کیا عمران خان واقعی ہٹلر کو آئیڈیل مانتے ہیں؟ اصل بات سامنے آگئی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ابومحمد مصعب……….
عمران خان خود یا ان کو چلانے والے دماغ، ضرور کسی نہ کسی لیول پر ہٹلر کو اپنا آئیڈیل بنائے ہوئے ہیں۔ ان کے گمان میں شاید یہ بات رچ بس گئی ہے کہ ہٹلر کا طرز حکمرانی درست تھا، بس اس نے جو چند غلطیاں کی تھیں، ان سے بچنا چاہیے۔ اسی لیے پچھلے دنوں انہوں نے ہٹلر کی مثال بھی تھی۔

ہٹلر کے طرز حکمرانی میں اگر ’میکاولی‘ کے مشوروں کو بھی شامل کر لیا جائے تو پھر حکمرانی کا لطف دو آشتہ ہو جاتا ہے۔ اور موجودہ حکمرانوں کا انداز یہی لگ رہا ہے کہ انہوں نے ہٹلر اور میکاولی کا ’بلینڈ‘ بنا لیا ہے اور مزے سے پی رہے ہیں۔ لہٰذا اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ یہ کہ ’جھوٹ بولے جاؤ اور حکومت کیے جاؤ‘ روپے کی قدر، آئی ایم کی شرائط کو مان کر کم کی گئی، لیکن مانا نہیں جا رہا، آسیہ بی بی کو یورپی یونین کی تڑی پر چھوڑا گیا، لیکن مانا نہیں جا رہا۔ وہی کہ، مسلسل اپنی قوم سے حقائق چھپا کر رکھو اور حکومت کیے جاؤ۔

بے نظیر بھٹو مرحومہ نے، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، ایک بار کہا تھا کہ وہ گاہے بہ گاہے میکاولی کی کتاب دی پرنس کا مطالعہ کرتی ہیں۔ اگر وہ نہ بھی کہتیں تو یہ کوئی راز نہیں کہ دنیا کے تقریباََ تمام ہی حکمرانوں کے نصاب میں ’دی پرنس‘ شامل ہے اور وہ اس پر عمل پیرا بھی نظر آتے ہیں۔

یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ ہٹلر ایک نہایت اونچے قد والا، طاقتور حکمران تھا جس نے انگریز کو تگنی کا ناچ نچا رکھا تھا اور اس نے اگر چند غلطیاں نہ کی ہوتیں تو انگریز اس کے سامنے بے بس ہو چکا تھا۔ اگر آپ ہٹلر کی شکست کی وجوہات تلاش کریں گے تو آپ کو بہت سی وجوہات ملیں گی، کچھ اہم، کچھ غیر اہم لیکن میری نظر میں ہٹلر کی شکست کی سب بڑی وجہ ’اداروں کی تباہی‘ تھی۔ ہٹلر، جنگ کے اگلے محاذوں پر لڑنے والے اپنے جرنیلوں تک کے مشوروں کو نہیں مانتا تھا اور ہر معاملہ میں اپنی چلاتا تھا۔ یہاں تک کہ عین دورانِ جنگ، اس نے جنگی کمان بھی اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔ ملک کے دیگر اداروں کا بھی یہی حال تھا۔ ہر چیز ہٹلر کی مٹھی میں تھی اور شاید، جرمنی کے کسی درخت کا پتہ بھی اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہلتا تھا۔

برطانیہ اور امریکہ کو ہٹلر پر جو ایج حاصل تھا، وہ بس ایک ہی تھا وہ یہ کہ ان کے ادارے مضبوط تھے جو اپنی اپنی جگہ کام کر رہے تھے، بس یہی وجہ تھی کہ وہ ہٹلر کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے۔

پاکستان کو اگر آگے بڑھنا ہے تو بس ایک کام کرنا ہوگا۔ وہ یہی ہے کہ اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا۔ شخصی اندازِ حکمرانی کے بجائے ٹیم ورک کو آگے بڑھانا ہوگا۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے کہ وزیراعظم بغیر کسی ہوم ورک کے محض بڑے بڑے اعلانات کرتا رہے۔ ایک صبح اٹھے تو بولے میں پچاس لاکھ گھر بناؤں گا، دوسری صبح اٹھے تو پہلے والا وعدہ بھول جائے اور ایک نیا وعدہ انڈوں اور ککڑیوں کا کر ڈالے۔ ملکوں کی معاشی پالیسز اس طرح نہیں بنتیں۔ اس میں تھوک میں پکوڑے تلنے میں کوئی فرق نہیں۔

پارلیمانی طرز حکمرانی میں، اداروں کو مضبوط بنانے کا ایک نہایت مؤثر ذریعہ بلدیاتی نظام ہوتا ہے، جس کو ہمارے یہاں اہمیت نہیں دی جا رہی۔ حکومت کو چاہیے کہ جتنی جلد ہو سکے، بلدیاتی انتخابات کروا کر، اقتدار نچلی سطح تک منتقل کرے۔ اور اس کی مدت چار کے بجائے تین سال رکھے۔ اس سے نہ صرف ترقی کی رفتار بڑھے گی بلکہ عوام کو احساس ہوگا کہ وہ بھی اقتدار میں برابر کے شریک ہیں، کوئی شک نہیں کہ بلدیاتی نظام سے ہی لیڈر ابھر کر قومی سطح پر آئیں گے۔ ترکی کے اردگان اس کی ایک مثال ہیں۔

فی الوقت تو یہی ہو رہا ہے، کہ ہمارے حکمران پیراشوٹ کے ذریعے ہمارے سروں پر اتارے جارے ہیں۔ ہمیں پیراشوٹرز نہیں گراس روٹرز چاہئیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں