رابعہ حسن ، اردو کالم نگار ، افسانہ نگار

کسک

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

رابعہ حسن :

خدا جانے مائوں کی کوکھ سے ایسے درندے کیسے جنم لے لیتے ہیں جو ہوس و شیطانیت میں اتنا آگے بڑھ جاتے ہیں کہ ان کی بربریت کے سامنے شیطان بھی شرمندہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ یقین نہیں آتا کہ ایسے درندے کسی عورت ہی کی وجود سے پیدا ہوتے ہیں ، کسی عورت ہی کی گود میں پلتے بڑھتے ہیں جو سفاکیت کی اس انتہا پہ ہوتے ہیں جہاں انہیں صنفِ مخالف کی عمر سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

مجھے اپنے سینے میں دل کے بجائے درد کا ایک پھوڑا محسوس ہوتا ہے، دماغ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو کر رہ گیا ہے، جب سے کشمور کا واقعہ ہوا ہے۔ میرے اندر اتنی ہمت، اتنا حوصلہ نہیں کہ میں اس کی تفصیلات دہرائوں۔ آئے دن بچیوں کے ساتھ اتنی درندگی، اتنی سفاکیت !!!!

مجھے تو لگتا ہے ہم کہیں کسی جنگل کے باسی ہیں جہاں کوئی قانون نہیں، بھیڑیے مائوں کے کلیجے نوچ کر لے جاتے ہیں۔ نہیں ……نہیں شاید بھیڑیے بھی اتنے سفاک نہیں ہوں گے، ان میں بھی خدا ترسی اور رحم ہوتا ہو گا۔

خدایا ! ہم کس بستی میں آن بسے ہیں کہ جہاں ہمارا کوئی محافظ نہیں، مائوں کی بیٹیاں یوں ارزاں ہو گئی ہیں کہ وحشی درندے انہیں ان کی نظروں کے سامنے نوچ ڈالیں۔ یہ ہوس کی کون سی انتہا ہے جو دو چار سال کی معصوم بچی کی آنکھوں میں معصومیت دیکھنے سے قاصر ہے، جو ایک معصوم پھول کے وجود میں بھی ایک عورت کا وجود دیکھتی ہے؟

کہاں ہیں وہ لوگ جو برائی کو اکسانے کے لیے وجہ عورت کے وجود کو قراردیتے ہیں؟ مانا کہ اس معاشرہ میں عورت کاعورت ہونا ہی کچھ افراد کے لیے برائی پر اکسانے کے لیے کافی ہے اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ باپردہ ہے یا بے پردہ، وہ گھر میں ہے یا گھر سے باہر، اکیلی ہے یا محرم کے ساتھ۔ مگر……مگر یہ معصوم بچیاں، یہ ننھی کلیاں، یہ جنت کے پھول ان کو دیکھ کر کون سی ہوس جاگتی ہے، ان کو دیکھ کر کون سی ترغیب ملتی ہے؟

خبریں سننے کا حوصلہ نہیں، آئے روز ایسے واقعات دو چار دن ایک واقعہ چلتا ہے پھر نئے حادثے کی گونج اسے دبا کر رکھ دیتی ہے۔ کبھی نہیں پتا چلتا کہ کسی درندے کو سزا ملی یا نہیں۔ خدا کی قسم ! ایک درندے کو سر عام سنگسار کریں تو ملک میں کوئی دوسرا واقعہ نہ ہو۔

اگر ان درندوں کو سزائیں نہیں ملتیں تو قصوروار ہم بھی ہیں، خاموش تماشائی بھی شریکِ جرم ہی ہوتا ہے۔ ہم کیوں ایک واقعے پہ چند دن بولنے اور کڑھنے کے بعد خاموش ہو جاتے ہیں؟ ہم کیوں اس معصوم کلی کے کرب، اذیت کو محسوس نہیں کر سکتے؟ ہم کیوں ان والدین کے عمر بھر کی کسک کو اپنے سینے میں اٹھتا محسوس نہیں کرتے؟

ہاں ……ہم کچھ دن سوشل میڈیا پہ تبصرے کر کے خاموش ہو جاتے ہیں لیکن ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو ایسے مقدمات کی خبر رکھتے ہیں، کتنے لوگ ہیں جو ان ظالموں کو ان کے انجام سے دوچار کرنے میں پوری مستعدی دکھاتے ہیں؟ یقینا بہت کم……بہت ہی کم……

کبھی کسی نے سوچا کہ یہ جرم بڑھ کیوں رہے ہیں؟ کیوں انسان ارزل المخلوقات کے گہرے گڑھوں میں گر رہا ہے؟ انصاف کی عدم موجودگی کی وجہ سے…… صدیوں بعد کوئی تاریک پھانسی گھاٹ میں پھانسی پہ لٹکا بھی تو اس سے عبرت کسے ملے گی؟ عبرت تو تب ہے جب آپ انصاف کے عمل کو اتنا تیز اور شفاف بنائیں کہ ایسے درندوں کو سرِ عام سنگسار کیا جائے، بغیر کسی نام نہادانسانی حقوق کی تنظیم کے شور شرابے کی پروا کیے۔ اور یہ ہمارا میڈیا ایسی سزائیں براہِ راست نشر کرے۔

نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمو! تمہیں کیا پتا کہ وہ ننھی کلی جو دست قاتل نے مسل ڈالی وہ کسی کے دل کا ٹکڑا ہوئی ہو گی، کسی کی آنکھ کا تارہ ہوئی ہو گی، جس کی ایک چھوٹی سے تکلیف پہ اس کے ماں باپ رات رات بھر جاگ کر گزارتے ہوں گے، اس سفاکیت، کرب، اذیت کی انتہا کا تصور ہی ان کو زندہ درگور کر دیتا ہوگا جو اس معصوم کلی نے اٹھایا ہو گا۔ کیا وہ والدین زندگی میں دوبارہ کبھی ہنس سکیں گے؟ اگر وہ ننھی کلی بچ گئی کیا وہ عمر بھر اس خوف اور وحشت کے احساس سے نکل سکے گی؟

ان ننھی کلیوں کو فوری انصاف دیں، یہ انصاف آئندہ کسی بھی درندے کو درندگی سے باز رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ وگرنہ اگر آپ ثبوت و واقعات کو ڈھونڈنے پہ لگ گئے، تو دو چار سال کی بچیوں کا گواہ خدا کے سوا کوئی نہیں ہو گا۔

کیا کبھی کوئی ان ننھی کلیوں کے لیے روڈ پہ نکلا، کوئی دھرنا ، کوئی احتجاج کوئی بھوک ہڑتال ہم میں سے کسی نے کی؟ نہیں ……کیونکہ آگ برابر کے گھر میں لگی ہے، ہمیں کیا؟ یا یہ قوم کی بیٹیاں نہیں؟

مگر شاید ہم یہ نہیں جانتے کہ آگ تو بے قابو چیز ہوتی ہے اسے بجھایا نہ جائے تو وہ بستیوں کی بستیوں کو جلا کر رکھ دیتی ہے۔ یہ جرم ایک وبائی مرض کی صورت میں پھیل رہا ہے، اس کی ویکسین فوری اور عبرت انگیز سزا ہے۔ اگر ان ننھی بچیوں کو انصاف دینے میں ادارے ناکام ہو گئے تو وہ وقت دور نہیں جب خدا کی زمین اس کے غضب سے لرز اٹھے گی۔

سزاوں کی مخالفت میں یہ دلیل دینی کہ مناسب تربیت ان جرائم کو ختم کر سکتی ہے، کسی طور بھی درست نہیں۔ اول تو یہ صدیوں کا کام ہے، دوسرا تربیت جتنی بھی اچھی ہو شیطان جس کی فطرت میں شامل ہے اسے سزا اور ڈر کے علاوہ کوئی چیز باز نہیں رکھ سکتی۔

اگر ہمارے ادارے تحفظ اور انصاف دینے میں ناکام رہیں، تو میری خواہش ہے کہ کسی بھی درندے کی قبر شق ہو جائے اور اس کی عبرت انگیز سزا کا تماشا دنیا دیکھے۔ بہرحال رب کی ذات تو عادلِ عظیم ہے۔ لیکن کیا ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں؟ انصاف سے اتنا محروم ہو چکے ہیں کہ ہم نے ہر انصاف خدا پہ چھوڑ دیا ہے۔ اور اگر ان ننھی کلیوں نے خود باجماعت خدا کے حضور مقدمہ رکھ کہ ہم سب کے خلاف پرچہ درج کرا دیا تو……؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں