جشن ولادت رسول، روشنیاں کی جارہی ہیں

کہنے کو مسلماں میں بھی ہوں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قدسیہ مدثر :

ربیع الاول کا مبارک مہینہ جس میں نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد نے دونوں جہانوں کو نور سے منور کیا۔ اس ماہ مبارک میں اللہ تعالیٰ کا بہت احسان ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو زندہ کریں اور ان سے روشنی حاصل کریں۔

پورے ملک میں ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں میلاد، نعت خوانی کی محافل اور سیرت کانفرنسز کا انعقاد ہوتا ہےلیکن دل پریشان ہوتا ہے، ایک عجیب سی کیفیت ہوتی ہے کہ امت محمدیہ ان ساری محفلوں، مجلسوں کانفرسوں کے باوجود پستی کا شکار کیوں ہے ؟؟

فرانس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی گئی، گستاخانہ خاکے بنائے گئے اور ہم مسلمان عملی طور پر ان کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانے سے گریزاں ہیں، کیوں؟ کیوں کافر ہم پر ٹوٹ پڑے ہیں ؟ کیوں عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی؟ کشمیر و فلسطین میں عورتوں کی عزتیں کیوں لوٹی گئیں ؟ کیوں ان کے سہاگ اجاڑے گئے؟ پشاور کے معصوم بچے جو مسجد میں اللہ کا کلام پڑھنے آئے تھے، کیوں ان کی میتیں جل کر بھسم ہو گئیں؟

ہم تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد میں جشن مناتے تھے، دیگیں بانٹتے تھے، مٹھائیاں تقسیم کرتے تھے، آخر ہمارے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا ہے ؟؟

آنکھیں نم ہیں، دل مضطرب ہے لیکن ضمیر کی آواز بول رہی ہے کہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو تم محمد صلی اللیہ علیہ وسلم کے واقعی امتی ہو؟

مسلمان کون تھے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہش نفس اس شریعت کے تابع نہ ہو جائے جو میں لایا ہوں ۔

اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہم میں سے کتنے ہیں جو احکام معلوم ہو جانے کے بعد عمل کرتے ہیں؟ کیا ہمارا آج کل سے بہتر ہے؟ بحثیت عورت کیا ہمارے لباس میں کوئی فرق آیا؟ کیا ہم ساتر لباس پہننے والیاں ہیں؟ اور سوچیں کیا مسلمان چور ہو سکتا ہے؟ ڈاکو ہو سکتا ہے؟ کیا مسلمان قسمیں کھا کھا کر خراب مال فروخت کر سکتا ہے؟

یہ کیسا عشق نبی ہے جس پر کسی چیز سے فرق نہیں پڑتا۔ صرف قول سے نبی کریم کا دم بھر لینا محفلیں ، میلاد سجا لینا کافی نہیں بلکہ جائزہ لینا ہوگا کہ عملاً ہم نے اپنے عاشق کے لئے کیا کچھ قربان کیا؟ پورا معاشرہ پستی اور بے دینی کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے، عوام کو پیٹ کی بھوک مٹانے لگا دیا گیا ہے ، حلال ،حرام ،اچھا ، برا سب چل رہا ہے۔ اب دین پر عمل کرنے والے انتہا پسند نظر آتے ہیں۔

نوجوان نافرمان ہو گئے ہیں،عورتیں آزاد ہو رہی ہیں اور یہی وہ وقت ہے جس کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :
اللہ تعالیٰ کہتا ہے جب یہ حالات ہو جائیں گے تو میری ذات کی قسم میں ان میں ایسا فتنہ برپا کر دوں گا کہ جس میں صاحبان عقل و ہوش ششدر رہ جائیں گے ۔

روشن خیالی کے نام پر جو فحاشی ملک میں پھیلائی جا رہی ہے، کیا یہ ہمارے دین کا حصہ ہے؟ یہ حدود اللہ کے قانون کو منسوخ کر کے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے پاکستان کو روشن خیال بنا دیا ہے۔

آخر دین اسلام ہی کیوں اتنا بے وقعت ہے کہ ان کی نظروں میں کسی قرآن کے قاری، مسجد کے امام ، قرآن و حدیث کے معلم کی کوئی قدر نہیں۔ کیا دین اسلام موم کا پتلہ ہے جس کا جدھر دل چاہے موڑ لے۔

اصل بات یہ ہے کہ مغرب کے حواری ہماری بد اعمالیوں کی وجہ سے ہم پر مسلط ہوئے اور اب یہ چاہتے ہیں کہ ساری قوم ان ہی کی طرح غیرت سے عاری ہو جائے ، دین اسلام کی روح ان کے اندر سے نکل جائے اور اسلام وہ نہ رہے جو نبی کریم لے کر آئے ہیں بلکہ وہ ہو جائے جو ان کے آقاؤں کو پسند ہے۔

آج اگر مغرب کے یہ منظور نظر ہیں، ابو جہل کے پیارے ہیں تو اللہ فرماتا ہے کہ موت کے وقت ان کا حال ایسا ہو گا کہ جب فرشتے روحیں قبض کریں گی اور ان کے منہ پیٹھوں پر مارتے ہوئے انہیں لے جائیں گے۔ اور یہ اسی لئے ہو گا کہ انہوں نے اس طریقے کی پیروی کی جو اللہ کو ناراض کرنے والا ہے ۔اس کی رضا کا رستہ اختیار کرنا پسند نہ کیا اسی بنا پر ان کے تمام اعمال ضائع ہو جائیں گے۔

لہزا وقت ابھی تھما نہیں ضرورت ہے اس عمل کی کہ ہم امت محمدیہ کے دعویدار نبی کریم کی سنتوں کو زندہ کرنے والے ہوں نبی کریم کے عشق میں آہیں بھرنے والے یہ سوچیں کہ نبی کے فرمان پر کتنا عمل کیا ۔ ہم مسلمان ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار ہیں فرقوں میں بٹ کر امت کو کمزور مت کریں، آپس میں متحد ہو جائیں۔

نبی کریم کے مشن کو لے کر اٹھیں اور دشمنان دین کے خلاف جہاد کریں۔ اور اسلام کا بول بالا کرنے کے لئے جان کی بھی پرواہ نہ کریں۔ یہی آج میرا پیغام ہے اور اگر ہماری سمجھ میں نہ آیا تو اس دنیا کے دکھ کبھی دور نہیں ہوں گے اور امت محمدیہ یونہی پستی ذلت کا شکار رہے گی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں