کعبہ ، پرانی تصویر

فتح مکہ کا ایک خوبصورت منظر

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر شائستہ جبیں :

نبی اکرمﷺ کے امتیازات اور خصائص میں سے ایک نمایاں وصف آپﷺ کا ” رحمة للعالمین“ ہونا ہے، جس کی شہادت کلامِ الٰہی نے خود دی ہے۔ ترجمہ : اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

اس عظیم الشان وصف کے جا بجا مظاہرے سے آپ ﷺ کی تمام حیات طیبہ عبارت ہے۔ کفار و مشرکین کے ساتھ آپ کا طرزِ عمل ہو یا بدترین دشمنوں سے معاملہ ہو، ہر ہر پہلو عفو و درگزر اور حسنِ سلوک سے مزین ہے لیکن معافی اور درگزر کا جو مظاہرہ اور مثالی رویہ آپ نے فتح مکہ کے دن اختیار کیا، وہ تاریخ عالم کا ایسا واقعہ ہے، جس کی نظیر نہیں ملتی۔

یہ وہ موقع تھا جب آپﷺ کو کفار مکہ پر مکمل اختیار حاصل تھا، جب کعبة اللہ کے صحن میں دشمنانِ اسلام گروہ در گروہ سر جھکائے، دست بستہ ساکت کھڑے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا :
اے قریش تم کیا سمجھتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیسا سلوک کروں گا؟

وہ کہنے لگے:
یقیناً آپ اچھا سلوک کریں گے کیونکہ آپ شریف بھائی ہیں اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا : میں تم سے وہی الفاظ کہتا ہوں جو سیدنا یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے فرمائے تھے:
لا تثریب علیکم الیوم….. اذھبو فانتم الطلقاءآج تمہیں کوئی ملامت نہ ہو گی…. جائو! تم سب آزاد ہو۔

اس عام معافی کے حوالے سے معروف سیرت نگار علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں :
” آپﷺ نے مجمع کی طرف دیکھا تو جباران قریش سامنے تھے۔ ان میں وہ حوصلہ مند بھی تھے جو اسلام کو مٹانے میں سب کے پیشرو تھے، وہ بھی جن کی تیغ و سنان نے پیکر اقدس کے ساتھ گستاخیاں کی تھیں، وہ بھی جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے تھے، وہ بھی تھے جو وعظ کے وقت آنحضرت ﷺ کی ایڑیوں کو لہولہان کر دیا کرتے تھے، وہ بھی تھے جن کی تشنہ لبی خون نبوت کے سوا کسی اور چیز سے نہیں بجھتی تھی،

وہ بھی تھے جن کے حملوں کا سیلاب مدینے کی دیواروں سے آ کر ٹکراتا تھا، وہ بھی تھے جو مسلمانوں کو جلتی آگ پر لٹا کر ان کے سینوں پر آتشیں مہریں لگایا کرتے تھے۔ دنیا نے دیکھا کہ پیغمبر رحمت، محسنِ انسانیت نے ان دشمنوں کے ساتھ عین اس وقت جب وہ مفتوح تھے، غلام تھے، زیردست تھے، ان میں مقابلے کی تاب نہ تھی، بے بس اور بے کس تھے. اس وقت محسنِ انسانیتﷺ کی سیرت طیبہ میں عفو و درگزر اور رواداری کا وہ شاندار نمونہ نظر آتا ہے، جو دیگر فاتحین میں، فاتح مکہ کو ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔“

آپ ﷺ نے اس موقع پر تمام امیدوں اور تصورات کے بر عکس اعلان فرمایا :
الیوم یوم الرحمہ…….
آج عفو و درگزر اور رحم و کرم کا دن ہے، آج عام معافی کا دن ہے۔ فتح مکہ پر مکہ شہر میں رحمت دوعالم کے داخلے کی ابن اسحاق نے ان الفاظ میں روایت بیان کی ہے:

” جب رسول اللہ ﷺ وادی ذی طوی پہنچے اور آپ صلعم نے دیکھ لیا کہ اللہ نے آپ کو فتح سے سرفراز کیا ہے، تو آپ نے ازراہ تواضع اپنا سر اونٹنی پر جھکا لیا، اس حد تک کہ ذرا سا جھکتے تو ٹھوڑی مبارک کجاوہ کی لکڑی سے لگ جاتی۔“

اس فتح مبین کے وقت بارگاہِ الٰہی میں عاجزی و انکساری کے آثار چہرہ انور پر نمایاں تھے۔ حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ جب آپ ﷺ مکے میں فاتحانہ داخل ہوئے تو تمام لوگ آپ کو دیکھ رہے تھے، لیکن آپ تواضع کی وجہ سے سر جھکائے ہوئے تھے۔ اس موقع پر عام معافی کے اعلان کے ساتھ ساتھ امن کے قیام اور استحکام کیلئے آپ نے یہ احکامات بھی جاری کیے کہ

1: جو کوئی ہتھیار پھینک دے، اسے قتل نہ کیا جائے۔
2: جو کوئی خانہ کعبہ میں پناہ لے، اسے کچھ نہ کہا جائے۔
3: جو کوئی گھر کا دروازہ بند کر کے بیٹھ رہے، اسے قتل نہ کیا جائے۔

4: جو کوئی ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے، اسے امان ہے۔
5: جو کوئی حکیم بن حزام کے گھر جا رہے، اسے بھی کچھ نہ کہا جائے۔
6: بھاگ جانے والے کا تعاقب نہ کیا جائے۔

ہندو سیرت نگار سوامی لکشمن پرشاد سیرت طیبہ پر اپنی کتاب ” عرب کا چاند“ میں لکھتا ہے کہ
” آپ کے اس عدیم المثال حکم سے جو آپ نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے لشکر کو دیا ، ایسی محبت اور ہمدردی ظاہر ہوتی ہے کہ اس کے تصور سے آج بھی انسان کے اخلاقی احساس میں ایک عجیب رفعت و وسعت پیدا ہوتی معلوم پڑتی ہے۔ جذبات صلح و آشتی کا ایسا نمونہ تاریخ کے صفحات پیش کرنے سے قاصر ہیں ۔“

معروف عرب مصنف شوقی خلیل لکھتے ہیں :
” عفو و درگزر، جود و کرم کا جو مظاہرہ سرورِ دوعالم ﷺ نے فرمایا، انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، اس کی بلندی، اس کی پاکیزگی اور عظمت عدیم المثال ہے۔ کسی بادشاہ کسی سیاسی رہنما، کسی فوجی جرنیل نے اس قسم کے اخلاق کریمانہ کا کبھی مظاہرہ نہیں کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ کے بھیجے ہوئے نبی ﷺ کے سوا کسی کے بس کا روگ نہیں کہ ان حالات میں ایسی اعلیٰ ظرفی دکھا سکے۔

وہ نبی مرسل، جس کی رحمت، اللہ کی رحمت، جس کی حکمت، اللہ کی حکمت اور جس کا عفو و درگزر، اللہ رب العزت کی شان عفو و درگزر کا آئینہ دار ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے رحمت و حکمت سے لبریز جن کلمات سے اپنے دشمنوں کو عفو و درگزر کا مژدہ سنایا، یہ مژدہ جاں فزا سن کر ان پر شادی مرگ کی کیفیت طاری ہو گئی۔ وہ اس شان رحمة للعالمین کو دیکھ کر جوق در جوق آگے بڑھ کر حضور اکرم ﷺ کے دست مبارک پر اسلام کی بیعت کرنے لگے۔“

حقیقت یہی ہے کہ فتح مکہ آپ ﷺ کی سیرت طیبہ میں ایک منفرد اور ایسا تاریخ ساز واقعہ ہے، جس کی نظیر نہیں ملتی۔ سکھ سیرت نگار جی، دارا سنگھ اپنی کتاب ” رسول عربی ﷺ “ میں فتح مکہ کے موقع پر رحمت للعالمین کے رحم و کرم اور رواداری کے حوالے سے لکھتا ہے :

” سبحان اللہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے قتل کا قصد کرنے والوں، اپنی نور چشم کے قاتلوں، اپنے چچا کا کلیجہ چبانے والوں سب کو معافی دے دی اور قطعی معافی، قتلِ عام دنیا کی تاریخ میں اکثر سنتے تھے، مگر قاتلوں کی معافی نہ سنی تھی۔“

معروف یورپی دانشور لین پول فتح مکہ کو تاریخ عالم کا بے مثال واقعہ قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے :
” حقائق تلخ ہوتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ محمد ﷺ نے جس دن اپنے دشمنوں پر فتح پائی اور جو ان کی عظیم ترین فتح تھی، وہی دن دراصل محمد ﷺ کی ذات اور انسانیت کی عظیم ترین فتح کا دن تھا۔ آپ صلعم نے مکے کے لوگوں کو عام معافی دے دی۔

یہ وہی لوگ تھے جن کے ناقابل بیان مظالم اور اذیتوں کا آپ مسلسل نشانہ بن رہے تھے۔ انسانی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی، جس طرح محمد ﷺ فاتح کی حیثیت سے مکے میں داخل ہوئے، دنیا کا کوئی فاتح اس کی مثال پیش نہیں کر سکا۔“

اس عام معافی میں دنیا کے ہر فاتح کے لیے رشد و ہدایت کا وہ دل کش درس پنہاں ہے، جس سے ہر رحم دل مستفید ہو سکتا ہے۔ پوری توجہ سے اس فاتح کا طرزِ عمل پڑھیے اور قلوب و اذہان کے فاتح اعظمﷺ پر صلوٰة و سلام کے مہکتے پھول نچھاور کرتے جائیے۔ اس واقعہ سے آپ کو دین اسلام کی عظمت، اس کی عالمگیر تعلیمات اور اس دین کے لانے والے نبی معظمﷺ کی شان رحمت کا اعتراف کیے بغیر چارہ نہ رہے گا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں