادا کو پوری قوت سے تاریکیوں میں دفن کیا تھا۔

یہاں دن کے اجالوں میں حیا میں لپٹی عورتوں کو بھی عریاں نگاہوں کے تیروں سے چھلنی کرنے والے ان عفت کے ماہتابوں کو بھول جاتے ہیں جو کبھی چاندنی رات میں عزت کی حفاظت کرنے کو دشمنوں تک سے بھِڑ گئے تھے۔ اگر کبھی وہ اِن کو دیکھ لیں تو شاید انہیں مسلمان ہی نہ مانیں! یا شاید مرد ہی نہ مانیں!

بحوالہ: جامع الترمذی: 3177 صحیح


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں