مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

ہم اور ہمارا دعویٰ عشق و محبت

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

الطاف جمیل :

دل کے سو ٹکڑے ہوئے ۔۔۔ ہر ٹکڑے پر تیرا نام لکھا
محبوب بھی تو دلدار بھی۔۔ زندگی کی وجہ تسکین بھی

سعید بھی تو سید بھی ۔۔۔۔ وجہ تسکین قلب بھی
ٹھنڈک نگاہوں کی بھی ۔۔۔ سکون قلب و جان بھی

تصورات کی دنیا میں کھو کر جوں جوں میں اس زمانے کو دیکھتا ہوں کہ جس میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ننگے پاؤں صحرائے عرب کی جان لیتی گرمی میں دعوت الہی کے علم کو بلند کرتے ہیں تو جگر میں اک ہوک سی اٹھتی ہے کہ خالق جہاں نے محبوب جہاں کو کس قدر تڑپ پیدا کرنے والا دل دیا تھا کہ اک دنیا میں بے سہارا تمام دنیا سے اللہ واسطے کے تعلق سے سرشار مستانہ وار خالق و مخلوق کے آپسی تعلق بنانے کے لئے کمر کس لیتا ہے۔

کچھ جاں نثار پروانہ وار شمع ہدایت کے چراغ کے سایہ میں چلے آتے ہیں، ہوائیں مخالف، فضائیں رنجیدہ ، مخلوق جہاں عداوت کے خمیر سے لیس ہوکر مقابلہ پر آجاتی ہے پر یہ مٹھی بھر لوگ اپنی ایمانی حمیت سے سرشار ہوکر سامنا کرنے چل پڑتے ہیں۔

سامنے مکہ کی جھلسا دینے والی گرمی ہے، بھوک پیاس کی شدت ہے، مشرکین کے دل کو تڑپا دینے والا کرب ہے ، مصائب و مشکلات کا اک طوفان ہے، قدم قدم پر ستم ہیں ، عذاب ہے، مارپیٹ یا جان سے جانے کا امکان بھی ہے، بے یار و مددگار ہونا طے ہے پر یہ اللہ کے غلام ہر کرب کو گلے لگاتے ہوئے مستانہ وار چلتے جارہے ہیں۔

یہ وہی ہیں جن کی زندگیاں اسلام سے پہلے بکھری ہوئی تھیں ، کوئی داد عیش دے رہا تھا تو کوئی بکریوں کے ریوڑ چرانے دن بھر مشغول رہتا ، کوئی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا اپنے مالک کی خدمت کیا کرتا تھا پر طلوع حق کی روشنی ہوتے ہی انہوں نے اس روشنی کا سہارا لیا جس کا مستقبل بظاہر تاریک سے تاریک تر تھا ۔ یہ کمال ان کا نہیں تھا بلکہ اس روشنی کی چمک جو انہیں دکھائی دی وہ سب محبوب جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت اور دل کے کرب کا سبب تھا کہ درد کے مارے آتے گئے، اک کارواں بنتا گیا ، ظلمت کے اندھیرے کے پردے سرکنے لگئے اور نور کی روشنی چھن چھن چھانے لگی۔

ظلمت کے خوگر لوگوں نے اپنے اندھیرے کو بچانے کے لئے ہر ستم آزمانا شروع کردیا ، ہر طرف ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کردیا گیا ، جلتے انگاروں پر نور کی شعاؤں کے متوالوں کو رکھا گیا ، پتھر مارے گئے، بے گھر کیا گیا ، بھوکا پیاسا تپتی دھوپ میں باندھ کر رکھا گیا ، پر عجب تھا ان کا یقین و اعتماد کہ ذرا بھی لغزش نہ آنے دی اپنے ایمان و یقین میں کہ ظلم کا ہر داؤ برباد ہوتا رہا ، پر یہ قافلہ سخت جان دن بدن بڑھتا ہی رہا۔

اطاعت رسولؑ کی ایک مثال
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کس طرح دل و جان سے ہر وقت تیار رہتے تھے، اسے اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے اور اس کے مقابل نفسانی میلانات و رجحانات کو یکسر نظر انداز کردیتے تھے۔ جانیے ذرا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مسجد نبوی میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ دوران خطبہ آپ نے فرمایا کہ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جاؤ۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ انصاری ابھی مسجد سے باہر ہی تھے کہ حضور کا یہ ارشاد کان میں پڑا تو معاً ان کے قدم زمین میں گڑ گئے اور وہ اسی جگہ بیٹھ گئے۔ اور اتنی بھی جرات نہ کرسکے کہ مسجد میں پہنچ لیں تو اس حکم کی تعمیل کریں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سے فارغ ہوئے تو کسی نے یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے جذبہ اطاعت پر بڑی مسرت ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا:
” الله تمھارے دل میں الله اور رسول کی اطاعت کا جذبہ اور زیادہ کرے“
یہ تھا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کی تعمیل کا جذبہ۔

میرے قلب کو بھی نصیب ہوں، تیری ذات سے وہی نسبتیں
وہ جو عظمتیں تھیں اویس کی، وہ جو رابطے تھے بلال کے

عشق و محبت کا اک ایسا جذبہ دل میں پروان چڑھ رہا تھا کہ ہر ستم مسکرا کر سہنا ان کو لذت و چاشنی کی وہ حلاوت دے رہا تھا کہ جسم جل رہا ہے ، قدم لڑکھڑا رہے ہیں ، انگ انگ سے خون رس رہا ہے پر دل پر سکون ہے ، چہرہ مطمئن ہے ، عشق بلا خیز کا یہ قافلہ سخت جان اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر پروانہ وار نچھاور ہونے کی تمنائیں کیا دعائیں بھی مانگا کرتے تھے اور کائنات نے وہ منظر بھی دیکھا کہ کچھ صالح اور پاکیزہ نفوس اپنی جان نچھاور بھی کر گئے مسکراتے ہوئے تلواروں کے سائے میں عشق و محبت کی وہ داستانیں رقم ہوئیں کہ دنیا دیکھتی ہی رہ گئی۔

بازو کٹ گئے ہوں کہ سر ، پر یہ آخری لمحات کی تمنائیں بھی کرتے تو کہتے آخری ہچکی لگنے سے پہلے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار ہوجائے اور جان یوں نکلے کہ در محبوب پر نظر پڑی اور جان نکل جائے ۔ہنسی خوشی اپنوں کی جدائی کا غم سہہ گئے، کوئی شکوہ شکایت نہیں، لبوں پر بس مسرت ہے ، جبین پر تو صرف اس بات کی کہ ہم اپنے خالق اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر جان نچھاور کرگئے ۔

محبت کا اس سے زیادہ کیا امتحان ہو سکتا ہے کہ بدر کے تپتے صحراء میں یہ جان نثار ہنسی خوشی اپنے قائد اعظم کے پیچھے دوڑے جارہے ہیں ، انہیں بھوک پیاس کی شدت تو ہے پر کہتے نہیں قدم زمین پر پڑ کر تپتی ریت سے جھلس رہے ہیں لیکن اظہار نہیں کرتے۔

سامان حرب و ضرب کی بہت ہی زیادہ کمی ہے پر ملال نہیں ، دشمن طاقت ور ہے پر اعتماد میں تزلزل نہیں۔ سامنے اپنے ہی بھائی ہیں، باپ ہے، دوست اقارب ہیں مد مقابل پر ان کے دل میں سوائے رب کی غلامی اور حب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کے لئے کوئی جگہ ہی نہیں ۔ اپنی جان کے لالے پڑے ہیں ، بدن زخموں سے چور ہے نقاہت و تھکاوٹ نے چور چور کردیا ہے پر غم ہے کہ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کس حال میں ہیں اور جب یہ سب ہوا تب کامیابی قدم چومنے چلی آئی اور نثار ہوگئی ۔

حب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
ایک مرتبہ نبی علیہ السلام نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو پھٹے کپڑوں میں ملبوس دیکھا تو فرمایا:
” ابوبکر رضی اللہ عنہ! تم پر ایک وقت خوشحالی کا تھا ۔اب تمھیں دین کی وجہ سے کتنی مشقتیں اٹھانی پڑ رہی ہیں ۔“
ابو بکر رضی اللہ عنہ تڑپ کر بولے:
” اگر ساری زندگی اسی مشقت میں گزار دوں اور شدید عذاب میں مبتلا رہوں، حتیٰ کہ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بھی نہ لگے ،اے محبوبﷺ !آپ ﷺ کی معیت کے بدلے یہ سب کچھ برداشت کرنا میرے لیے آسان ہے۔“

ایک صحابی حضرت زید بن دثنہ کا عجیب و غریب واقعہ ہے۔ جس پر کفار نے بھی حیرت واستعجاب کا اظہار کیا ۔ جب حضرت زید کو تختہ دار پر چڑھا یا جارہا تھا تو اس موقع پر ابو سفیان نے کہا کہ
اے زید ! کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ تم اپنے گھر والوں کے ساتھ اطمینان سے رہو اور تمہاری جگہ پر محمد صلی الله علیہ وسلم کو (نعوذباللہ) تختہ دا ر پر چڑھا یا جائے؟ اس موقع پر حضرت زید نے ابو سفیان کو جو جواب دیا وہ سیرت کی کتابوں میں جلی عنوان والفاظ کے ساتھ موجود ہے۔ حضرت زید نے فرمایا:

” قسم بخدا! میں تواس بات کو بھی پسند نہیں کرتا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے مقام ہی پر رہیں اور انہیں کوئی کانٹا چبھ جائے اور میں اپنے گھر میں آرام سے بیٹھا رہوں۔ “

حضرت زید کے اس جواب سے حواس باختہ ابو سفیان نے کہا کہ
کوئی انسان کسی انسان سے اتنی محبت نہیں کرتا جتنی محمدصلی الله علیہ وسلم کے ساتھی محمد صلی الله علیہ وسلم سے کرتے ہیں ۔ (شفاء2/23) حضرت زید گویا یہ کہہ رہے ہیں کہ مجھے جتنی تکالیف ہو سکے وہ سب برداشت کر لوں گا لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے میں کسی ادنیٰ سی ادنیٰ تکلیف کوگوار انہیں کرسکتا۔

حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہ، جو صاحب اذان کے لقب سے مشہورتھے،اپنے باغ میں کام کر رہے تھے ،اسی حالت میں ان کے صاحب زادے نے آکر یہ اندوہ ناک خبر سنائی کہ سرور ِدو عالم صلی الله علیہ وسلم وصال فرما گئے ہیں، عشق ِ نبوی صلی الله علیہ وسلم سے سرشار ،عشق رسول صلی الله علیہ وسلم میں سرمست یہ صحابی ا س جان گداز خبر کی ضبط اورتاب نہ لا سکے، بے تابا نہ فضا میں ہاتھ بلند ہوئے اور زبان سے یہ حسرت ناک الفاظ نکلے :
خدا وند!اب مجھے بینائی کی دولت سے محروم کر دے تاکہ یہ آنکھیں جو سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم کے دیدار سے مشرف ہوا کرتی تھیں اب کسی دوسرے کو نہ دیکھ سکیں۔(مظاہر حق جدید1/77)

اعتماد کی انتہا

تو نہیں تیرا تصور ہی سہی،
میرے دھڑکتے دل کی تمنا ہو تم
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی غار ثور میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ہیں، دشمن کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے غار میں چھپ گئے پر وہی دشمن سر پر آکر کھڑے ہوگئے۔ تڑپ کر محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ تو اب دیکھ لیں گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لسان نبوت سے یہ سن کر مطمئن ہوگئے ’ لا تحزن ان اللہ معنا ‘ اب اعتماد ہے کہ دشمن کچھ بگاڑ نہیں سکتے ہمارا۔

محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم معراج کا واقعہ بیان کرتے ہیں ، کوئی شخص ہلکا سی تردید بھی بیان نہیں کرتا بس لسان نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے الفاظ ادا ہوئے انہوں نے اعتماد کرلیا۔

بھوک ہے پیاس ہے غربت افلاس ہے اور غلبت الروم کا مژدہ مبارک سنایا جاتا ہے ہر شخص پورا اعتماد کرلیتا ہے کہ ایسا ضرور ہوگا ، کوئی اپنی غربت و افلاس و لاچاری کی داستانیں سنانے نہیں بیٹھ جاتا ، بس ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا، اس میں کسی کمی یا کجی کا ہرگز کوئی اظہار نہیں ہے بلکہ اعتماد ہی اعتماد ہے ، یقین کامل ہے کہ ایسا ضرور ہوکر رہے گا کیوں کہ بشارت جس زبان سے سنی گئی اس پر شک کرنا ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا

تیرا عشق ہی میری آبرو
اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی مقصد زندگی جب تک نہ بنایا جائے تب تک ممکن کہاں کہ وہ لذت ایمانی پاسکے کوئی جہاں میں ، ہاں ہاں یہ وہی زمانہ ہے جب کوئی کسی کی اطاعت کرنا اپنے لئے عیب سمجھتا تھا پر کچھ لوگ جو رضیت باللہ رب وباالاسلام دینا وبمحمد رسول کا نعرہ لگا گئے تھے ان کی زندگی کا مقصد ہی پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری تھا۔

زندگی کے ہر شعبے میں اطاعت کا نام ہی ایمان ہے اور اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ کر امتی ہونے کا ثبوت یہی پے کہ ہر خواہش پر فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم غالب رہے ، اسی میں اس دعویٰ کی آبرو محفوظ ہے جس کو ہر کوئی اپنے لئے باعث افتخار سمجھتا ہے مطلب عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مطلوب ہے کامل اطاعت و فرماں برداری ۔

چلتے چلتے
کیا ہم کھرے اترتے ہیں ایمان کے اس زاویہ پر جو زاویہ یا بیانیہ اسلامی تعلیمات کا منشاء و مطلوب ہے یا ہم اپنی انا کی تسکین کے لئے سر عام اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی تعلیمات کے باغی ہیں جیسا کہ ہم سب اپنے اپنے بارے میں بخوبی واقف ہیں کہ ہماری روز مرہ زندگی کے کس حصے میں تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اعلیٰ مقام حاصل ہے، ہمارا کاروبار، اپنی انفرادی زندگی ، معاملات ، اخلاقیات ، عادات و خصائل کیا یہ سب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے عین مطابق ہیں یا ہم اپنے افہام و تفہیم کے بل پر اپنی وضع قطع بناتے ہیں۔

جینے کے لئے جو طریقہ ہم نے اختیار کیا ہے کیا اس کا میل سنن نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے یا نہیں، یہ جاننے کے لئے یا سمجھنے کے لئے ضروری نہیں کہ علماء سے رجوع کیا جائے بلکہ ہم اپنا تجزیہ خود کرسکتے ہیں کہ ہم اور ہماری زندگی کے نظام میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا درجہ ہے یا وہ کس قدر ہماری زندگی میں موجود ہیں ورنہ زبانی دعویٰ لاحاصل ہے کہ

جس میں نہ ہو سوز عشق کی آمیزش وہ دل ویران ہے، جہاں نہ ہو مسکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا ہم عشق محبت کے خالی افسانے سن کر خود کی نجات چاہتے ہیں تو یاد رکھا جائے حب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اولین شرط ہے اطاعت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ اس فکر کے تئیں ہم کس قدر حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہیں اس سے ہم اپنی اپنی حدود میں سب واقف ہیں تو آئیے اک محاسبہ کرتے ہیں ہم اور ہمارا دعوی عشق و محبت۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں