مسلمان حکمران،جس کی برطرفی پر ہندو اور بدھ شہریوں میں بھی صف ماتم بچھ گئی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبیداللہ عابد ……….
عراق کا انتہائی سخت مزاج گورنر حجاج بن یوسف ایک نقشہ پھیلائے اسے دیکھنے میں مصروف تھا۔ محافظ نے خبردی کہ ترکستان(آج کل یہ علاقہ روس اور چین کے قبضے میں ہے ) سے ایک ایلچی آیا ہے اور فوراً ملناچاہتاہے ۔ حجاج نے آنکھیں اٹھائے بغیر ہی ایلچی کو اندر بلانے کی اجازت دی۔ ایلچی اندرداخل ہوا، وہ سولہ سترہ برس کا معلوم ہوتاتھا۔ اس نے گرجتے ہوئے کہا: تم یہاں کیالینے آئے ہو؟ قتیبہ خود کہاں ہے ؟‘‘ نوجوان نے کوئی جواب دینے کی بجائے ایک خط آگے کردیا۔ خط پڑھ کر حجاج نے پوچھا کہ قتیبہ نے کہا ہے کہ وہ اپنے کسی تجربہ کار جرنیل کو بھیجے گا لیکن تم…؟‘‘ نوجوان نے کہا کہ میں ہی وہ فرد ہوں جسے قتیبہ نے آپ کی طرف بھیجا ہے ، اگرآپ کسی اور کو ملنے کے خواہش مند ہیں تو میں واپس چلاجاتاہوں۔ حجاج نے نوجوان سے نام پوچھا۔ ’’محمد بن قاسم ثقفی‘‘ اس نے جواب دیا۔ نام سن کر حجاج حیرت اور خوشی کے مارے اچھل پڑا کیونکہ یہ اس کے بھائی قاسم کا بیٹا تھا۔ پھر پوچھنے لگا کہ تم مجھے جانتے ہو؟ ’’آپ بصرہ کے گورنر حجاج بن یوسف ہیں‘‘ نوجوان نے جواب دیا۔ حجاج کہنے لگا کہ میں تمہارا چچا بھی ہوں لیکن نوجوان اس خبر پر مطلق پرجوش نہ ہوا۔ پھر گویا ہوا:’’ ہاں! میری والدہ نے بتایاتھا… اور یہ بھی بتایاتھا کہ آپ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے قاتل بھی ہیں‘‘۔ اسی لمحے حجاج کو مدینے کے ایک چھوٹے سے مکان میں موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا اپنا بھائی قاسم یادآیا۔ جب وہ اس کی تیمار داری کے لئے بستر کے قریب پہنچاتو بھائی نے نفرت سے اپنی نظریں پھیر لیں۔ ان کے لئے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے قاتل کا وجود برداشت نہیں ہورہاتھا۔ اور اسی طرح منہ پھیرے کہا: ’’حجاج ! یہاں سے چلے جائو، میں مرتے وقت عبداللہ بن زبیرؓ کے قاتل کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتا۔‘‘ تب اس اپنے بھائی کے بیٹے محمد کو دیکھاتو کم سن تھا۔ اس کے بعد کبھی حجاج کو اس گھرانے میں جانے کی ہمت نہ ہوئی۔ آج وہ ننھا بھتیجا ایک بلندقامت نوجوان کی صورت میں اس کے سامنے بیٹھا تھا۔ حجاج نے انتہائی بے چارگی سے پوچھا:’’ محمد! ہم عبداللہ بن زبیرؓ کے قاتل کے علاوہ اور کچھ نہیں؟‘‘ نوجوان نے چچا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا’’ یہ اللہ کی مخلوق کا فتویٰ ہے ، میں آپ کو دھوکے میں رکھنے کے لئے قاتل کی جگہ کوئی اور لفظ نہیں دے سکتا‘‘۔ ٭٭٭ اس ملاقات کے کچھ ہی عرصہ بعد سترہ سالہ نوجوان کو دیبل(آج کا سندھ) کی طرف ایک بڑا لشکر دے کربھیجا گیا۔ محمد بن قاسم نے اس قدر کم عمری میں سندھ فتح کرکے تاریخ کا ایک انوکھا کارنامہ سرانجام دیا۔ محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد سے اسلام کا داخلہ ہندوستان میں ہوا۔ اسی نسبت سے سندھ ’’باب الاسلام‘‘ کہلاتا ہے کیونکہ ہندوستان پر اسلام کا دروازہ یہاں سے ہی کھلا تھا۔ محمد بن قاسم( پیدائش 694ء ، طائف) کے والد خاندان کے ممتاز افراد میں سے تھے ۔وہ بصرہ کی گورنر تھے لیکن ایک غریب گورنر۔ محمد بن قاسم کی عمر تقریباً 5 سال تھی کہ والد کا انتقال ہوگیا۔ اس صدمہ نے محمد کی اٹھان ایک مضبوط نوجوان کے طورپر کی۔ بچپن ہی سے ان کی شخصیت میںمستقبل کا ذہین اور قابل شخص نظر آتا تھا۔غربت کی وجہ سے محمد اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کرسکے ، ابتدائی تعلیم کے بعدہی فوج میں بھرتی ہوگئے ۔ فنون سپہ گری کی تربیت دمشق میں حاصل کی اور انتہائی کم عمری میں اپنی قابلیت اور غیر معمولی صلاحیت کا ثبوت فوج میں اعلی عہدہ حاصل کرکے دیا۔ محمد کی عمر15 سال تھی کہ انھیں ایران میں کردوں کی بغاوت ختم کرنے کیلئے سپہ سالار بنا کر بھیجا گیا۔ اس وقت بنو امیہ کے حکمران ولید بن عبدالملک کا دور تھا اور حجاج بن یوسف عراق کا گورنر۔ اس مہم میں محمد بن قاسم نے کامیابی حاصل کی، انھوں نے ایک معمولی چھاؤنی شیراز کو ایک خاص شہر بنادیا، گورنر نے انھیں اس شہر کا حاکم بنادیا، انہوں نے اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ حکومت کی۔جلد ہی ایران کے صوبہ فارس کا گورنر مقرر ہوئے ،17 سال کی عمر میں ہی سندھ کی مہم پر سالار بنا کر بھیجا گیا۔ محمد بن قاسم کی فتوحات کا سلسلہ 711ء میں شروع ہوا اور 713ء تک جاری رہا۔ انہوں نے سندھ کے اہم علاقے فتح کئے اور ملتان کو فتح کرکے سندھ کی فتوحات کو پایہ تکمیل تک پہنچایا لیکن شمالی ہند کی طرف بڑھنے کی خواہش حالات نے پوری نہ ہونے دی۔ محمد بن قاسم نے تقریباً 4 سال سندھ میں گزارے لیکن اس مختصر عرصے میں انہوں نے فتوحات کے ساتھ ساتھ سلطنت کا اعلی انتظام کیا اور سندھ میں ایسے نظام حکومت کی بنیاد ڈالی جس نے انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کیا۔ سندھ کے عوام کے لئے انہوں نے رواداری کی بڑی عمدہ پالیسی اختیار کی۔یہی وجہ ہے کہ ان کی فتح سیاسی، معاشرتی، مذہبی اور عملی ہر اعتبار سے بے شمار اثرات کی حامل تھی۔ ملتان کی فتح کے بعد محمد بن قاسم نے شمالی ہند کر سر سبز و شاداب علاقے کی جانب متوجہ ہونے کے لئے قدم بڑھائے ۔ پہلے قنوج کے راجہ کو دعوت اسلام دی لیکن اس نے قبول نہ کی تو محمد بن قاسم نے قنوج پر حملے کی تیاری شروع کردی۔ اس دوران 95ھ میں حجاج بن یوسف کا انتقال ہوگیا جس پر محمد بن قاسم نے قنوج پر فوج کشی کے بجائے واپس آگیا۔ حجاج بن یوسف کے انتقال کے کچھ ہی عرصے بعد ولید بن عبدالملک نے مشرقی ممالک کے تمام گورنروں کے نام احکامات جاری کئے کہ وہ تمام فتوحات اور پیش قدمی روک دیں۔ محمد بن قاسم کی شمالی ہند کی فتوحات کی خواہش پوری کرنے کی حالات نے اجازت نہ دی اور کچھ ہی ماہ بعد خلیفہ ولید بن عبدالملک کا بھی 96ھ میں انتقال ہوگیا۔ اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے انتقال کے بعد اس کا بھائی سلیمان بن عبدالملک جانشین مقرر ہوا جو حجاج بن یوسف کا سخت دشمن تھا۔ حجاج کا انتقال اگرچہ اس کی حکمرانی کے آغاز سے قبل ہی ہوگیا، اس عداوت کا بدلہ اس نے حجاج کے تمام خاندان سے لیا اور محمد بن قاسم کی تمام خدمات اور کارناموں کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں حجاج کے خاندان کا فرد ہونے کے جرم میں عتاب کا نشانہ بنایا۔ سلیمان نے یزید بن ابی کبشہ کو سندھ کا والی بناکر بھیجا اور حکم دیا کہ محمد بن قاسم کو گرفتار کرکے بھیجو۔ محمد بن قاسم کے ساتھیوں کو جب ان گرفتاری کا پتہ چلا تو انہوں نے محمد بن قاسم سے کہا کہ ہم تمہیں اپنا امیر جانتے ہیں اور اس کے لئے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں، خلیفہ کا ہاتھ ہرگز تم تک نہیں پہنچنے دیں گے لیکن محمد بن قاسم نے خلیفہ کے حکم کے سامنے اپنے آپ کو جھکادیا۔ یہ ان کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو ان کی امداد کے لئے سندھ کے ریگستان کا ہر ذرہ آگے آتا لیکن انہوں نے اپنے آپ کو ابی کبشہ کے سپرد کردیا۔ محمد بن قاسم کو گرفتار کرنے کے بعد دمشق بھیج دیا گیا۔ سلیمان نے انہیں واسط کے قید خانے میں قید کروادیا۔ 7 ماہ قید کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ اس طرح محسن سلطنت کی خلیفہ نے قدر نہ کی اور ایک عظیم فاتح محض خلیفہ کی ذاتی عداوت و دشمنی کی بناء پر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ان کی موت سے دنیائے اسلام کو عظیم نقصان پہنچا۔ انتہائی پروقار شخصیت کے حامل محمد بن قاسم کا اخلاق دوسروں کو جلد گرویدہ بنالیتا تھا۔ شیریں زبان اور ہنس مکھ انسان باہمت بھی تھے اور بامروت بھی، رحمدل بھی تھے اور ملنسار بھی۔ عام زندگی میں لوگوں کے غم بانٹتے تھے ۔ ان کے اخلاق و کردار کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک غیر قوم ان کی گرویدہ ہوگئی تھی۔ سندھ کے عوام ان سے حد درجہ چاہت کا اظہار کرنے لگے تھے ۔ فتوح البلدان کے مصنف بلاذری اور بیشتر مورخین کے مطابق ’’محمد بن قاسم جب سندھ سے رخصت ہونے لگے تو سارے سندھ میں ان کے جانے پر اظہار افسوس کیا گیا۔ ان کی وفات پر شہر کیرج کے ہندوؤں اور بدھوں نے اپنے شہر میں ان کا ایک مجسمہ بناکر اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔‘‘ محمد بن قاسم سندھ میں تقریباً 4 سال رہے ۔ ان کے بعد آنے والا گورنر یزید بن ابی کبشہ چند دن ہی حکومت میں رہا، اور پھر اس کا انتقال ہوگیا۔اس کے انتقال اور نئے گورنر کے آنے تک محمد بن قاسم کی گرفتاری کے اثرات سندھ میں بدنظمی کی صورت میں نظر آنے لگے ۔ محمد بن قاسم کو پہلا پاکستانی بھی قراردیاجاتاہے کیونکہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے دوقومی نظریہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایاتھا:’’ پاکستان اسی روز وجود میں آگیاتھا جب پہلے مسلمان نے سرزمین ہند پر اپنا قدم رکھاتھا‘‘۔ اوریہ پہلے فرد محمد بن قاسم ہی تھے ۔ ان کی حکمرانی کا آغاز10رمضان المبارک کو ہوا جس کی وجہ سے اسے ’’یوم باب السلام‘‘ کے طورپر منایاجاتاہے ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں