عبدالغفار عزیز، نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان

سفید کبوتروں کا استقبال

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

شازیہ عبدالقادر :

” حسین“ دار العروبہ جاتے ہیں۔ عبدالقادر صاحب نے اپنے بھائی حافظ حسین احمد کے بارے میں بتایا۔
دارالعروبہ کیا ہے؟ میں نے میاں صاحب سے معلوم کیا۔
جماعت اسلامی کا شعبہ امور خارجہ ہے، حسین وہاں عبدالغفار عزیز صاحب کے ساتھ کام کرتے ہیں۔
سن 2000 میں مجھ ناقص سے عبدالغفار عزیز بھائی صاحب کا یہ پہلا تعارف تھا۔

پھر نائب ضلع لاہور کی ذمہ داری کے دوران ناظمہ ضلع کی ہدایت پر پروگرامات کے لئے وقت لینا، مرکزی و صوبائی و مقامی تربیت گاہوں و تربیتی پروگرامات میں عبدالغفار بھائی صاحب کے ایمان افروز لیکچرز، ہر لمحہ تحریک دیتے۔ ایمان و عمل کی آواز اثر رکھتی ہے اور عبدالغفار بھائی صاحب اس کا منہ بولتا ثبوت تھے۔

الاخوان کا تربیتی نظام، ان کا تربیتی نصاب ، الاخوان کی خواتین و طالبات کی جدوجہد، مشرق وسطیٰ اور حالات حاضرہ ، عرب بہار کی ورکشاپ ، بنگلہ دیش کی سیاسی جدوجہد ، دیگر ممالک میں مسلمانوں پر ظلم و ستم پر حقائق ۔۔۔۔۔۔۔ ہر بار انہیں سنتے ایک لمحہ کو توجہ کہیں بھٹکتی نہیں تھی۔ وہ ایک تحریک ہمارے اندر برپا کرکے اپنا فرض بخوبی نبھاجاتے تھے۔

اور پھر خطبہ حجۃ الوداع۔۔۔۔۔ اتنی سبک رفتاری کے ساتھ بہترین ترجمہ ۔۔۔۔انہی کا خاصہ تھا۔

مرکزی میڈیا سیل کے شعبہ آئی ٹی و سوشل میڈیا میں بارہا ان کی رہنمائی ملتی۔۔۔۔۔ کئی بار مصر شام فلسطین بنگلہ دیش کے حوالے سے بریف کرتے ، مواد فراہم کرتے ، کئی بار ہم دیگر ممالک کے حوالے سے کسی ٹرینڈ میں شامل ہونے کے حوالے سے رہنمائی چاہتے تو بھی بہت اچھے سے معاملہ سمجھاتے کہ کہاں نہیں حصہ لینا اور کہاں لینا ہے۔ کہاں کیا موقف رکھنا ہے۔

یوم خواتین اور یوم حجاب کے موقع پر جنگ زدہ علاقوں کی خواتین کی جانب سب سے پہلے عبدالغفار بھائی صاحب نے توجہ دلائی کہ اپنی سوشل میڈیا کمپین میں ان کی بھی نمائندگی شامل رکھیں۔

چار سال قبل ہماری میٹنگ میں طے ہوا کہ سقوط ڈھاکہ کے حوالے عبدالغفار بھائی سے لیکچر ریکارڈ کروانا ہے۔ ہماری کوشش ہوتی کہ مختصر لیکچر ہو تا کہ سامعین مکمل پیرائے سے آگاہ بھی ہوجائیں اور طوالت کی وجہ سے لیکچر ادھورا نہ چھوڑ دیں۔

عبدالغفار بھائی صاحب نے ہمارے نکات کو بہت اچھے اور بہتر انداز میں کم دورانیہ کا بیان ریکارڈ کیا۔ ویڈیو بنا کر چیک کروانے کو کہا۔ ویڈیو کی تصحیح بہت باریک بینی سے فرمائی۔

یہ کام صرف اللہ کی خاطر تھا نہ ہمیں اس کا معاوضہ ملنا تھا نہ عبدالغفار بھائی کو کسی ایڈورٹائزنگ کے منافع کی غرض تھی۔
پھر بھی مکمل توجہ سے نگرانی کی۔ وہ ویڈیو بہت وائرل ہوئی۔

سالانہ شوریٰ میں اس کے بارے میں کچھ اضلاع کے مردانہ نظم نے عبدالغفار بھائی کو اس ویڈیو کے بارے میں بتایا۔ بھائی صاحب کی کال آگئی۔

” شازیہ بہن !
ماشاءاللہ بہت اچھا فیڈ بیک آ رہا ہے ، دور دور سے افراد اس سے مستفید ہوئے ہیں۔“

دو سال قبل ایک رمضان المبارک اپنے اردگرد رمضان المبارک کی عوام الناس خصوصاً نوجوان نسل میں لاپرواہی دیکھ کر پھر بھائی صاحب سے رابطہ کیا کہ کوئی ایسا لیکچر جو ایمان کو گرما دے۔ رمضان المبارک کے گزرتے لمحوں میں ہی کچھ قرب الٰہی کی جانب توجہ ہوجائے۔ بہت ہی ایمان افروز لیکچر ریکارڈ کروایا۔

دسمبر میں کال آئی کہ جیسا لیکچر سقوط ڈھاکہ پر آپ لوگوں نے تیار کیا تھا ، ارادہ ہے کہ کشمیر پر بھی تیار کرلیا جائے ۔ ہم نے کہا: ” بھائی صاحب ! نیکی اور پوچھ پوچھ۔۔“
فرمایا :” ان شاءاللہ فرصت ہوتی ہے تو میں ریکارڈ کرواکر بھیجوں گا۔“

ان کی اندرون ملک و بیرون ملک دوروں کی مصروفیت کی وجہ سے فروری گزر گیا۔

پانچ اگست جب کشمیر میں کرفیو نافذ ہوا تو ایک بار پھر شعبہ آئی ٹی کی میٹنگ میں یہ بات دہرائی گئی کہ عبدالغفار بھائی سے لیکچر ریکارڈ کروانا ہے، میں تین چار دن رابطہ کرتی رہی۔

کبھی ایسا نہ ہوا تھا کہ میں میسج کروں، واٹس ایپ کروں، ٹوئٹر پر ڈی ایم کروں اور عبدالغفار بھائی کا جواب نہ آئے۔ اس پر تشویش بڑھی تو کال کی۔ کال بھی ریسیو نہ ہو اور کبھی ایسا بھی نہ ہوا تھا کہ کال ریسیو نہ کرسکیں تو بعد میں کال بیک نہ کی ہو۔
جب کال بیک بھی نہ آئی تو پریشانی بڑھی، ان کے دفتر فون کیا اور اپنی پریشانی بیان کی ، جواب ملا :

”عبدالغفار بھائی ترجمان القرآن کے پرچہ کو پریس میں جانے سے قبل دیکھتے ہیں اور جن دنوں وہ یہ کام کرتے ہیں وہ کسی کے رابطے میں نہیں آتے نہ ملتے ہیں تاکہ مکمل یکسوئی سے اسے دیکھ کر پھر اشاعت کے لئے اوکے کریں۔ “

اور اُس ماہ ترجمان القرآن میں میں نے سارا پرچہ چھان مارا مجھے کہیں ان کا نام نظر نہیں آیا ، کوئی اور ہوتا تو بڑا بڑا لکھواتا ۔۔۔ نظر ثانی ۔۔۔ فلاں از فلاں ۔۔۔۔ لیکن بھائی صاحب یہ کام خاموش وگمنام مجاہد کے طور کیا کرتے۔

یہ ہوتے ہیں بےلوث بندے۔۔۔۔ اللہ کی خاطر کام کرنے والا جس کا اجر وہ صرف اللہ سے چاہتے ہیں ، نہ نمود نمائش نہ جاہ کی طلب۔۔۔۔۔

بعد ازاں وعدے کے مطابق بھائی صاحب نے لیکچر ریکارڈ کرکے بھیجا اور اسے شعبہ آئی ٹی نے ویڈیو بناکر چیک کروایا اور جاری کیا۔

اس سال ماہ رمضان المبارک سے قبل رمضان المبارک کی پلاننگ کے دوران نظم نے آن لائن دورہ قرآن کے مشورے مانگے تو فوراً عبدالغفارعزیز بھائی کا نام ذہن آیا جو اپروو بھی ہوگیا۔۔۔۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ بھائی صاحب دستیاب نہیں ہوں گے۔ تب ابھی ان کی ناسازی طبیعت کا کسی کو معلوم نہ تھا۔

ہم منصورہ شفٹ ہوئے تو بھی بہت شفقت سے خوش آمدید کہا۔ بیٹا! مسجد جاتا تو وہ کچھ شرمیلا سا ہے، اسے بلا کر ملتے۔ اسے کہتے کہ مدینہ کی ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں اور بیٹے سے اس کے مدینہ منورہ میں مقیم دادا ابو کا حال، حسین بھائی جان اور عبدالقادر صاحب کا حال بھی پوچھتے۔ کئی بار اسے ہاتھ پکڑ کر اپنے آفس لے جاتے۔ ہمیں بتاتے کہ آپ کا ولی عہد ملا تھا۔ اسے کہا ہے میرے آفس آیا کرو۔

سراپا شفقت و محبت تھے۔۔۔۔ایک بار عبدالقادر صاحب قریبی ریسٹورنٹ سے بچوں کی ڈیمانڈ پر کچھ لینے گئے۔۔۔واپس لوٹے تو ڈھیر ساری فرائی مچھلی بھی اٹھا رکھی تھی۔ میاں صاحب سے پوچھا: یہ کیوں لے آئے؟
کہنے لگے: وہاں عبدالغفار بھائی بھی تھے، ان کے قطر سے مہمان آئے تھے۔ ان کے لئے فرائی مچھلی لینے آئے اور زبردستی مجھے بھی کلو مچھلی تھمادی۔

ایک بار انٹرنیشنل ویمن کانفرنس میں امیر جماعت کے ساتھ اسٹالز کا وزٹ کررہے تھے کلثوم رانجھا باجی سب بہنوں کا تعارف کروارہی تھیں، میرا تعارف کروانے لگیں تو عبدالغفارعزیز بھائی نے خود امیر جماعت کو تفصیلی تعارف کروایا۔

کل عالم ۔۔۔۔۔۔عرب دنیا ۔۔۔۔۔ کشمیر، بنگلہ دیش ،پاکستان۔ ان کے تحریکی ساتھی۔ ہم جیسے معمولی کارکنان۔ ہم سب۔۔۔ سب کے سب جو ان سے ملا جو ان کو جانتا تھا یا جو ان سے ایک بار ملا یا ایک بار ان کا لیکچر سنا، اس کی یادداشت سے وہ کبھی نہیں جاسکتے۔

دنیا کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اگر امید کی کوئی کرن شکل و صورت میں موجود ہوتی ہے تو اسے ” عبدالغفار عزیز “ کہتے ہیں۔

وہ تحریک کا چلتا پھرتا مجسم کردار تھے۔ وہ ایک پوری تحریک تھے۔ دنیا میں ایسے لوگ سمندر کی گہری تاریکیوں میں ” لائٹ ہاؤس “ کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ صدیوں بعد کوئی ماں ایسا ہونہار سپوت جنتی ہے۔

رمضان المبارک میں جب ان کی جان لیوا بیماری کا سنا تو دل دہل کر رہ گیا۔ یا رب ! ہم پر رحم فرما، ہمیں بخش دے ، ہمیں ایسے بےلوث، بے مثال رہنما سے محروم نہ کرنا۔ آج کی دنیا کو ، ہماری نسلوں کو ان کی ضرورت ہے۔

گڑگڑا گڑگڑا کر رب رحیم سے دن رات دعائیں مانگیں۔۔۔ بچوں سے منگوائیں ۔۔۔۔۔ اے مالک کن فیکون۔۔۔۔۔ ہمیں اپنی رحمت سے نوازدے ۔

ان کے بچوں، ان کے گھر والوں کی تکلیف سنی نہیں جاسکتی تھی، دیکھنے کی تاب نہ تھی۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیسے اپنے رب سے اپنے اس باحیا اور ایمان و عمل سے بھرپور بھائی کی صحت بھری زندگی مانگیں۔

پھر سنا کہ بہتر ہونے لگے ہیں، گھر سے آفس کا کچھ کام شروع کیا ہے۔عید پر مسجد آئے ہیں ، جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں وہیل چئیر پر جانے لگے ہیں۔ اور بیماری نے انہیں نچوڑ کر رکھ دیا تھا ۔

حقیقت یہ ہے کہ ان کی حالت دیکھ کر دل کٹتا تھا، تڑپ کر وہی خوبرو، تنومند سے عبدالغفار بھائی لوٹا دینے کی دعائیں کی تھیں جنہیں اکثر بھاگتے دوڑتے ، مسجد کو لپکتے دیکھا کرتے تھے۔ وہ بالکل ایسے چلتے تھے جیسے ہم نے پیارے نبیۖ کے بارے میں سنا تھا۔ جو لوگ ان سے بالمشافہ مل چکے ہیں وہ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ان کی کوئی تصویر ان کی وجاہت و خوبروئی کا مکمل عکس نہیں لے سکی ہوگی۔

ایک اور معجزہ ان کی اس دنیا میں آخری رات کا جو ہم سب گھر والوں نے دیکھا۔ ہم رات کے کھانے کے بعد چھت پر جایا کرتے ہیں۔ اس وقت جس وقت ان کو گھر سے ہاسپٹل منتقل کیا جارہا تھا جس کے چند گھنٹوں بعد انہوں نے دار فانی سے کوچ کرلیا تھا۔

اس وقت ہم نے غیرمعمولی طور پر آسمان پر سفید کبوتروں کی ہلچل دیکھی۔ کبھی کبھار آسمان پر سفید کبوتروں کا غول ایک جانب سے دوسری جانب بڑے پرسکون انداز میں جاتا دیکھائی دیا کرتا تھا لیکن اس رات بڑی عجیب بات تھی۔

کبھی ایک جانب سے ایک چمکتا سفید کبوتر روشنی کی طرح ظاہر ہوتا اور یکا یک غائب ہوجاتا اور کئی بار ہم نے انہیں منصورہ مسجد کی جانب لپکتے اور غائب ہوتے دیکھا۔

میاں صاحب چھت پر آئے ، میں نے اور بچوں نے ان کی توجہ مبذول کروائی کہ یہ کیا ہیں؟؟؟ چمکتے سے سفید کبوتر یکا یک منصورہ کے عین اوپر آسمان پر نظر آتے ہیں اور منصورہ مسجد کی جانب لپکتے ،لمحہ بھر کو غائب ہوجاتے ہیں۔
عبدالقادر صاحب نے برجستہ کہا : یہ فرشتے ہیں۔

ہم سمجھے ہمیں بہلا کر ٹال رہے ہیں اور یوں رات جب میاں صاحب یہ خبر سنتے ہیں ، وہ میرے فون چھپا کر خود مسجد چلے جاتے ہیں۔ میں فجر پڑھ کر دوبارہ لیٹ گئی ۔ کافی دیر تک عبدالقادر صاحب نہ آئے تو بچوں کو اسکول کے لئے تیار کرتے، کرواتے کہا: خیر ہو آج آپ کے ابو ابھی تک مسجد سے نہیں لوٹے۔

بڑے بچوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور سرجھکا کر کہا : امی عبدالغفار صاحب فوت ہو گئے ہیں
اور بس دل بیٹھ گیا۔
رات تین بجے اطلاع آئی تھی، ابوجی نے منع کیا تھا کہ امی کو آرام سے بتانا۔

تو وہ جو رات چمکتے سے سفید کبوتر آسمان پر منصورہ مسجد کی جانب کو لپکتے نظر آرہے تھے ، وہ واقعی فرشتے تھے جو ہمارے مربیّ ،ہمارے ہردلعزیز عبدالغفار عزیز بھائی کا استقبال کرنے آئے تھے۔
بعد میں ہم نے َدو تین دن اسی وقت چھت پر دیکھا وہ کبوتر پھر نظر نہیں آئے۔

نہیں معلوم کہ اللہ کی رضا کیا ہے۔ ہم بندے ہیں اس کی رضا میں راضی ہیں،
سب تکلیفوں سے آزاد ہو کر اللہ کا بندہ اللہ کے پاس پہنچ گیا۔

ہر لیکچر میں ہر تربیتی پروگرام میں قرآن کے ساتھ مضبوط تعلق کی تلقین کرتے،
ہر خاص و عام کی ہر ممکن معاونت و تعاون کرتے،
بےلوث ہوکر اپنے حصے کا کام کرتے،
سمع و طاعت، تنظیم، اجتماعیت، تحریک ان کی زندگی کا خاصہ رہے۔

یہ دنیا ۔۔۔ عرب و اسلامی دنیا ۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا ملک ۔۔۔ ہماری تحریک ۔۔۔ ان کا خاندان ایک عرصہ ان جیسی شخصیت تلاش کریں گے۔

بچپن سے کئی بار یہ شعر پڑھا اور اب احساس ہوتا ہے کہ یہ شعر تو عبدالغفار عزیز بھائی کے لئے ہی لکھا گیا ہوگا :

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

میری یہ تحریر ان جیسی نایاب و نادر شخصیت کا مکمل احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔
ان کی وفات سے تین ہفتے قبل عبدالقادر صاحب گھر آئے اور خوشی سے بتانے لگے کہ مغرب کی نماز میں عبدالغفار بھائی ملے تھے۔ اب پھر سے مسجد آنے لگے ہیں۔ آپ کا حال پوچھا ، سلام دیا:

” ہماری شازیہ بہن کیسی ہیں، بہت اچھا لکھتی ہیں ۔۔۔ بہن کو میرا سلام دیجئے گا۔۔ کہئے گا کہ لکھتی رہا کریں۔۔“ اورمسجد میں پاس کھڑے سب لوگوں کو بتانے لگے۔

بس یہ الفاظ ایک عاجز و کمتر سی بہن کی اپنے عظیم بھائی سے عقیدت کا اظہار ہیں جو سپرد قلم کئے، وہ بہن جسے عبدالغفار عزیز بھائی ” خواہر عزیز “ ( پیاری بہن ) کہا کرتے تھے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں