چودھری محمد علی ، سید ابوالاعلیٰ مودودی ، مصطفیٰ صادق

جناب مصطفیٰ صادق کی عظیم کہانی ، خود ان کی زبانی (6)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

پاکستان کے سابق وفاقی وزیراطلاعات و نشریات ، جماعت اسلامی کے سابق رہنما اور روزنامہ ’ وفاق ‘ کے بانی کی آپ بیتی

جماعت اسلامی کی تاریخ میں ماچھی گوٹھ کا واقعہ جس غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے اسے زیادہ تفصیل کے ساتھ زیر بحث لانے کی ضرورت ہے لیکن میں اسے سردست ضروری اور مستند معلومات حاصل ہونے تک ”تشنہ“ ہی چھوڑ رہا ہوں۔ تاہم آئندہ کسی صحبت میں اس موضوع پر ہر ممکن حد تک ضروری معلومات فراہم کرنے کی کوشش کی جائیں گی۔

اسی طرح اینٹی قادیانی تحریک کے بارے میں بھی میں اپنی یادداشتوں کو بڑی حد تک ادھورا سمجھ رہا ہوں۔ اس لئے کہ اینٹی قادیانی تحریک کی تحقیقات کے سلسلے میں متعلقہ عدالت نے جو فیصلہ دیا تھا اس وقت مجھے وہ بھی دستیاب نہیں ہوسکا۔ اور اس فیصلے پر بعض اہم شخصیات کی آراء بھی اس زمانے میں شائع ہوئی تھیں۔ ان آراء اور تبصروں کی بھی اپنی جگہ خاص اہمیت ہے۔ اس کے علاوہ وہ فوجی عدالت جس نے مولانا مودودی کو سزائے موت کا حکم سنایا تھا اس میں مولانا مودودی کا بیان بھی بے حد اہمیت کا حامل ہے۔

س : صحافت کے میدان میں آپ کی آمد کب کیوں اور کیسے ہوئی؟

ج : میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ میں 1950ء کے آخر میں جماعت اسلامی میں شامل ہوتے ہی مولانا مودودی کی آشیرباد کے سا تھ جماعت اسلامی لاہور کا نائب قیم مقرر ہوگیا تھا۔ بعد میں قیم کے منصب پر فائز ہوگیا۔ اور میری حدود کار لاہور کے ساتھ ساتھ منٹگمری (ساہیوال)اور شیخوپورہ کے اضلاع تک وسیع ہوگئیں۔ اس عرصے میں شاید ہی کوئی اہم علاقہ یا بستی ہوگی جہاں میں نے عام لوگوں سے رابطہ نہ کیا ہو۔ ان سرگرمیوں سے میں ذہنی طورپرمطمئن تو ضرور تھا لیکن جسمانی طورپر تھک بھی گیا تھا اور بعض دوستوں کے مشورے کے بعد میں اس منصب سے سبکدوش ہوناچاہتا تھا۔

برادرم ارشاد احمد حقانی میرے حلقہ احباب میں نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔ انہوں نے (55-54) میں جماعت اسلامی کے سرکاری ترجمان روزنامہ ”تسنیم“ میں شامل ہونے کی ترغیب کچھ ایسے انداز میں دی کہ میں نے ادارہ ”تسنیم“ میں شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ اور جلد ہی ”تسنیم“ کے کم و بیش تمام شعبوں بالخصوص نیوز، رپورٹنگ کے شعبے میں سرگرم عمل ہوگیا۔

حقانی صاحب کہا کرتے تھے کہ رپورٹنگ کے میدان میں نظریاتی اور ماہر اخبار نویس بعض اہم اور تاریخی کارنامے بھی سرانجام دے سکتا ہے۔ مجھے اپنی مہارت پرتو کوئی ناز نہیں تھا لیکن مقصد یت میری ہر سرگرمی میں شامل حال رہی۔ چنانچہ رپورٹنگ کے دوران میں واقعات تو متعدد پیش آئے لیکن یہاں ایک اہم واقعہ کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

1956ء کا آئین دستور ساز اسمبلی میں زیر ترتیب تھا۔ انہی دنوں اس وقت کے وزیراعظم چودھری محمد علی لاہور تشریف لائے۔ ایئرپورٹ پر جن اخبار نویسوں نے ان سے گفتگو کی ان میں راقم الحروف کے علاوہ پاکستان ٹائمز کے سید افتخار،نوائے وقت کے مسٹر زاہد چودھری اور بعض دوسرے سینئر رپورٹر شامل تھے۔

چودھری صاحب نے حسب عادت انتہائی دھیمی آواز میں اپنی گفتگو کاآغاز ان الفاظ میں کیا کہ ہم چونکہ اس وقت انتہائی نازک مسائل سے دوچار ہیں اس لئے میرا مشورہ یہ ہے کہ مجھ سے کوئی سوال نہ کیا جائے ۔ میں خود ہی جو معلومات دوں گا۔ ان پر آپ لوگ قناعت کرلیں ۔ چنانچہ جونہی آئین سازی کے بارے میں چودھری صاحب کی زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ آئین کی تمام دفعات اتفاق رائے سے منظور کی جارہی ہیں۔ میں نے ان کی بات کاٹتے ہوئے یا کاٹے بغیر صرف یہ الفاظ کہے کہ ”اسلامی دفعات بھی“جواب صرف اشارے سے اثبات میں دیاگیا اور غالباً”Yes“کے الفاظ بھی کہے حالانکہ واقعہ یہ ہے،جس کا علم بعد میں ہوا کہ اس وقت تک بظاہر اسلامی دفعات منظور نہیں ہوئی تھیں۔

لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے اس دو حرفی سوال کے نتیجے میں اگلے دن” تسنیم “ اور ” نوائے وقت “ کے علاوہ بعض دوسرے اخبارات کی شہ سرخی یہ تھی ”اسلامی دفعات اتفاق رائے سے منظور کرلی گئیں“ان حالات میں یہ بہت بڑی خبر تھی۔اس لئے کہ مشرقی پاکستان کے بعض ارکان اسمبلی دفعات کی منظوری کے حق میں نہیں تھے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ خبر کے اس طرح نمایاں شائع ہونے کے بعد دستوریہ کے ارکان بڑی حد تک مجبور ہوگئے تھے کہ اسلامی دفعات کو منظور کریں اور عملاً ایسا ہی ہوا۔ چنانچہ 1956ء کا آئین جن اہم خصوصیات کا حامل تھا ان میں اسلامی دفعات سر فہرست تھا۔

س:صحافتی کیریئر کے تجربات، ادارے، افراد، رویئے؟

ج:جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ میرے صحافتی کیریئر کے تجربات کیا ہیں بالخصوص جن اداروں، افراد اور جن رویوں سے مجھے سابقہ پیش آیا ان کے بارے میں میری کیا رائے ہے۔ اس ضمن میں اتنا عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں سیاست کی طرح صحافت پر بھی دائیں اور بائیں بازو کی چھاپ لگی ہوئی تھی۔

میاں افتخارالدین نے جب پاکستان ٹائمز اور امروز جاری کئے اور بعد میں اس مکتبہ فکر میں ہفت روزہ”لیل ونہار“کا اضافہ ہوا۔ تو اس گروپ کے اخبارات اور رسائل کو بائیں بازو کے ترجمان تسلیم کیا جاتا تھا۔دائیں بازو کی نمائندگی خصوصیت کے ساتھ”نوائے وقت“ہی کا اعزاز تھا۔ دوسرے اخبارات جن میں خاص طورپر”احسان“”زمیندار“”جنگ“”انجام“ شامل تھے کسی مخصوص گروپ سے وابستہ تصور نہیں کئے جاتے تھے تاہم یہ بائیں بازو کی سیاست کی تائید نہیں کرتے تھے۔ زیادہ تر تو نظریاتی طورپر آزاد تھے یا سرکاری اداروں کی حمایت کرتے تھے۔

البتہ روزنامہ ”تسنیم“ کا معاملہ بالکل الگ تھا۔ بائیں بازو سے تو اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں تھا اور نہ ہی حکومتی حلقوں کی ترجمانی یا نمائندگی اس کے مزاج کا حصہ تھی۔ یہ صرف اسلامی اقدار کو نمایاں کرنے اور دینی افکار و خیالات کو رواج دینے۔ زیادہ تر جماعت اسلامی کے راہنماؤں کے بیانات اور جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیموں مثلاً اسلامی جمعیت طلبہ”پاکستان کسان بورڈ“ اور جماعت کی سرپرستی میں چلنے والی تنظیموں کی سرگرمیوں کی اشاعت کرتا تھا۔

یہاں ضمناً ایک واقعہ عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ دائیں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اخبارات کی انتظامیہ کا نقطہ نظر جو بھی ہو ان اداروں سے وابستہ کارکن صحافی ایک دوسرے سے حسن سلوک کی بہترین مثالیں پیش کرتے تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ مسٹر سہروردی کے اپنے کارکنوں کے ایک اجلاس سے خطاب کے دوران روزنامہ ”امروز“ کے عبداللہ ملک ( مرحوم ) پاکستان ٹائمز کے سید افتخار شاہ اور ” تسنیم “ کی طرف سے راقم الحروف موجود تھے ۔

سہروردی صاحب کے ایک ذمہ دار عہدیدار نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے خاصے تلخ لہجے میں کہا کہ ”آ پ کو کس نے بلایا؟“پیشتر اس کے کہ میں کوئی جواب دیتا جناب عبداللہ ملک اٹھ کھڑے ہوئے اور سخت برہمی کے عالم میں کہا کہ ”ہم سب جارہے ہیں“۔ مجھے یاد ہے کہ اس اجلاس میں ماسٹر تاج الدین انصاری اور شیخ حسام الدین مسٹر سہروردی کی عوامی لیگ میں شامل ہونے کا اعلان کرنے والے تھے۔ ان دونوں نے عبداللہ ملک کو راضی کرنے کی بہت کوشش کی لیکن انہوں نے سنی ان سنی کردی ۔ بالآخر مسٹر سہروردی کو مداخلت کرنا پڑی جس پر عبداللہ ملک اور مجھ سمیت دوسرے کارکن ساتھی دوبارہ اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ”تسنیم“ اور ”امروز“ نظریاتی اعتبار سے ایک دوسرے کے مخالف تھے۔

اسی طرح کا ایک واقعہ ان دنوں پیش آیا جب ڈاکٹر خان صاحب جو مغربی پاکستان کے وزیراعظم تھے اور مسٹر جمیل الزمان، ڈائریکٹر محکمہ تعلقات عامہ لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر اترے تو کم و بیش درجن بھر اخباری نمائندوں نے ان کے گرد گھیرا ڈال لیا۔ روزنامہ ”ڈان“ کے نمائندے مسٹر عبدالواحد نے زیر ترتیب مسودہ آئین کے بارے میں ان سے کہا کہ آ پ تو مخلوط انتخابات ہی کی حمایت کریں گے۔ اس پر ڈاکٹر خان صاحب برہم ہوگئے اور اس بات کا جواب دینے کی بجائے ان کی زبان سے سخت غصے کے عالم میں ”شٹ اپ“ کے الفاظ نکلے ہی تھے کہ تمام اخبار نویس احتجاجاً تتر بتر ہوگئے۔ جمیل الزمان ایک ایک اخبار نویس کے پیچھے پھر رہے تھے لیکن جب تک خود ڈاکٹرخاں صاحب نے اپنے الفاظ پر کھل کر اظہار معذرت نہیں کیا کوئی بھی اخبار نویس اس وقت ان کی بات سننے کو تیار نہیں ہوا۔

س:آپ کے خیال میں صحافت کا نظریہ کیا ہونا چاہئے؟Inform, Education, Guide, Enterainیا کچھ اور بھی۔

ج : آپ نے خود ہی اس کے جواب میں چار پانچ اہم مقاصد کاذکر کیا ہے مجھے ان مقاصد سے بڑی حد تک اتفاق ہے۔ یعنی معلومات فراہم کرنا، تعلیم و تربیت، راہنمائی اور ضیافت طبع کا سا مان فراہم کرنا، آ پ نے ” کچھ اور بھی “ کا ذکر کیا ہے ۔ میں عرض کردوں گا کہ زیادہ تر توجہ نظریاتی راہنمائی پر مرکوز رہنی چاہئے۔ خصوصیت کے ساتھ نظریاتی مقاصد کے نقطہ نظر سے برے بھلے میں امتیاز کرنے کی تعلیم و تلقین۔ اس لئے کہ اس امتیاز کے بغیر قومی ناؤ ساحل مراد تک پہنچنے کی بجائے موجوں ہی سے ٹکراتی رہتی ہے اور پے درپے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر اخلاقی اقدار نمایاں کرتے ہوئے قوم کی صحیح راہنمائی کی جاتی رہے تو ایسے بحرانوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں