فلسطین کی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو کی جانب سے غزہ میں ’مکمل فتح‘ کے دعوے کو ’بے بنیاد فریب‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل زمینی طور پر ناکامی کی دلدل میں پھنس چکا ہے اور اس جنگ کو طول دینا اسرائیلی ریاست کے لیے ’’تزویراتی تباہی‘‘ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
یہ بیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری جنگ بندی مذاکرات کے دوران سامنے آیا، جس میں فریقین ایک ممکنہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر بات چیت کر رہے ہیں۔
بیان میں حماس کا کہنا تھا:
’ نیتن یاہو مذاکرات کے ہر دور کو سبوتاژ کرنے میں مہارت رکھتے ہیں، اور وہ کسی معاہدے تک پہنچنا ہی نہیں چاہتے۔ ‘
تنظیم کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیرِاعظم سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے جنگ کو طول دے رہے ہیں، اور اس میں نہ صرف قیدیوں اور فوجیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں بلکہ خود اسرائیلی ریاست کی سلامتی بھی داؤ پر لگی ہے۔
حماس نے کہا کہ اس کے ’مزاحمتی عسکریت پسند‘ روزانہ ایسے حربے استعمال کر رہے ہیں جو اسرائیلی فوج کے لیے غیر متوقع ثابت ہو رہے ہیں:
’ہماری مزاحمتی افواج ایک ایسی جنگِ فرسائش لڑ رہی ہیں جو دشمن کو ہر روز نئی حکمت عملی سے حیران کر رہی ہے۔ اسرائیل کی فضائی برتری اور ہتھیاروں کی طاقت کے باوجود، ہم ان کی منصوبہ بندی کو الجھا رہے ہیں اور انہیں فیصلہ کن کنٹرول سے محروم کر رہے ہیں۔‘
تنظیم کے مطابق جوں جوں جنگ چل رہی ہے، اسرائیلی افواج مزید کمزور ہو رہی ہیں:
’جنگ جتنی طویل ہو رہی ہے، قابض فوج اتنی ہی غزہ کی ریت میں دھنستی جا رہی ہے اور ہماری ’معیاری‘ ضربوں کا سامنا کرکے مزید کمزور ہوتی جا رہی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
حماس کے حملوں نے اسرائیلی معیشت کو مفلوج کردیا، یومیہ کروڑوں ڈالر کا نقصان
غزہ پر کنٹرول، کیا اسرائیل ہمیشہ کے لیے جال میں پھنسنے جا رہا ہے؟ اسرائیلی اخبار کا تجزیہ
اسرائیل پہلی بار جنگ ہار گیا، ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری جنگ بندی مذاکرات کے دوران فلسطینی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کی جانب سے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے بیانیے پر شدید تنقید سامنے آئی ہے۔ حماس نے اپنے بیان میں نیتن یاہو کی ’مکمل فتح‘ کی اصطلاح کو’بے بنیاد فریب‘ اور ’زمینی و سیاسی شکست پر پردہ ڈالنے کی کوشش‘ قرار دیا ہے۔
حماس کی جانب سے یہ بیان نہ صرف موجودہ مذاکرات کی سمت و نتائج پر سوالات اٹھاتا ہے بلکہ غزہ میں جنگ کے جاری رہنے کی حکمت عملی کو بھی ایک خطرناک تزویراتی جال قرار دیتا ہے جو بظاہر دونوں فریقوں کو نقصان پہنچا رہا ہے، لیکن سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور داخلی دباؤ کے تحت مسلسل جاری ہے۔
حماس کے نیتن یاہو پر الزامات
حماس نے الزام عائد کیا کہ نیتن یاہو ہر مذاکراتی دور کو ’جان بوجھ کر‘ ناکام بناتے ہیں اور وہ کسی معاہدے پر پہنچنے کے خواہاں ہی نہیں۔
میدانی صورتِ حال کا دعویٰ
حماس کے مطابق ان کی افواج ’جنگِ فرسائش‘ کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر ’زبردست ضربیں‘ لگا کر اسرائیلی فوج کو ششدر کر رہی ہیں۔ واضح رہے کہ ‘جنگِ فرسائش’ (War of Attrition) ایک ایسی عسکری حکمت عملی ہوتی ہے جس میں فریقِ مخالف کو براہِ راست شکست دینے کے بجائے اسے تدریجی نقصانات، تھکن، وسائل کی کمی، اور نفسیاتی دباؤ کے ذریعے کمزور کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ جنگ جاری رکھنے کے قابل نہ رہے یا خود مذاکرات پر مجبور ہو جائے۔
یہ جنگ جلدی ختم نہیں ہوتی؛ مہینوں یا سالوں تک جاری رہ سکتی ہے۔
اس میں فریقِ مخالف کو اس انداز میں نشانہ بنایا جاتا ہے کہ اس کی سپلائی لائن، فوجی ساز و سامان، اور افرادی قوت رفتہ رفتہ ختم ہو جائے۔
دشمن کی فوج اور عوام دونوں میں مایوسی، تھکن، اور جنگ سے بیزاری پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
جنگِ فرسائش کی حکمت عملی کیوں اپنائی جاتی ہے؟
جب ایک فریق عسکری لحاظ سے نسبتاً کمزور ہو۔
جب براہِ راست فتح مشکل یا ناممکن ہو۔
جب دشمن کو فوری شکست دینا ممکن نہ ہو، لیکن طویل جنگ اس کے لیے سیاسی یا سماجی لحاظ سے نقصان دہ ہو۔
ویت نام میں ویت کانگ نے امریکی فوجی قوت کے خلاف روایتی جنگ کے بجائے گوریلا حملوں اور وقت کے ساتھ امریکی عوام میں بیزاری پیدا کر کے انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا تھا۔
حماس کی حکمت عملی کیوں "جنگِ فرسائش” کہلاتی ہے؟
غزہ میں حماس، اسرائیلی فوج کی فضائی برتری اور ٹیکنالوجی کے باوجود
محدود وسائل سے طویل مزاحمت کر رہی ہے۔
آئے دن نئے حربے اپناتی ہے (مثلاً سرنگیں، کمین گاہیں، دستی راکٹ)۔
اسرائیلی فوج کو مستقل خطرے میں رکھتی ہے۔
اسرائیلی عوام، یرغمالیوں کے خاندانوں، اور عالمی رائے عامہ پر نفسیاتی دباؤ ڈال رہی ہے۔
یہ تمام عوامل ’جنگِ فرسائش‘ کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔
سیاسی و عسکری تنقید:
حماس نے نیتن یاہو کو ’مجرم‘ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ وہ ایک ایسی جنگ میں اپنی فوج کو جھونک رہے ہیں جو نہ صرف لاحاصل ہے بلکہ خود اسرائیلی ریاست کے لیے ’تزویراتی تباہی‘ کا خطرہ بن چکی ہے۔
اسرائیل کی ’مکمل فتح‘ – نعرہ یا حقیقت؟
اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے مسلسل کہا جا رہا ہے کہ وہ ’مکمل فتح‘ تک جنگ جاری رکھیں گے، لیکن میدان جنگ سے آنے والی خبریں، اسرائیلی یرغمالیوں کی بازیابی میں سست روی، اور اندرونی سیاسی دباؤ اس بیانیے کو مشکل میں ڈال رہے ہیں۔
سیاسی محاذ پر بھی اسرائیل کو سخت سوالات کا سامنا ہے:
امریکہ اور یورپی طاقتیں مذاکراتی عمل میں جلد نتائج کی خواہاں ہیں۔
یرغمالیوں کے اہلِ خانہ اسرائیلی حکومت پر شدید دباؤ ڈال رہے ہیں۔
خود اسرائیلی کابینہ میں بھی جنگی پالیسی پر اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب، حماس عسکری نقصان کے باوجود ایک ’مزاحمتی بیانیہ‘ کو مضبوط کر رہی ہے، جس میں وہ خود کو اسرائیل کے سامنے ڈٹے رہنے والی طاقت کے طور پر پیش کر رہی ہے۔
عالمی منظرنامہ: مذاکرات کی امید یا لاحاصل کشمکش؟
دوحہ، قاہرہ اور واشنگٹن کی ثالثی میں جاری مذاکرات مسلسل تعطل کا شکار ہیں۔ ہر بار امید پیدا ہوتی ہے، لیکن پھر فریقین کی پوزیشنز، شرائط، اور عدم اعتماد معاہدے کو روک دیتے ہیں۔
حماس کا مؤقف ہے کہ وہ ’ مکمل جنگ بندی‘ اور قیدیوں کے تبادلے کے بغیر کوئی پیش رفت قبول نہیں کرے گی۔ دوسری طرف اسرائیل کی قیادت، خاص طور پر نیتن یاہو، غزہ میں حماس کو مکمل طور پر ختم کیے بغیر پیچھے ہٹنے کو سیاسی خودکشی تصور کرتے ہیں۔
تبصرہ کریں