گرمی کی اہمیت انسانی زندگی میں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

طیبہ شہزادی :

گرمیوں کے شروع ہوتے ہی یہ کلمات عام سننے میں آتے ہیں کہ آج تو بہت گرمی ہے… آج تو سورج آگ برسا رہا ہے…. اف یہ گرمیاں نہ ہوتیں… اور کچھ تو گرمی کی درگت بنانے کے ساتھ ساتھ منہ سے کفریہ کلمات تک ادا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے، اف یہ گرمیاں تو عذاب ہیں… اللہ نے آخر گرمیوں کا موسم بنایا ہی کیوں ؟… وغیرہ وغیرہ.

جبکہ اگر ہم گرمیوں کے موسم کے فوائد اور ثمرات پر نظر ڈالیں تو اس کے مثبت اثرات اس کے منفی اثرات سے کہیں زیادہ ہیں جن کو ہم قرآن و حدیث اور سائنس کی رو سے جانیں گے.

قرآن و حدیث کی رو سے

قرآن مجید میں گرمی (حر) کا ذکر تقریباً چھ مقامات پر کیا گیا ہے. اللہ تعالیٰ سورۃ النحل آیت 81 میں فرماتے ہیں :
” اللہ ہی نے تمہارے لیے اپنی پیدا کردہ چیزوں میں سے سائے بنائے ہیں اور اسی نے تمہارے لیے پہاڑوں میں غار بنائے ہیں اور اسی نے تمہارے لیے کرتے بنائے ہیں جو تمہیں گرمی سے بچائیں.. “

سورۃ قریش میں بھی اللہ تعالیٰ گرمی کے موسم سے قریش مانوس کرنے کا ذکر کرتے ہیں.
سورۃ التوبۃ آیت 81 میں فرمایا :

” انہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرنا ناپسند کیا اور انہوں نے کہا کہ اس گرمی میں مت نکلو، کہہ دیجئے کہ دوزخ کی آگ بہت ہی سخت ہے، کاش کہ وہ سمجھتے ہوتے. “

احادیث میں بھی گرمی ( اور خاص کر جہنم کی گرمی ) کے متعلق بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) جو کہ عرب ممالک کے باشندے تھے، اور یہ گرم علاقے تھے تو ان کے طرز عمل کو بھی بہت واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے.

آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا :
” جب گرمی شدت اختیار کر جائے تو اسے نماز سے ٹھنڈا کرو، پس بے شک جہنم کی گرمی اسسے کہیں شدید ہے.“

صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) اس شدت کی گرمی سے جہنم کی گرمی کو یاد کرتے تھے اور روتے تھے.
” ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کی ایک دفعہ انہوں نے لوہا آگ (بھٹی) میں سے نکالا تو اس کی حدت کو دیکھتے رہے اور پھر اتنا روئے کہ ان پر غشی طاری ہو گئی.“

ان آیات اور احادیث سے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اس طرز عمل سے گرمی کے فوائد میں سے سب سے پہلا فائدہ یہ ہے کہ

جب بھی گرمی کی شدت کو ہم محسوس کریں تو واویلا کرنے کی بجائے جہنم کی گرمی کو یاد کرتے ہوئے اس سے پناہ طلب کریں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے جہنم کی شدت کو یوں بیان کیا:
” تمہاری یہ آگ جسے تم جلاتے ہو (اس کی حدت) جہنم کی آگ کا سترواں حصہ ہے. “
اس لیے جہنم سے بچنے کی بہت سی احادیث وارد ہوتی ہیں.
” اے اللہ مجھے آگ کے عذاب سے بچا لے.“
تو پہلا فائدہ گرمی کے موسم کا یہ ہے کہ یہ ہمیں وقتا فوقتاً جہنم کی گرمی کی یاد دلاتی ہے تا کہ ہم جہنم سے پناہ طلب کرتے رہیں.

اب ہم اس موسم گرما کے کچھ سائنسی فوائد پر نظر ڈالتے ہیں :
اول: اگر ہم گرمی کے موسم میں اپنے اندر ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اس موسم میں ہمارے جسم سے بہت زیادہ پسینہ خارج ہوتا ہے اور یہ ہمارے جسم میں موجود سویٹ گلائڈز کی وجہ سے خارج ہوتا ہے جن کی ہمارے جسم میں تقریبا مجموعی تعداد 2-4 ملین ہے، جو کہ جسم کے مختلف حصوں کے مختلف حصوں میں پسینے کے خارج ہونے کا سبب بنتے ہیں

مثلا ہتھیلیوں پر پسینہ آنا، بغلوں میں، پاؤں کے تلوؤں میں, پیشانی, اور ٹھوڑی وغیرہ پر پسینہ آنا. پسینے کا یہ اخراج سردیوں کی نسبت گرمیوں میں زیادہ ہوتا ہے اور یہ بات تحقیق شدہ ہے کہ پسینے کا جسم سے نکلنا انسان کی اچھی صحت کے لیے بے حد ضروری ہے کیونکہ پسینہ آنے سے انسان میں پیاس کی طلب بڑھ جاتی ہے اور پھر زیادہ پانی پینے سے انسان کا جگر، گردے اور معدہ وقتاً فوقتاً صاف ہوتا رہتا ہے اور جلد بھی صاف اور چمک دار ہو جاتی ہے.

سٹین فورڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے مطابق زیادہ پانی پینا آپ کے گردوں کو صحیح طور پر کام کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوتا ہے اور گردے جو کہ جسم کی صفائی اور جسم سے فالتو اور زہریلے کیمیکز کو نکالنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور پسینے میں نمکیات کے علاوہ سوڈیم، پوٹاشیم، کیلشیم ، کلورائیڈ اور میگنیشیم (trace minerals ) جیسے کیمیکز کا اخراج بھی عمل میں آتا ہے اور اس کے علاوہ ریسرچرز کے مطابق سکن کینسر کا باعث بننے والی پروٹین (deomcidin) بھی پسینے کے ذریعے خارج ہوتی ہے جس سے انسان سکن کینسر سے محفوظ رہتا ہے.

دوم: اب اگر دوسرے رخ سے گرمی کے موسم کے فوائد کو جانیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ گرمی کے موسم میں کپڑے جلد خشک ہو جاتے ہیں اور اس کی وجہ گرمیوں میں درجہ حرارت کا زیادہ ہونا ہے.

اسی طرح سمندروں، دریاؤں اور ندی نالوں سے بھی پانی بخارات کی شکل میں اوپر بادلوں کی شکل میں اکٹھا ہو جاتا ہے جو کہ زیادہ درجہ حرارت کے ہونے سے ہی ممکن ہے اور اسی لیے گرمیوں میں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔

پانی کا سمندر کی سطح سے بخارات کی شکل میں اوپر جمع ہونا اور پھر بادلوں کی صورت میں برسنا یہ سارا عمل واٹر سائیکل کہلاتا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت کا ثبوت ہے کیونکہ زمین میں پانی کی مقدار ایک خاص حد سے تجاوز نہیں کرتی.

سائنس اس عمل(واٹر سائیکل) کو زمین کی بقا کے لیے ضروری سمجھتی ہے کہ کیونکہ بخارات کی شکل میں اڑنے والا پانی صاف شفاف ہو کر زمین والوں پر برستا ہے جو نہ صرف حیوانات بلکہ نباتات اور جمادات کیلئے بھی زندگی کی نوید ہوتا ہے.

سوم: گرمیوں کا تیسرا بڑا فائدہ اس کے لذیذ اور خوش شکل پھل ہیں جو صرف اسی موسم ہی کی پیداوار ہیں. ان پھلوں کا خوش ذائقہ ہونا اور خوش شکل ہونا بھی اسی سورج کے ہی مرہون منت ہے.

سائنس ہمیں آگاہ کرتی ہے کہ پھلوں کو پکنے کے لیےF77-65F ٹمپریچر کی ضرورت ہوتی ہے. اس لیے آگر پھل روشنی کو براہ راست وصول کریں تو ان میں پکنے کا عمل تیز ہو جاتا ہے.

موسم گرما اپنے اندر اور بھی بہت سے فوائد رکھتا ہے کہ جن کا احاطہ کرنا اس ایک تحریر میں ممکن نہیں.
لیکن یہ موسم ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ہم ذات باری تعالیٰ کی ناشکری کی بجائے اس کی ان بے شمار نعمتوں کو یاد کریں جو اس نے اس موسم گرما کی بدولت ہمیں عطا کی ہیں.
پس میں یہ کہوں گی کہ
” فبأي الاء ربكما تكذبان“


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں