کوئلے کی راکھ میں گم ہوتے مزدور

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سائرہ فاروق …….
صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر کوہاٹ میں کوئلے کی کان میں گیس بھر جانے سے 13 کارکن جاں بحق ہوگئے۔تحصیل درہ آدم خیل کے علاق آخوروال میں ہونے والا یہ افسوسناک واقعہ نہ تو پہلا ہے اور نہ ہی شاید آخری۔
بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کوئلے کی کانوں میں ہزارون مزدور کام کرتے ہیں۔وہ کن حالات میں کام کرتے ہیں اور ان کے شب و روز کیسے گذرتے ہیں، اس بارے میں لوگ بہت کم جانتے ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ ملک کے کونے کونے سے آئے یہ مزدور زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کوئلہ نکالنے کا طریقہ روایتی ہے۔جدید آلات، مشینری، کان کنوں کے لیے زاتی حفاظتی سامان، ماسک، چشمے، آکسیجن سلنڈر، گیس کی مقدار کو ماپنے والے آلات کے بغیر 16 سے 18 گھنٹے کام کرتے یہ کارکن اس غیر انسانی اور غیر محفوظ ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔

بد قسمتی سے غربت کے مارے یہ مزدور اپنے لیے بنائے گئے حفاظتی قوانین سے بھی آگاہ نہیں۔یہ کانیں ایک ہزار فٹ سے پانچ ہزار فٹ تک گہری ہیں مگر کان کن روایتی طریقوں سے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کی زندگی ہمیشہ خطرے میں رہتی ہے۔کان مالکان چونکہ انتہائی بااثر ہوتے ہیں لہذا کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
حادثے میں مرنے والے کچھ مزدوروں کے اہل خانہ تو اتنے غریب ہوتے ہیں کہ ان کے پاس میتوں کو آبائی علاقوں میں لے جانے اخراجات نہیں ہوتے۔ اس لیے انہیں وہیں دفنا دیا جاتا ہے۔ بلوچستان کی کانوں کے پاس ایسی قبروں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
کانوں میں ہونے والے حادثات کی خبریں اب معمول بن چکی ہیں، کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ وزیراعظم ہاؤس اندرسے کیسا ہے؟اس میں کتنے بیڈروم ہیں؟لان کی کیا صورتحال ہے؟ فرنیچر کیسا ہے؟ ایسی باتوں کو مختلف زاویوں اور بیک گراؤنڈ میوزک کا تڑکا لگا کر گھنٹوں کا ائر ٹائم مل سکتا ہے مگر ایسے حادثات کی کوئی خصوصی رپورٹ، کوئی ٹاک شو، کوئی خصوصی نشریات، کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوتی۔ اس صنعت میں جتنی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اس پر کوئی سوموٹو ایکشن نہیں لیا جارہا۔
مزدور کس بھی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہوتے ہیں۔ہمارے جیسے ملکوں میں یہ دو وقت کی دال روٹی کے لیے اپنی برداشت سے زیادہ بوجھ اٹھاتے ہیں۔بے روزگاری کیے جانے کے ڈر سے یہ کان کن اپنی جان کی بازی تک لگا دیتے ہیں۔
ایک آدھ کے مرنے کی تو خبر بھی نہیں بنتی، آٹھ، دس یا اس سے زیادہ مرجائیں تو میڈیا کو ہوش آتاے ہے مگر چند سیکنڈ کے لیے۔
آخر کیوں ایسے حادثات میں دسیوں افراد کی ہلاکت پر کوئی شور ملک کے طول و عرض میں نہیں اٹھتا؟
رواں سال بھی ان اموات کی بازگشت سے گونجتا رہا۔مئی میں کوئٹہ کے علاقے مرور میں 23 کارکن جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔جون میں کوئٹہ کے علاقے سنجدی میں گیس بھرنے سے چار کارکن ہلاک ہوئے اور پھر 12 اگست 2018ء کو سنجدی ہی میں 19 قیمتی جانیں کوئلے کی کان میں دم توڑ گئیں۔
اب ستمبر میں 13 قیمتی جانیں ۔۔۔۔ مرنے والوں میں نو سالہ مزدور بھی شامل ہے جو اپنے والد کے ساتھ جان کی بازی ہار گیا۔
نو سال کا کان کن ۔۔۔ ہم یہاں بھی نمبر ون ہیں۔
پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے مطابق ہر سال تقریبا 100 سے 200 افراد کوئلے کی کانوں میں پیش آنے والے حادثات کی نذر ہو جاتے ہیں۔
کوئلے کی کان میں میتھین گیس بنتی رہتی ہے۔نکاس کا درست انتظام نہ ہو تو دھماکا ہوتا ہے جس سے کان بیٹھ جاتی ہے۔مزدور یا تو ملبے تلے دب جاتے ہیں یا پھر ان کے باہر نکلنے کا راستہ بند ہوجاتا ہے۔یہ موت بڑی ہی دردناک ہوتی ہے۔
پاکستان کوئلے کے ذخائر کے لحاظ سے دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے اس کے چاروں صوبوں میں 175 ارب ٹن کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔
کان کن کی صحت، جان کی حفاظت، اوقات کار انگریز کے زمانے میں مائنز لیبر ایکٹ مجریہ 1923 میں طے کیے گئے تھے۔پاکستان میں یہ ایکٹ اب بھی قائم ہے مگر اس پر عمل درآمد ندارد ہے۔
ڈیڑھ صدی گزر جانے کے باوجود کان کنی کے طریقہ کار میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہوئی۔
کان میں اترنے سے پہلے (میتھین) گیس چیک کی جاتی ہے نہ ہی کان کنوں کو حفاظتی آلات و اوزار دیے جاتے ہیں۔ نہ ہی کان میں متبادل راستہ بنایا جاتا ہے کہ حادثہ ہونے کی صورت میں وہاں سے نکلا جا سکے۔یہاں اکثر کانیں غیر قانونی ہیں۔
ٹھیکداری سسٹم سے چلتے اس شعبے کو صرف نفعے سے غرض ہے۔یہ نا تو کارکن کے ساتھ معاہدہ کرتے ہیں نا ہی ان کے پاس حاضری رجسٹر ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب ہلاکتیں ہوتی ہیں تو پتہ نہیں چلتا کے کان میں کتنے مزدور کام کر رہے تھے۔
تقریباً روزانہ کی بنیاد پر کارکن جان سے ہاتھ دھوتے ہیں مگر ان کی ہلاکتوں کی خبریں کم ہی منظر عام پر آتی ہیں۔ بیشتر حادثے دبا دیے جاتے ہیں۔
مالکان کان کن کو فی ٹن 700 روپے کے حساب سے ادائیگی کرتے ہیں۔ یعنی ایک ٹن کوئلہ توڑنے پر سات سو روپے دیہاڑی۔مارکیٹ میںایک ٹن کوئلہ آٹھ ہزار سے 13 ہزار تک فروخت ہوتا ہے۔
رونے کے لیے تو ایک حادثہ بھی کافی ہے۔آخر کوئلے کی کان چلانے والی کمپنیوں سے کیوں سوال نہیں کیا جاتا کہ وہ مزدوروں سے ہفتے میں کتنے دن روزانہ کتنے گھنٹے کام لے رہی ہیں اور ادائیگی کس حساب سے کر رہی ہیں؟
مزدوروں کے قیام و طعام، سکیورٹی اور میڈیکل کے کیا انتظامات ہیں؟ اور کیا مزدوروں کو تین ہزار فٹ کی گہرائی میں اتارنے اور کام کرنے کی بنیادی اور مناسب تربیت دی گئی ہے؟
کیا انہیں آکسیجن ماسک فراہم کیے جاتے ہیں؟ مائننگ کی جدید ٹیکنالوجی کے استعمال میں کیا امر مانع ہے؟
صرف میڈیا ہی نہیں، حکومت بھی اتنی ہی بے حس ہے۔
پچھلے چند میں درجنوں ہلاکتوں کا کون ذمہ دار ہے؟ اس کا جواب آنا ضروری ہے۔ یہ لوگ یہاں ’شہید‘ ہونے نہیں، روزی کمانے آئے تھے۔
مزدوروں کے لیے قوانین پر عملدرآمد کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن سرکاری اداروں نے سرمایہ داروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کررکھا ہے۔ اس گٹھ جوڑ کو نہ توڑا گیا تو کوئلے کی کانیں اسی طرح کان کنوں کی قبریں بنتی رہیں گی.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں