جشن آزادی پاکستان پر ایک لڑکا دکاندار سے باجا خریدتے ہوئے

تانت باجی راگ پایا

·

 جشنِ آزادی  تو گزر گیا لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ جشن کی کچھ  باقیات یعنی۔۔۔۔ٹوٹے ہوئے باجے،ادھ پھٹے پٹاخے، شرمائی لجائی پھلجھڑیاں ابھی تک ’وطن کی محبت‘ کی یاد تازہ کر رہی ہیں۔

 ویسے اس مرتبہ قوم نے پی پی پاں پاں کے ذریعے خوب جذبہ حب الوطنی کی بھڑاس نکالی۔

لوگ بڑھ چڑھ کے اس  جذبے پہ  نفرین —- اوہ معذرت—-  آفرین بھیج رہے ہیں۔

جشن آزادی کے دوران کچھ لوگ جشن کے ہنگاموں سے نالاں نظر آئے مثلاً بوڑھے،کمزور ، بیمار، طالب علم۔۔۔۔ ہم تو یہی کہیں گے کہ سوچ ہمیشہ مثبت رکھنی چاہیے۔ مذکورہ طبقات میں سے یہ جو بوڑھے اور کمزوروں کا طبقہ ہے، ان کے بارے میں امید ہے کہ اگلے یومِ آزادی تک یہ کہیں اور سدھار چکے ہوں گے— ہمارا اِشارہ جہان عدم کی طرف ہے۔۔

 لہذا باجا برادری بالکل پریشان نہ ہو بلکہ ہر پی اور ہر پاں کے ساتھ نغمہ سرا ہو جائیں

بجتا رہے یہ پی پی پاں پاں

 چلتا رہے یہ کارواں

 دل دل پاکستان۔۔۔

باقی رہ گئے طلبہ و طالبات تو ان میں سے اکثریت اگلے یوم آزادی تک بیرون ملک جا چکی ہوگی باقی جو ہوں گے ان کے لیے باجا برادری  سر جوڑ کے بیٹھی ہے۔ اس قدر حبس کے موسم میں سر جوڑ کے بیٹھنا ثابت کرتا ہے کہ یہ برادری ملک کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ ان طلبہ و طالبات کو پی پی پاں پاں کارواں یوم ازادی پہ روئی خود فراہم کرے گا، راجن پور کی کپاس سے دھنکی ہوئی روئی۔۔

قارئین! باجا برادری تک بہت سے لوگوں کی گالیاں بھی بغیر ملاوٹ کے پہنچی ہیں، برادری نے اس پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ بہرحال یہ گالیاں ان کے لیے ایک اعزاز ہیں کیونکہ یہ وطن کی محبت کی راہ میں ملی ہیں۔گالیوں کے جواب میں انھوں نے کچھ یوں سُر لگا ہے

وطن کی مٹی گواہ رہنا، گواہ رہنا
تیری ہی چاہت میں کھا رہے ہیں یہ گالیاں ہم
گواہ رہنا، گواہ رہنا۔۔۔

جشنِ آزادی کی رونقوں کو دوبالا کرنے کے لیے ‘پٹاخہ فیڈریشن‘بھی کافی متحرک نظر آئی۔ مگر یہاں بھی ہماری قوم کی تنگ نظری چھپی نہ رہ سکی۔ یہ بیچارے ملّی جذبے کے ساتھ سارا دن ’ٹھاہ ٹھاہ‘ کرتے رہے، اپنا قیمتی وقت برباد کیا۔ اور صلہ ان کو یہ دیا جا رہا ہے کہ ’بھئی! ہمارے کانوں کے پردے پھٹ گئے!‘

تو جناب! پٹاخہ فیڈریشن بھی گرمی اور حبس کی پرواہ کیے بغیر کہیں سڑک کنارے، کہیں بیچ چوراہے اور کہیں کسی پارک میں قدم سے قدم ملا کر کھڑی ہے اور اس مشکل کا حل سوچ رہی ہے—بلکہ سوچ چکی ہے۔ اور وہ یہ کہ وہ متاثرینِ پٹاخہ کے پاس جائیں گے اور ملّی جذبے کے ساتھ پھٹے ہوئے پردے سی کر آئیں گے۔

دیکھا نا؟ ہم نہ کہتے تھے کہ وطن کی محبت کا جذبہ انسان کے اندر جوہرِ انسانیت کو بیدار کرتا ہے۔ پٹاخہ فیڈریشن اپنے عزم پر قائم ہے۔ سنیے ذرا ان کا سر:
ہم زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں
ہم سب کی پہچان پاکستان۔۔۔
ٹھاہ ٹھاہ طوفان۔۔۔
ہم سب کا پاکستان۔۔۔

بات کی جائے موٹر سائیکل کی تو یہ سواری جب سے خواتین نے فتح کی ہے، یہ نوشتہ دیوار ہے (بلکہ اب تو دیس کی دیواریں کچھ اور بھی دکھائیں گی—یعنی خاتون وزیرِاعلیٰ کی قد آدم تصاویر) کہ ملک دن چُگنی رات چَھ گنی ترقی کر رہا ہے۔ بلکہ اگر ہم یوں کہیں کہ ترقی کی دوڑ میں ہم کئی ممالک کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ وہ بیچارے دور کھڑے آوازیں دے رہے ہیں، گلا پھاڑ پھاڑ کر بلا رہے ہیں: ’اوئے رکو، رک جاؤ! ہمیں بھی ساتھ ملا لو!‘

لیکن ان جاہل ممالک کو کون سمجھائے کہ ہمارا ہمراہی بننا ہے تو موٹر بائیکس سے حضرات کو اتار دو۔ وہ پیدل چلتے اچھے لگتے ہیں۔ بائیکس خواتین کے حوالے کر دو۔

تو ہم بتا رہے تھے کہ اس یومِ آزادی پر ہماری خواتین بھی وطن کی محبت کے جذبے سے مجبور ہو کر سڑکوں پر نکلیں اور بائیک ریس کا شاندار مظاہرہ کیا۔ گھر گرہستی کو کام والے—اوہ معذرت—مرد حضرات کے حوالے کیا اور خالص ملی جذبے کے ساتھ نکل پڑیں ’سڑکوں کی ملکہ‘ کا خطاب پانے کی خاطر۔

لوگ کہتے ہیں یہ عورت مارچ والی خواتین ہیں، ہم کہتے ہیں یہ عورت مارچ والی نہیں، عورت اگست والی خواتین ہیں بھئی۔۔۔

سو باتوں کی ایک بات: جسے اپنے کان اپنے ملک سے زیادہ عزیز ہوں، جسے اپنی پڑھائی وطن کی محبت پر قربان کرنا نہ آتی ہو، جس سے خواتین کی بائیک ریلی برداشت نہ ہوتی ہو، اور۔۔۔ جسے تان کا علم نہ، راگ کا پتہ نہ، لے کی خبر نہ، سر کی پہچان نہ—وہ ملک سے باہر چلا جائے۔ وہاں شاید بدذوق لوگ مل جائیں جنہیں جشن کی فکر نہ، سر تال کی خبر نہ۔۔۔ ہونہہ۔۔۔ جاہل!

ہم تو سات سُروں کے علم کے ماہر ہو چکے۔
اب تان بھلے باجے کے حلق سے نکلے یا اچھلتے ناچتے لٹو کی طرح گھومتے گلوکار کے گلے سے، ہم تو اسی وقت سمجھ جاتے ہیں کہ یہ دراصل کون سا راگ ہے۔

اب آپ کہیں تو اس ضرب المثل کا مطلب بھی بتا سکتے ہیں ہم:
تانت باجی راگ پایا۔

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے