ایل سی ڈی ، ٹی وی ، ریمورٹ

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

تسنیم اشرف :

ہمارے پاکستانی چینلز پر ڈرامہ کے نام پر جو کچھ دکھایا جا رہا ہے وہ ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ گھر کے افراد اکٹھے بیٹھ کر دیکھ سکیں،اور ان سے کچھ سیکھ سکیں۔

اول تو ڈراموں کے نام ہی اس قدر عجیب ہیں کہ حیرت ہوتی ہے، کیا ہمارے ڈرامہ نگار حضرات کے پاس اردو الفاظ کی اس قدرکمی ہو گئی ہے کہ وہ موضوع کے مطابق اچھا نام ہی تخلیق نہیں کر پاتے، ڈراموں کے چند نام ملاحظہ فرمائیں :
عشقیہ
پریم گلی
محبت تجھے الوداع
جلن
بھڑاس

ناموں سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ڈرامہ کیسا ہو گا۔
ہر ڈرامہ کا بنیادی موضوع عورت اور عشق ہے۔
وہ جو کسی نے کہا تھا کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے، بس اس جملے کو ہمارے ڈرامہ نگار حضرات شدو مد سے اپنے ڈراموں میں عملی طور پر دکھا رہے ہیں۔

ڈرامہ سیریل ” جلن “ میں ایک لڑکی اپنی شادی شدہ بہن کا گھر اجاڑ کر اپنے بہنوئی سے شادی کر لیتی ہے، کیوںکہ وہ بہت مال دار دکھایا گیا ہے، اور اس سارے قصے میں وہ حیا کی ساری حدود پار کر جاتی ہے۔

اس سے پہلے ایک ڈرامہ ” میرے پاس تم ہو“ بھی اسی موضوع پر دکھایا گیا، ملتی جلتی کہانی تھی، اس مقبول ڈرامے کی آخری قسط سینما گھروں میں دکھائی گئی،
پھر سوشل میڈیا پر اس کی کئی میمز بنیں،اور زبان زد عام ہوئیں۔

پوچھنا یہ ہے کہ کیا عورت لالچ میں اس درجہ گر چکی ہے کہ حلال وحرام کی تمیز کھو بیٹھی، اور دولت کی خاطر ہر حد پار کر گئی !

اس موضوع پر لوگوں سے بات کی جائے تو جواب ملتا ہے کہ معاشرے میں جو ہو رہا ہے وہی دکھایا جا رہا ہے،
اندازہ لگائیں کیسے لوگوں کے ذہن بدلے جا رہے ہیں،اور اسلام سے دور کیا جا رہا ہے۔
مانا کہ چند فیصد ایسے واقعات ہوتے ہوں گے لیکن
لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والی رضیہ جیسے لوگ بھی تو موجود ہیں، ان کو کیوں نہیں دکھایا جاتا،ایسی باہمت عورتیں کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے بجائے خود محنت کر کے نہ صرف اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی ہیں بلکہ بیمار شوہر کا علاج بھی کراتی ہیں۔

بہت دکھ کی بات ہے کہ اب ہمارے ڈراموں میں بڑی عمر کی امیر عورت کو بھی مغربی لباس میں دوپٹے سے بے نیاز دکھایا جا رہا ہے، ہاں غریب عورت کے سر پہ برائے نام دوپٹہ دکھایا جاتا ہے۔

ایک اور زہر جو ہماری نوجوان نسل میں اتارا جا رہا ہے وہ نوجوان لڑکی لڑکے کی آپس کی سر عام دوستی اور ” یار“ کہہ کے مخاطب کرنا ہے، یہ کہاں کی ثقافت دکھائی جا رہی ہے آخر!!!

ہمارے گھروں میں تو لڑکیاں بھی ایک دوسرے کو ” یار “ کہہ دیں تو مائیں فوراً سرزنش کرتی تھیں،چہ جائیکہ لڑکوں کو ” یار “ کہنا،
میڈیا کی یہ آزادی ہمیں کسی صوت قبول نہیں ہے۔

خدارا اپنی ثقافت اپنائیں،
اور نسل نو کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سےبچائیں،
کیونکہ وہ دن دور نہیں جب ہم سب کٹہرے میں کھڑے ہوں گے اور اس دن پچھتاوا کام نہیں آئے گا،

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں