مصطفیٰ صادق، بانی روزنامہ وفاق ، سابق پاکستانی وفاقی وزیراطلاعات و نشریات

جناب مصطفیٰ صادق کی عظیم کہانی ، خود ان کی زبانی (7)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

پاکستان کے سابق وفاقی وزیراطلاعات و نشریات ، جماعت اسلامی کے سابق رہنما اور روزنامہ ’ وفاق ‘ کے بانی کی آپ بیتی

جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں جماعت اسلامی جیسی ایک نظریاتی جماعت کے عہدیدار کی حیثیت سے کام کرتے کرتے اسی جماعت کے سرکاری آرگن روزنامہ ”تسنیم“کے ادارے میں شامل ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ میرا مقصد پہلے بھی اسلامی نظریہ کی ترویج واشاعت تھا۔ اس مقصد کے لئے میں بستی بستی اور قریہ قریہ گھومتا تھا۔گویا اس وقت جو کام جسمانی محنت و مشقت اور تقریروں کے ذریعے کرتا تھا ، وہی کام اب ” تسنیم“ میں آنے کے بعد تحریرکے ذریعے کرنا مقصود تھا۔

چنانچہ جب بوجوہ” تسنیم“ سے الگ ہونے کی نوبت آئی تو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی بنفس نفیس ” تسنیم“ کے دفتر میں تشریف لائے۔ انہوں نے ہمارے ساتھ چائے نوش فرمائی اور فرداً فرداً مستقبل کے بارے میں استفسار کیا۔ کم از کم مجھے اپنے الفاظ آج تک اچھی طرح یاد ہیں کہ جو مقصد لے کر ” تسنیم “ میں آیا تھا انشاءاللہ وہی مقصد زندگی بھر پیش نظر رہے گا۔ چنانچہ وقتی طورپر مجھے فیصل آباد منتقل ہونا پڑا جہاں مولانا عبدالرحیم اشرف کے زیر ادارت شائع ہونے والے ” المنبر“ میں ان کی معاونت کی۔

انہی دنوں میرے ایک پرانے دوست زکریا ساجد نے اس دور کے روزنامہ ” آفاق “ کے لائل پور ایڈیشن میں بطور سینئر سب ایڈیٹر تعینات کرا دیا۔ روزنامہ ” آفاق“ کے لائل پور ایڈیشن کے انچارج جناب مقبول احمد تھے جو اپنے دور کی صحافتی برادری میں انتہائی نمایاں اور امتیازی مقام رکھتے تھے۔

مقبول صاحب کم و بیش 35سال تک افغانستان میں صحافت کا تجربہ کرچکے تھے۔پاکستان میں انہوں نے سب سے پہلے ” نوائے وقت“ میں شمولیت اختیار کی اور ایک مرحلے پر ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف کے طور پر جناب حمید نظامی مرحوم نے انہیں اپنا قلم عنایت فرمایا۔ جناب مقبول صاحب یہ قلم بڑے فخرسے اپنے دوستوں کو دکھایا کرتے تھے۔ گردش حالات کی وجہ سے انہیں ” نوائے وقت “ سے روزنامہ ” آفاق “ لائل پور میں منتقل ہونا پڑا۔ میں نے جتنی دیر ان کے ساتھ کام کیا شاید ہی کبھی کوئی خبر لکھنے یا کسی خبر کا ترجمہ کرنے کی ضرورت پیش آئی ہو۔

اس وقت ”آفاق“ کوہ نور ملز کے مالکان سہگل برادرز کی ملکیت میں شائع ہوتا تھا۔ ایک دن اچانک میاں یوسف سہگل کے ٹیلی فون پر ناراض ہو کر جناب مقبول صاحب نے استعفیٰ دے دیا۔ جونہی اس کی اطلاع لاہور میں اخبار کے مینجنگ ڈائریکٹر میر نوراحمد کو ملی، انہوں نے مجھے مقبول صاحب کی جگہ کام کرنے کا پیغام دیا۔

مقبول صاحب کے استعفیٰ کا پس منظر یہ تھا کہ ”آفاق“ کی دیرینہ پالیسی کے مطابق کرنل عابد حسین کے خلاف خبر شائع ہوگئی۔ خبر کی اشاعت سے چند گھنٹے پہلے کرنل عابد حسین اور سہگل خاندان کے درمیان مصالحت ہوچکی تھی جس کا مقبول صاحب کو کوئی علم نہیں تھا۔ اس لحاظ سے میاں یوسف سہگل کی یہ شکایت یکسر بے معنی تھی کہ اخبار مالکان کی یعنی سہگل خاندان کی پالیسی کے خلاف خبر کیوںشائع کی گئی؟ بہرحال مقبول صاحب کے استعفے پر”آفاق“ لائل پور کے تمام کارکنوں نے میری راہنمائی میں مقبول صاحب کو استعفیٰ واپس کرنے کی ہر ممکن حد تک کوشش کی جو یکسر ناکام ہوئی اور مقبول صاحب اپنارخت سفر باندھ کر لاہور آگئے۔

میں ”آفاق“ لائل پور کے ہیڈ کاتب محمد علی کے ہمراہ لاہور میں مقبول صاحب کے گھر آکر بھی انہیں آمادہ کرنے کی کوشش کرتا رہا لیکن وہ اپنی ضد پر قائم رہے۔ انہوں نے جائز طورپر اس مسئلے کو اپنی اناکا مسئلہ بنالیا کہ سہگل خاندان میرے علم کے بغیر کرنل عابد حسین سے مصالحت کے بعد اپنی پالیسی تبدیل کرلیتا ہے۔ میں بلاوجہ سزا کا مستحق کیوں سمجھا جاﺅں؟ اس صورتحال میں میرے لئے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا کہ بادل نخواستہ” آفاق “ میں اپنی ذمہ داری ادا کرتا رہوں۔

کچھ ہی عرصے کے بعد برادرم جمیل اطہر بھی ” آفاق “ لائل پور میں بطور سب ایڈیٹر شامل ہوگئے۔اس وقت میرے دوست ساتھیوں میں جناب منصور حیدر اور جناب اشرف صاحب کے علاوہ سٹاف رپورٹر مسر افتخار بھی شامل تھے۔یہ تینوں حضرات یکے بعید دیگر اپنے خالق حقیقی سے جاملے ہیں۔ کچھ ہی عرصے بعد مینجنگ ڈائریکٹر میر نوراحمد نے مظفر احسانی نام کے اس اخبار نویس کو ”آفاق“ لائل پور کا انچارج بنا کر بھیج دیاجس نے کسی زمانے میں” نوائے وقت“ کا ڈیکلریشن اپنے نام کروالیا تھا۔

اس کی نامزدگی کے ساتھ ہی میں نے ایک تین سطری خط میر صاحب کو لکھ بھیجا جو ایک طرح سے ”آفاق“کی ملازمت سے علیحدگی کے فیصلے پر مبنی تھا۔ میں نے یہ فیصلہ اپنے ساتھیوں بالخصوص جمیل اطہر سے مشورہ کے بعد کیا تھا۔ میرے خط کا جواب آنے میں ایک دن کی تاخیر ہوگئی تو میں نے ٹیلی فون پر میر صاحب سے اپنے استعفیٰ کی منظوری پر اصرار کیا۔ میر صاحب خوش اخلاق ہونے کے باوجود افسرانہ مزاج کے حامل تھے انہوں نے فون پر میرے استعفیٰ کو”Yes “ کردیا۔ اس وقت تک ”آفاق“ کا آفس17 ۔جناح کالونی میں واقع تھا اور ہماری رہائش 19 ۔ جناح میں تھی۔ ہم نے 19۔ جناح کالونی سے 25 دسمبر 1959ءکو روزنامہ ”وفاق“ کی اشاعت کاآغاز کردیا۔ہمارے محترم دوست جناب خلیق قریشی مدیر اعلیٰ روزنامہ”عوام “ فیصل آباد نے ہماری درخواست پر ”وفاق“ کی اشاعت کے حوالے سے جو نظم لکھی اس کا ایک شعرتھا:

سرحد” آفاق “ سے آگے ہے مومن کا مقام
بلکہ اٹھتا ہے یہیں سے اولین گام”وفاق“

باتوں سے بات نکل آتی ہے” نوائے وقت “ کے ایک انتہائی ممتاز کارکن اور معروف سٹاف رپورٹر جناب عرفان چغتائی کی سفارش پر جناب حمید نظامی نے مجھے ایک مختصر سا خط لکھا جس میں کہاگیا تھا کہ ” نوائے وقت “ لاہور میں آج کل ایک آسامی خالی ہے۔ میری اطلاع کے مطابق آپ آج کل فارغ ہیں۔ مناسب سمجھیں تو ”نوائے وقت“ لاہور سے منسلک ہو جائیں۔ یہ خط میرے لئے بہت بڑے اعزاز کی حیثیت رکھتا تھا میں صرف نظامی صاحب کا شکریہ ادا کرنے کے لئے ان کی خدمت میںحاضر ہوا اور انہیں بتایا کہ ہم اپنا اخبار نکالنے کا پروگرام بنا رہے ہیں ۔ نظامی صاحب نے صرف اتنا کہا” آج کل؟ “ میں سمجھ تو گیا کہ نظامی صاحب ہماری تجویز کے حق میں نہیں ہیں لیکن ہم نے ان کی اس رائے کو ضروری اہمیت نہ دی۔

آراءتو ہمیں اور بھی موصوف ہوئیں۔ حق میں بھی اور خلاف بھی لیکن ایک دلچسپ رائے” ناقابل فراموش“ کے مصنف سردار دیوان سنگھ مفتون کی تھی۔ انہیں ہم نے خط لکھا تھا کہ ہمارے پاس اخلاص کی دولت کے سوا عام وسائل تو میسر نہیں ہیں اس کے باوجود ہم اخبار نکالنے کا ارادہ کرچکے ہیں۔ ا س سلسلے میں آپ اپنے مشورے سے نوازیں۔ انتہائی مختصر الفاظ میں ان کا ایک سطری جواب یہ تھا:

” میری رائے یہ ہے کہ اخبار جاری نہ کیجئے۔“ ان دنوں سردار صاحب اپنے اخبار”سیاست“ کی اشاعت بند کرچکے تھے۔تاہم ایسی آراءہمیں تو کچھ زیادہ وزنی محسوس نہیں ہورہی تھی ۔ چنانچہ ہمیں اخبار نکالنا تھا سو اخبار نکالا۔ وقتی طورپر ہفت روزے کی شکل میں۔ اس کے بعد روزنامہ ۔ جب تک ہفت روزہ تھا جناب پروفیسر مرزا محمد منور اور ان کے انتہائی اہم دوست قلمی تعاون کیا کرتے تھے جن میں بطور خاص محترم جناب حفیظ جالندھری ہماری سرپرستی فرماتے تھے۔

روزنامہ بننے کے ساتھ ہی ہم لائل پور سے سرگودھا منتقل ہوگئے۔ اس کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لاہور، راولپنڈی، اور رحیم یار خاں سے بھی اخبار کی اشاعت کااہتمام کیا جانے لگا۔اس وقت پہلا شمارہ سامنے نہیں ہے تاہم اتنا یاد ہے کہ پہلے اداریے کا عنوان تھا: ”جزنغمہ محبت سازم نواندرد۔“

ایک مرحلے پر مشرق کے بانی جناب عنایت اللہ اوران کے رفیق خاص ابوصاحل اصلاحی نے ”وفاق“ میں ہمیں شامل رکھتے ہوئے اس کی ذمہ داریوں میں شریک ہونے کی پیشکش کی۔ میری تجویز یہ تھی کہ آپ ” وفاق“ سنبھالیں اور ہمیں اس میں شامل نہ رکھیں لیکن وہ اس پر راضی نہ ہوئے اورانہوں نے ” مشرق “ کے نام سے اپنا اخبار جاری کرلیا۔

چلتے چلتے اتنا عرض کئے دیتا ہوں کہ ایک موقع پر سعودی عرب میں مقیم ایک دوست نے دو کروڑ روپے کی پیشکش کی اور اپنے طورپر جدید ترین پریس درآمد کر کے ”وفاق“ میں اشتراک عمل کا منصوبہ پیش کیا۔ ایک اور مرحلے پر لاہور میں مقیم انتہائی اہم اور مخلص احباب نے بھی ایسی ہی پیشکش کی جسے پایہ تکمیل تک پہنچانا مختلف وجوہ کی بناپر ممکن نہ ہوسکا۔ ان ہر دو منصوبوں میں ایک اہم رکاوٹ میرا یہ ذہنی اشکال یا دوسرے لفظوں میں میرا یہ موقف تھا کہ میں اخبارات کی ترقی پسندی کی اس دوڑ میں شریک نہیں ہوسکوں گا۔

س:آپ صحافت میں کیا نظریہ، ارادہ لے کر آئے تھے۔ آپ کے رول ماڈل کون تھے اور آپ کس حد تک اپنے نظریئے کا اطلاق کرسکے؟

ج:اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ میں اتفاق سے صحافت میں آگیا تھا ۔شاید صحافت کی خواہش یہ تھی کہ میں بھی صحافی بنوں بقول غالب

مانبودیم بدیں مرتبہ راضی غالب
شعر خود خواہش آں کرد کر گردد فن ما

باقی رہا رول ماڈ ل کا معاملہ تو اس وقت کے سرگرم صحافیوں میں سرفہرست ملک نصراللہ خاں عزیز ،مولانا نعیم صدیقی او رمولانا ماہرالقادری تھے اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی جنہیں عام طورپر لوگ صحافی تصور نہیں کرتے حالانکہ وہ اپنا پیشہ صحافت ہی قرار دیتے رہے ہیں۔ اسی طرح میں مولانا ظفر علی خاں سے بھی متاثر رہا ہوں جو کہ بیک وقت سیاستدان بھی تھے اور صحافی بھی۔ مولانا ابوالکلام کے اخبارات کا مطالعہ کا موقع بہت دیر بعد جا کر ملا۔یقیناً وہ بھی انتہائی اعلیٰ درجے کے صحافی تھے ۔

کسی ایک شخص کو رول ماڈل قرار دینا بہت مشکل ہے تاہم اخباری صنعت میں حمید نظامی کو بھی ایک نمایاں مقام حاصل تھا اورآغا شورش کاشمیری کو بھی جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ میں کس حد تک اپنے نظریے کا اطلاق کرسکا۔ سچی بات یہ ہے کہ میں بصد مشکل اپنے ادارے کی حد تک ہی اپنے نظریئے کا اطلاق کرسکا۔ اس سے زیادہ کی مجھے توفیق نہیں ملی۔ اس لئے میں کہا کرتا ہوں کہ
میں اپنے اخبار کو” بڑا “ اخبار تو نہیں بنا سکا لیکن اسے ” برُا “اخبار بھی نہیں بننے دیا۔
( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں