تحریر: شاہنواز شریف عباسی
پیشر اس کے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کی سیرت مبارکہ کے متعلق مدحہ سرائی کریں ضروری ہے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کی بعثت سے پہلے کے حالات اور ان کے کام کے تصور کو جان لیں۔
نبی اکرم ﷺ نے اپنی پوری عمر ایک فیصلہ کن معرکہ سر کرنے میں گزار دی۔ آپ ﷺ کی زندگی ایک بین الاقوامی مشن کی داستان ہے جیسا کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ چلتا پھرتا قرآن تھے۔ آپ قرآن کے ابدی اصولوں کی تفسیر ہیں جسے عمل کی زبان میں مرتب کیا گیا۔ نبی اکرم ﷺ اس مقدس پیغام کی تکمیل ہیں جس کی مشعل حضرت آدم علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور دیگر انبیاء کرام نے اپنے اپنے ادوار میں روشن کی۔
تاریخ کے اوراق پر اگر نظر ڈالیں تو نبی اکرم ﷺ کی سیرت مبارکہ میں ہمیں شیریں مقال، واعظ، آتش بیان خطیب، فلسفہ دراز، عادل حکمران، فاتح سپہ سالار، تمدن، اخلاق، داعی خیر و فلاح غرض یہ کہ نبی اکرم ﷺ کی دعوت نے پورے کے پورے اجتماعی نظام کو اندر سے بدل دیا۔
صبغت اللہ کا ایک ہی رنگ مسجد سے لے کے بازار تک، مدرسے سے عدالت تک، گھر سے میدان تک چھا گیا۔ درحقیقت نبی اکرم ﷺ کے ہاتھوں انسانی زندگی کو نشاۃ ثانیہ حاصل ہوئی۔ آپ ﷺ نے نظامِ حق کی درخشاں صبح سے جہالت کی گھٹا ٹوپ اندھیری رات کو روشن کر دیا۔یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ اس کی نظیر پوری تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔
نبی اکرم ﷺکا ظہور اللہ نے ایسے حالات میں کیا کہ جب پوری انسانیت تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اس دور وحشت میں شرک تھا، بت پرستی تھی، جہالت تھی جس نے مصر، بابل، یونان، ہندوستان اور چین کی تہذیب کو ختم کر دیا تھا۔ ایران اور روم کی تہذیب دم توڑنے کو تھی۔ ان کے محلات تک میں بدترین مظالم کا دور دورہ تھا۔ ان ممالک کے بادشاہ گویا خدا بنے ہوئے تھے اور یہ سب کچھ کمال چالاکی سے معاشرے میں موجود کبائر جاگیردار، سرمایہ دار اور مذہبی عناصر کو ملا کر کیا جاتا تھا۔
یہ حکمران نہ صرف غریبوں سے تگڑا ٹیکس وصول کیا کرتے تھے بلکہ صحیح اور جائز کام کے لیے بھی رشوت، خراج اور نذرانے لیتے تھے۔ گویا انسانوں سے جانوروں کی طرح بیگار لیا جاتا تھا۔
ان دنوں بڑی طاقتوں یعنی ایران اور روم میں ہمیشہ چپقلش رہتی تھی۔ جس جگہ کوئی دوسرا قابض ہو جاتا تو وہاں کے رہنے والوں کو یا تو مذہب تبدیل کرنا پڑتا یا منافقت کرنا پڑتی یا پھر اپنے مذہب پر قائم رہنے کی وجہ سے بدترین ظلم سہنا پڑتا۔
خود عرب جنگ و جدل خونریزی کا میدان بنا ہوا تھا۔ ہر طرف ایک انتشار کی سی کیفیت تھی۔ لوٹ مار کے ساتھ ساتھ شراب، زنا، جوا، بت پرستی کا دور دورہ تھا۔ سود اور غلام سازی جیسے عوامل نے کمزوروں کو طاقتور اور زور آور لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا تھا۔
ان عوامل کا اگر ہم بغور جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ یہ تو وہی سارے معاملات ہیں جو آج ہم دنیا بھر میں اور بالخصوص وطن عزیز پاکستان میں دیکھتے ہیں جہاں زور کو سلام ہے، جہاں سرمایہ داری، اقرباء پروری، رشوت ستانی، جھوٹ، مکر و فریب، کرپشن، عریانی فحاشی کا دور دورہ ہے۔ امیر غریب کا استحصال کررہا ہے، زور آور مظلوموں پر ظلم کررہا ہے۔
زردار گھر بناتا ہے مظلوم سے الگ
حاکم کی قبر ہوتی ہے محکوم سے الگ
جب اللہ نے نبی اکرم ﷺ کو تن تنہا اس عظیم ترین تبدیلی کا پیغام لے کر مبعوث کیا تو لوگ جڑتے رہے، قافلہ بنتا رہا اور نبی اکرم ﷺ نے انسانیت کی نیا کو طوفانی موجوں میں ہچکولوں سے بچا کر، بدی کی ہلاکت انگیز موجوں سے لڑ کر ساری اولاد آدم کے لیے نجات کا راستہ کھولا۔
یوں نبی اکرم ﷺ خلق خدا کے لیے نجات بن کر تشریف لائے۔
وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل، وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسین، وہی طٰہٰ
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آج پھر داعی اعظم محسن انسانیت نبی اکرم ﷺ کے فرمودات پر چلتے ہوئے اندھیری رات میں حق کا دیا روشن کریں تاکہ رب کے سامنے سرخرو ہوسکیں اور اپنے محبوب ﷺ سے جام کوثر پی سکیں۔
تبصرہ کریں