روف طاہر
یہ نوازشریف کے پہلے دورِ اقتدار کی بات ہے۔ قاضی حسین احمد اسلامی جمہوری اتحاد سے ناتہ توڑ چکے تھے۔ اب وہ نوازشریف کے حلیف نہیں‘ اس کے حریف کے طور پر خود کو منوانا چاہتے تھے۔ ان میں کبھی گاڑھی چھنتی تھی۔
نومبر 1990ء کے انتخابات کے بعد‘ اسلامی جمہوری اتحاد میں وزارتِ عظمیٰ کا مسئلہ پیدا ہوا ‘تو قاضی صاحب محمد خان جونیجو اور غلام مصطفیٰ جتوئی کے مقابلے میں نوازشریف کے حامی تھے کہ اسی طرح ”حق بحقدار رسید‘‘کا اہتمام ہوسکتا تھا۔
اسلامی جمہوری اتحاد میں قاضی صاحب‘ نوازشریف کے سب سے ز یادہ قریب تصور کیے جاتے تھے‘ انہیں اس ابھرتے ہوئے نوجوان لیڈر سے بہت توقعات تھیں۔ وہ اس کے دینی ذوق اور اس کے خاندان کی دین پسندی کے معترف ومداح بھی تھے۔ یہ تعلق ِخاطر یک طرفہ نہ تھا‘ بلکہ دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی۔نوازشریف بھی قاضی صاحب کا بے حد احترام کرتے۔ بڑے میاں صاحب (محمد شریف) بھی جماعت اسلامی اور اس کے امیر کو بے پناہ اہمیت دیتے‘ بلکہ پوری شریف فیملی قاضی صاحب کو بزرگ کا درجہ دیتی تھی۔
لیکن سیاست کے اپنے تقاضے اور اقتدار کی اپنی ترجیحات وضروریات ہوتی ہیں۔ وزارت سازی کا مرحلہ آیا تو وزیر اعظم نوازشریف نے جماعت کو جن وزارتوں کی پیشکش کی‘ قاضی صاحب اور ان کے رفقاء انہیں (اپنے نظریاتی مقاصد کے لیے )غیر مفید اور غیر مؤثر تصور کرتے تھے۔ نتیجتاً قربتیں فاصلوں میں بدلنے لگیں‘ تاہم جماعت نے ترک تعلق کی بجائے اسلامی جمہوری اتحاد کے اندر رہتے ہوئے ”حزب احتساب‘‘ کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ پہلا اختلاف خلیج پالیسی( کویت پر صدر صدام حسین کے قبضے) پر ہوااور رفتہ رفتہ یہ سلسلہ دراز تر ہوتا گیا۔ قاضی صاحب کا لب ولہجہ تلخ تر ہونے لگا اور بالآخر 1992ء میں (افغان مسئلے کے متعلق ) معاہدۂ پشاور کے بعد انہوں نے اسلامی جمہوری اتحاد سے باضابطہ علیحدگی اختیار کرلی۔ اب وہ ”میاں‘‘ اور ”بی بی ‘‘ دونوں کو برابر کی برائی قرار دے رہے تھے۔
ادھر نوازشریف اپنی توانائیاں صرف بینظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کے خلاف صرف کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے قاضی صاحب کی نئی سیاسی حکمت عملی کونظر انداز کرنے کی پالیسی اختیار کرلی۔یوں وہ جماعت کے ساتھ تجدید تعلقات کا امکان ختم نہیں کرنا چاہتے تھے اور جماعت کے اندر اپنے لیے ہمدردی برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ اس حکمت عملی کا ایک سبب شاید یہ بھی ہو کہ قاضی صاحب کے ساتھ جوابی بیان بازی میں الجھنا ان کی سیاسی اہمیت بڑھانے اور اپنا مدمقابل بنانے کے مترادف ہوتا ۔ نیتوں کا حال خدا جانتا ہے‘ لیکن ظاہراً شریف خاندان نے قاضی صاحب کے شخصی احترام میں کسی کمی کا مظاہرہ نہ کیا۔
یہی وہ دور تھا جب محترمہ بینظیر بھٹو ‘ نوازشریف کے خلاف ٹرین مارچ اور لانگ مارچ کا اعلان کررہی تھیں۔ ان کی میٹنگز میں جنرل درانی کی موجودگی کا اعتراف خود پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل مرحوم شیخ رفیق بھی کر چکے تھے۔ اسی دور میں اتفاق گروپ میں کاروباری تنازعات نے سرابھارا اور جائیداد کی تقسیم پر میاں محمد شریف کے بھائی اور بھتیجے اپنی حق تلفی کا شور مچانے لگے۔
یہ 1992ء کے موسم سرما کی شام تھی۔ ہم نے قاضی صاحب سے ”تبادلہ خیال‘‘ کے لیے منصورہ کا رخ کیا۔ ہم دارالضیافتہ میں داخل ہورہے تھے‘ جب قاضی صاحب ‘ میاں شہبازشریف کو رخصت کررہے تھے۔ قاضی صاحب سے گفتگو میںہمارا پہلا سوال شہبازشریف کی آمد کے متعلق تھا۔ قاضی صاحب نے ٹالنے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ملاقات کی کوئی سیاسی اہمیت نہیں۔ یہ خالصتاً ذاتی نوعیت کی ملاقات تھی ‘جس میں بعض نجی امور پر بات چیت ہوئی۔ ادھر ہم قاضی صاحب کی مشفقانہ بے تکلفی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ اندر کی بات معلوم کرنے کے درپے رہے۔
الحمدللہ ہم لاہور کے ان چند صحافیوں میں سے تھے‘ جن پر قاضی صاحب اعتماد کرتے اور حسب ِضرورت ”آف دی ریکارڈ‘‘ سے بھی فیض یا ب کرتے رہتے تھے اور ہم نے اس حوالے سے ان کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہ پہنچائی؛ چنانچہ ہمارے کالموں میں‘ ہمارے سیاسی تجزیوں میں جماعت کی بعض پالیسیوں پر تنقید کے باوجود قاضی صاحب کی شفقت میں کبھی کمی نہ آئی۔
”اتفاق ‘‘کے اثاثوں کی تقسیم کے حوالے سے میا ںشریف صاحب کے بھائی میاں بشیر نے قاضی صاحب سے رابطہ کیا: ”آپ لوگوں کو ان کا حق دلانے کے دعویدار ہیں۔ ہمیں بھی ہمارا حق دلوائیے‘‘۔ میاں بشیر کا کہنا تھا کہ میاں شریف اتفا ق گروپ کے اثاثوں کی تقسیم میں اپنے بیٹے کی حکومت کے زور پر ان کی حق تلفی کررہے ہیں۔
قاضی صاحب نے فون پر میاں شریف سے رابطہ کرکے انہیں میا ں بشیر کے موقف سے آگاہ کیا۔ یہاں یہ ذکر بھی شاید بے جا نہ ہو کہ نوازشریف کے سیاسی حریف ‘ اس خاندانی چپقلش سے فائدہ اٹھا رہے تھے۔ نوابزادہ نصر اللہ خان جیسے وضعدار اور روایت پسند بزرگ بھی آئے روز میاں بشیر کے دولت کدے کو اپنی آمد کا شرف بخشتے۔ تب شریف خاندان ابھی جاتی امرا منتقل نہیں ہواتھا اور ماڈل ٹائون میں ”اتفاق برادران‘‘ کی کوٹھیاں ساتھ ساتھ تھیں۔ قاضی صاحب کے خیال میں کسی کے خاندانی تنازعات سے سیاسی فائدہ اٹھانا بدذوقی کی علامت تھی۔
میاں شریف نے قاضی صاحب سے کہا کہ وہ اگلے روز خود منصورہ حاضر ہو کر اپنا موقف بیان کرینگے۔اگلے روز ایک مرسڈیز منصورہ میں دارالضیافت کے دروازے پر رکی۔ قاضی صاحب نے آگے بڑھ کر دھان پان سے بزرگ کا خیر مقدم کیا ‘ جس نے55سال قبل لاہور میں لوہے کی بھٹی سے اپنا کاروبار کاآغاز کیا تھا۔ اس کے بھائیوں میں مثالی اتحاد واتفاق تھا‘اسی لیے انہوں نے اپنے کاروبار کے لیے بھی ”اتفاق‘‘ کا نام تجویز کیا۔قدرت اس خاندان پر مہربان تھی۔ رفتہ رفتہ کاروبار پھیلتا گیا اور 1971ء میں جب بھٹو صاحب نے ”اتفاق‘‘ کو ”قومی تحویل‘‘ میں لیا‘ یہ نجی شعبے میں فولاد کا دوسرا بڑا کارخانہ تھا۔” اتفاق ‘‘کی یہ صنعتی ترقی کسی سرکاری وسیاسی سرپرستی کے بغیر تھی۔
اب یہ بزرگ‘ بہت بڑے صنعتی خاندان کے سربراہ ہی نہیں‘ ملک کے وزیر اعظم کے والد بھی تھے۔ وہ اثاثوں کی تقسیم پر پیدا ہونے والے خاندانی تنازعات پر کبیدہ خاطر تھے اور اس کے حل کے لیے کسی بھی معقول تجویز کو قبول کرنے میں انہیں کوئی عار نہ تھی۔انہوں نے قاضی صاحب کو بتایا کہ وہ اتفاق گروپ کے تمام اثاثوں ‘ ان کے لیے حاصل کئے گئے قرضوں اور دیگر واجبات کی مکمل تفصیل اپنے ساتھ لائے ہیں۔ قاضی صاحب یہ تمام فائلیں اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔انہوں نے قاضی صاحب سے اس کیس میں ثالث بننے کی درخواست کی قانون‘ ثالثی کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دیتا ہے لیکن وہ اپنے قانونی حق سے بھی دستبردار ہونے کا اعلان کررہے تھے۔ وہ اس کے لیے اسٹامپ پیپر پر باقاعدہ تحریر لکھ کر لائے تھے‘ جسے قاضی صاحب کے سپرد کرتے ہوئے اس نے کہا۔”آپ جو فیصلہ بھی کریں گے۔ مجھے اس سے ذرا برابر اختلاف نہیں ہوگا۔‘‘
قاضی صاحب اس اظہاراعتماد پر اس بزرگ کے شکر گزار تھے‘ لیکن اس کے لیے دوسرے فریق کا اعتماد بھی ضروری تھا۔ انہوں نے میاں بشیر سے فون پر رابطہ کیا اور میاں شریف سے ہونے والی گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا میاں بشیر اور ان کے صاحبزادگان بھی اس طرح کی تحریر لکھ کر دینے پر آمادہ ہیں۔ ادھر سے انکار پر قاضی صاحب نے اس تنازعے سے لاتعلقی میں عافیت سمجھی۔
(بیگم صاحبہ کلثوم نوازمرحومہ نے ایک ملاقات میں بتایا تھا کہ بڑے میاں صاحب نے ثالثی کی یہ درخواست جناب مجید نظامی سے بھی کی تھی‘ لیکن وہ بھی پیچھے ہٹ گئے)