ولی عہد محمد بن سلمان کے خلاف بغاوت کا خدشہ، دارالحکومت ریاض فوج کے حوالے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ملک بدر کیے گئے شہزادے کی طرف سے ممکنہ بغاوت کے پیش نظر سعودی عرب کے ولی عہد نے ریاض کا کنٹرول فوج کے حوالے کر دیا۔
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے بیشتر سعودی فوجوں کو دارالحکومت ریاض میں منتقل کر دیا ہے، اس اقدام کی وجہ باغی شہزادے خالد بن فرحان السعود کی جانب سے لگائی گئی دھمکی کو قرار دیا جا رہا ہے۔ جس میں انہوں نے ولی عہد محمد بن سلمان کیخلاف اعلان بغاوت کرتے ہوئے انہیں اقتدار سے ہٹانے کا اعلان کیا ہے۔

ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق اماراتی میڈیا کو دئیے گئے انٹرویو میں باغی شہزادے خالد بن فرحان السعود نے شاہی خاندان میں سے اپوزیشن کو متحرک کرکے محمد بن سلمان کی حکومت کے خاتمے کا عندیہ دیا ہے۔ جرمنی میں جلا وطن شہزادے کا کہنا ہے کہ محمد بن سلمان کا انداز حکومت جاہلانہ اور متکبرانہ ہے، اس کی حکومت کا خاتمہ ضروری ہے۔

دوسری جانب یہ بات بھی اہم ہے کہ ارجنٹینا کے شہر بیونس آئرس میں منعقد ہونے والا جی 20 سربراہی اجلاس سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے لیے ایک بڑے سفارتی امتحان کے مترادف ہو گا۔ ستمبر میں استنبول کے سعودی قونصلیٹ میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد مختلف حلقوں سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ اس میں سعودی ولی عہد کس حد تک ملوث ہیں۔

واضح رہے کہ سعودی عرب کے شاہ سلمان نے گزشتہ ولی عہد 57 سالہ شہزادہ محمد بن نائف کی جگہ اپنے 31 سالہ بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان کو اپنا نیا ولی عہد مقرر کیا جبکہ یہ اعلان ایک شاہی فرمان کے ذریعے کیا گیا جس کے بعد اب شاہ سلمان کے بعد محمد بن سلمان سعودی ریاست کے اگلے حاکم ہوں گے۔اس وقت شاہ سلمان نے شہزادہ محمد بن نائف کو وزیرِ داخلہ کے عہدے سے بھی ہٹا دیا گیا۔

شاہ سلمان نے ملک میں جانشینی کا فیصلہ کرنے والی کونسل سے مشاورت کے بعد ولی عہد کی تبدیلی کا فیصلہ کیا۔ یہ کونسل سنہ دو ہزار چھ میں قائم کی گئی تھی تاکہ قدامت پسند اسلامی سلطنت میں جانشین کو مقرر کرنے کا عمل باآسانی اور منظم طریقے سے طے پا سکے۔شاہ سلمان بن عبدالعزیز جنوری 2015 میں اپنے سوتیلے بھائی شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی وفات کے بعد سعودی عرب کے بادشاہ بنائے گئے تھے۔ انہوں نے سابق ولی عہد شہزادہ محمد بن نائف کو تمام عہدوں سے ہٹا دیا تھا۔

تخت سنبھالنے کے بعد 29 اپریل 2015 کو انھوں نے اپنے سوتیلے بھائی مقرن بن عبدالعزیز کی جگہ اپنے بھتیجے محمد بن نائف کو ولی عہد مقرر کیا تھا۔ اسی وقت شاہ سلمان کے صاحبزادے شہزادہ محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد نامزد کیا گیا اور اب انھیں ولی عہد بنا دیا گیا ہے۔ اس واقعے سے چند روز پہلے ہی سعودی حکومت نے قطرکے ساتھ اپنے سیاسی تعلقات توڑ لئے اور اس وقت بھی کہ جب سعودی عرب میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور معزولیاں انجام پائی، محمد بن سلمان کو بادشاہ بنائے جانے کا امکان بڑھ گیا ہے-

سعودی شاہی خاندان کی تاریخ
سعودی عرب کے موجودہ حکمران خاندان آلِ سعود کا تعلق 17ویں صدی میں جزیرہ نما عرب کے اس صحرائی خطے پر حکمران کرنے والے شیخ سعود بن محمد سے ہے۔ اسی خطے میں دو صدی بعد ان کے نام سے منسوب ایک ریاست سعودی عرب قائم ہوئی۔ شیخ سعود بن محمد کا بیٹا محمد 1744 میں ایک شعلہ بیان مذہبی رہنما محمد بن عبدالوہاب کا مربی بن گیا۔
محمد کے جانشیوں نے 1818 میں عثمانیوں کے ہاتھوں شکست کھائی لیکن چھ سال بعد آلِ سعود نے ریاض پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ یہ چھوٹی سی ریاست 1891 تک قائم رہی لیکن شمار نامی قبیلے سے تعلق رکھنے والے الرشد نے اس ریاست کو ختم کر دیا۔

الرشد سے شکست کھانے کے بعد اس وقت کے حکمران شہزادہ عبدالرحمان السعود نے کویت میں پناہ لی جس کے بعد وہ انگریزوں کی مدد سے 11 سال بعد ریاض پر دوبارہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔عبدالعزیز بن السعود نے 1902 میں الرشد قبیلے کو ریاض سے مکمل طور پر بے دخل کر دیا اور سعودی عرب پر اپنی دسترس مضبوط کرنے میں مصروف ہو گئے۔ عبدالعزیز نے کئی قبائلی جنگوں کے بعد عرب قبائل کو متحد کرنے کا کام شروع کر دیا۔ انھوں نے 1913 میں خلیج کے ساحلی علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا اور اسلام کے مقدس ترین شہر مکہ سے ہاشمی قبیلے کے شریف الحسینی کو بے دخل کر دیا۔
1932 میں انھوں نے سعودی عرب کے بادشاہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ 1948 میں تیل کے ذخائر دریافت ہونے پر یہ ریاست دنیا کے امیر ترین ملکوں میں شامل ہو گئی۔

بادشاہت میں اقتدار کی منتقلی کیسے ہوتی ہے؟
سعودی عرب کے قانون کے مطابق بادشاہ بننے والے شخص کے لیے لازم ہے کہ وہ عبد العزیز کی نسل سے ہو جن کا انتقال 1953 میں ہوا تھا۔ ان کے انتقال کے بعد سے سعودی عرب کی بادشاہت ان کے ایک بیٹے سے دوسرے بیٹے کو منتقل ہوتی رہی ہے۔ملک میں ایک بیعت کونسل قائم ہے جو بادشاہ کی تاج پوشی کا تعین کرتی ہے۔ یہ کونسل عبدالعزیز کی اولاد پر مبنی ہوتی ہے۔

بادشاہ کے مرنے پر کونسل ولی عہد کا بھی باضابطہ اعلان کرتی ہے۔ نئے بادشاہ کو اپنی تاج پوشی کے دس دن کے اندر اندر ولی عہد کے لیے تین ناموں کا اعلان کرنا ہوتا ہے۔ کونسل ان تین میں سے ایک نام کا انتخاب کرتی ہے، تاہم اس کے پاس اختیار ہے کہ وہ تینوں نام مسترد کر کے اپنی مرضی کے کسی نام کا انتخاب کر لے۔تاہم اس کے بعد بادشاہ کمیٹی کے مجوزہ امیدوار کو مسترد کر سکتا ہے، جس کے بعد کونسل کے پاس ایک ماہ کا وقت ہوتا ہے کہ یا تو اپنا امیدوار منتخب کرے یا بادشاہ کا تجویز کردہ۔یہ تو قانونی طریقہ ہے لیکن عام طور پر ولی عہد کا انتخاب شاہی خاندان کی غیر رسمی اندرونی مشاورت سے ہوتا ہے۔

باپ سے بیٹے تک منتقلی؟
عبدالعزیز کے 45 بیٹے تھے۔ شاہ سعود نے اپنے باپ کے انتقال کے بعد 1963 میں اقتدار سنبھالا۔ تاہم جب دو نومبر 1964 کو شاہ سعود کو بدعنوانی اور نااہلی کی بنیاد پر معزول کیا گیا تو ان کے سوتیلے بھائی فیصل بادشاہ بن گئے۔ سعود کا انتقال 1969 میں جلاوطنی کی حالت میں ہوا۔
شاہ فیصل نے سعودی عرب کو جدید ملک بنانے میں اہم کردار ادا کیا تاہم مارچ 1975 میں ان کے بھتیجے نے انھیں قتل کر دیا، جس کے بعد ایک اور سوتیلے بھائی خالد نے تخت سنبھال لیا اور 1982 میں اپنی موت تک حکمرانی کرتے رہے۔
انھوں نے مرنے سے پہلے خود سے دو سال چھوٹے فہد کو ولی عہد مقرر کیا تھا۔فہد نومبر 1995 میں فوت ہوئے جس کے بعد ان کے سوتیلے بھائی عبداللہ بادشاہ بنے۔ موجودہ شاہ سلمان جنوری 2015 میں عبداللہ کے انتقال کے بعد تخت پر بیٹھے تھے۔

صورتِ حال کیسے بدلی ہے؟
بعض لوگوں کو شہزادہ محمد کا تیزی سے ابھرتا ہوا ستارہ اور ان کا جارح مزاج شیکسپیئر کے کسی ڈرامے کی یاد دلاتا ہے۔ اگر وہ مستقبل قریب میں بادشاہ بن گئے تو کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب کا تخت نصف صدی تک ان کے پاس رہ سکتا ہے۔

خاشقجی کے بحران کا کوئی اثر ہو گا؟
خاشقجی کے مبینہ قتل کے ممکنہ مضمرات کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہے۔شہزادہ محمد کی تباہ کن خارجہ پالیسی کا سب سے پہلے یمن نشانہ بنا۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں سعودی عرب روز بروز دھنستا چلا جا رہا ہے۔دوسری طرف شہزادے نے تیزی سے شاہی خاندان کی تمام طاقت اپنی ذات کے اندر مرکوز کرنا شروع کر دی ہے، جس کی وجہ سے خود شاہی خاندان، تجارتی طبقے اور مذہبی علما کی جانب ان کی مخالفت کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

یوریشیا گروپ نامی کنسلٹنسی گروپ کے مطابق خاشقجی کے واقعے کے بعد شاہی خاندان کی جانب سے نوجوان ولی عہد کی مخالفت بڑھتی چلی جائے گی۔ السعود خاندان کے اندر بعض عناصر کو یقین ہے کہ شہزادہ اندھا دھند فیصلے کرتا ہے جس سے ملک کی سلامتی خطرے میں ہے۔

تحقیقاتی ادارے کیپیٹل اکنامکس کے مطابق: سعودی شاہی خاندان میں بغاوت کی افواہیں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے۔
سرکاری طور پر 82 سالہ شاہ سلمان اپنا ولی عہد بدل سکتے ہیں، لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق اس کے امکانات کم ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں