روضہ اقدس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم

میرا پیمبرعظیم ترہے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

حمادیہ صفدر :

رسول اللہ ﷺ وہ ذاتِ مقدسہ ہیں جن کو رہتی دنیا تک کےلوگوں پرعظمت حاصل ہے۔ آپ ﷺ کی ولادت باسعادت یک شنبہ 9 ربیع الاول بمطابق صبح صادق کوہوئی ۔ داداعبدالمطلب نےآپ کانام محمدﷺ رکھا۔ آپ کی والدہ واجدہ کانام سیدہ آمنہ اوروالد کا نام عبداللہ تھا۔

آپ ﷺ نےایسی زندگی بسرکی جو قیامت تک کےلوگوں کیلیے راہِ روشن ہے۔ آپ ﷺ ایسے منارہ نور ہیں کہ آپ ﷺ خود تو دنیا چھوڑ کر چلے گئے مگرآپ ﷺ کےاخلاق وکردارکومؤرخین نےاس طرح نقل کیا یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کوایسا کرتے ہوئے اپنےسامنے موجود پایا ہو۔
آپ ﷺ کے افعال آپ ﷺ کےاقوال ایسی روشن قندیلیں ہیں جن کےذریعےاہلِ دنیا راہِ ہدایت پرہیں۔

ہراک فعلِ نبیﷺ ہےتا قیامت قابلِ تعمیل
اورہرہرقول موتی قیمتی نایاب ہیرا ہے

آپ ﷺ کے منورکردارکے باعث اللہ تعالٰی نےآپ ﷺ کودنیا کےانسانوں کیلیے روشن چمکتےہوئے سورج سےتشبیہ دی۔

اے پیغمبر ہم نے تم کو گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔الاحزاب

اورسورةالاحزاب میں مزیدایک ایسا ارشاد فرمایا جس میں آپ ﷺ کی حیات کوتمام لوگوں کیلیےنمونہ بنا کر یوں واضح کردیا کہ قیامت تک آنے والے لوگ آپ ﷺ کے کیے ہوئےعمل اورآپ ﷺ کےفرامین پرعمل پیراہوں ۔۔
چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے:

”حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لئے رسول اﷲ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اُس شخص کیلئے جو اﷲ سے اور یومِ آخرت سے اُمید رکھتا ہو، اور کثرت سے اﷲ کا ذکر کرتا ہو۔“
اس آیت سےواضح ہوتاہےکہ آپ ﷺ کی زندگی آپ کےافعال اخلاق وکردار،عدل ،حیا نیزہرمعاملہ زندگی قابلِ تعمیل ہیں۔

آپﷺ کی حیاتِ مبارکہ کےکچھ پہلو

آپ ﷺ کااخلاق اتنا اچھا تھا کہ خودخالقِ کائنات نےآپ ﷺ کےاخلاقِ کریمانہ کاتذکرہ کرتےہوئےفرمایا:۔
وانک لعلیٰ خلق عظیم ، القلم

حدیث میں حضرت انس بن مالک سےروایت ہے، سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں
کہ رسول اللہﷺ نےاپنےہاتھ سےکسی غلام یا خادم کو نہیں مارا،سوائے جہاد فی سبیل اللہ کے۔ نہ آپ ﷺ نے انتقام لیا جس سےآپ ﷺ کو کوئی تکلیف پہنچی ہو سوائےاس کےکہ اللہ کی حرمتوں کوتوڑا گیا ہو۔ آپ ﷺ اللہ کی خاطرانتقام لیتےتھے۔(المؤطا۔۔۔1677)

آپ ﷺ نےشرم وحیا کےزیورسےآراستہ ایسی طیب حیات بسر کی کہ حیا کی مثالیں قائم کردیں۔
سیدنا ابوسعیدؓ نےبیان فرمایا کہ
رسول ﷺ کنواری لڑکی کےاپنی چادرمیں چھپ کرشرم کرنے سے بھی زیادہ شرم وحیا والےتھے۔(بخاری۔6119)

” بخاری شریف “ میں ایک واقعہ نقل ہوتا ہےکہ ابھی آنحضرت ﷺ ابھی اپنے بچپن میں تھےکہ آپ ﷺ اپنے چچا کےساتھ مل کراینٹیں اٹھانے کا کام کررہےتھے۔ آپ ﷺ کاتہہ بند بار بار پاؤں میں اٹک رہاتھا سب نےمشورہ دیاکہ آپ اپنا تہہ بند اتاردیں ۔ جب آپ ﷺ نے ایسا کیا توحیا کی وجہ سےآپ ﷺ بے ہوش ہوگئے اور جب ہوش آیا تو بس یہی الفاظ زبانِ اطہر پر رواں تھے۔ مجھےمیراتہہ بند اوڑھا دو مجھے میرا تہہ بند اوڑھا دو۔ ( رقم الحدیث۔ 1582)

آپ ﷺایسےنرم خوتھےکہ سورة آلِ عمران میں اللہ رب العزت نےارشادفرمایا:

” پس اللہ کی رحمت کےسبب آپ نرم دل ہیں آگرآپ ﷺ ترش روہوتے تو لوگ آپ ﷺ سےچھٹ جاتے۔“

اس کے ساتھ ساتھ سمجھانے کے انداز میں بھی ایسی نرمی کہ ہرسننے والا آپ ﷺ کی بات سمجھ بھی جائےاورعمل بھی کرلے۔

سیدنا انس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک عورت کے پاس سے گزرے جو قبر پہ بیٹھی رو رہی تھی آپ ﷺ نےفرمایا:” اللہ سےڈرو اور صبرکرو۔اس نے کہا: دورہو جاؤ مجھ سے۔ بیشک (تم میری مصیبت کونہیں جان سکتےکیونکہ ) میری مصیبت تم پر نہیں آئی ۔ اوراس نےآپ ﷺ کونہیں پہنچانا تھا۔ پس اسے بتایا گیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ تھے وہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کوئی دربان دروازے پرنہ پایا۔

اس نے (آپ ﷺ سے معذرت چاہی اور) بتایا کہ میں نےآپ کو نہیں پہنچانا تھا۔ (آپ ﷺ نے اسےکچھ نہ کہا بلکہ بڑےنرمی والے اندازمیں فرمایا)
صبرصدمےکی پہلی چوٹ پرہوتاہے(صحیحین).

آپ ﷺ چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھتے، مذاق بھی کرتے مگر کبھی جھوٹ نہ بولتے بلکہ مذاق میں حق و صداقت کا خیال کرتے۔

ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت آپ ﷺ کےپاس آئی اوربولی :دعاکریں کہ میں جنت میں چلی جاؤں آپ ﷺ نےفرمایا: بوڑھے لوگ جنت میں نہیں جائیں گے۔ وہ عورت رونے لگی توآپ ﷺ نے پیاربھرے اندازمیں فرمایا:

اماں بوڑھےلوگ جنت میں نہیں جائیں گے بلکہ اللہ سب بوڑھوں کوجوان کرکے جنت میں داخل فرمائیں گےتوبڑھیا مسکرانےلگی۔۔ (ترمذی۔241)

آپ ﷺ کی زبانِ اطہر سے جو بھی الفاظ ادا ہوتے وہ حق وصداقت کی تمثیلِ اولٰی ہوتے۔ کبھی فضول گوئی نہ کرتے۔ کبھی اپنی خواہش سے نہ بولتے۔ یہی وجہ ہے کہ مصحفِ سماوی آپ ﷺ کی لسانِ اطہرکی گواہی دیتا ہے۔چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے:

اوروہ اپنی خواہشِ نفس سےنہیں بولتے۔نہیں (ان کا کلام )کچھ بھی مگرایک وحی جوان پرکی جاتی ہے۔
(انجم )

یہ آپ ﷺ کی ذاتِ اطہر میں پائے جانے والے اوصاف حمیدہ ہیں کہ خود ربِ اکبربھی مختلف طریقوں سے قرآن مقدس میں آپ ﷺ کا ذکرکرتےہیں۔
طہ۔ یٰس ۔ مزمل ۔ مدثر وغیرہ جیسےالفاظ کےساتھ قرآن میں اللہ آپ ﷺ کویاد کرتےہیں۔۔۔
چنانچہ شاعراپنےاندازمیں اس چیزکا یوں تذکرہ کرتاہے۔۔۔

اپنےہی نہیں بیگانےبھی سرکارکی باتیں کرتے ہیں
دشمن بھی میرےآقاکےکردارکی باتیں کرتےہیں
والشمس کہیں واللیل کہیں والفجرکہیں پہ فرماکر
قرآن میں رب تعالٰی بھی سرکارکی باتیں کرتےہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں