محمود جان بابر اور تزئین حسن

طالبان کا افغانستان : خواتین آزادانہ گھوم پھر رہی ہیں، موسیقی چل رہی ہے ( دوسرا اور آخری حصہ )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

آج کا افغانستان کیسا ہے؟ اہم ترین سوال کا تفصیلی جواب دیتے ہیں محمود جان بابر ، معروف صحافی جنھوں نے گزشتہ ہفتے کابل کا تفصیلی دورہ کیا

انٹرویو : تزئین حسن

پہلے یہ پڑھیے
طالبان کا افغانستان : خواتین آزادانہ گھوم پھر رہی ہیں، موسیقی چل رہی ہے ( پہلا حصہ )

تزئین حسن : افغانستان میں داعش کتنی طاقتور ہے؟ وہ طالبان کو کس طرح مشکل میں ڈال سکتی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ داعش کو بہانہ بنا کر امریکا بمباری جاری رکھے؟ طالبان سے جو معاہدہ ہوا ہے ، وہ کیا ہے؟ کیا امریکا اس کی پابندی کرے گا؟ ظاہر ہے کہ داعش کی وجہ سے امریکا طالبان کو تنگ کرسکتا ہے، افغانستان پر بمباری جاری رکھ سکتا ہے۔ اس حوالے سے آپ کیا کہتے ہیں؟

محمود جان بابر : یہ ایک کھلم کھلا تاثر ہے ، پاکستان اور افغانستان لوگ کنٹرو ورسری میں پلے بڑھے ہیں ، یہ جو جنگی ممالک ہوتے ہیں ، وہاں کوئی بھی مووو ہو رہی ہو تو وہ فوری طور پر سوچنا شروع کردیتے ہیں کہ فلاں آیا ہے وہ کس وجہ سے آیا ہے۔ اس کا فائدہ کسے جارہا ہوگا، آپ کینیڈا میں ہیں ، شاید وہاں ایسا نہ ہوتا ہو لیکن یہاں ایسا ہوتا ہے۔ یہاں جب داعش کے آنے کی بات ہوئی تو فوری طور پر سوال اٹھا کہ اس وقت داعش کے آنے کی کیا ضرورت ہے۔ ابھی تک افغانستان میں داعش کھلم کھلا موجود کیوں نہیں تھی،

اس لئے یہاں جو نقاد ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ داعش کو یہاں زندہ رکھنا طالبان کو ان کی اوقات میں رکھنا بہت ضروری ہوگا ۔ وہ داعش کو یہاں رکھیں گے ، داعش یہاں کاروائی کرے گی ، اس کے جواب میں امریکا طالبان کے خلاف کارروائی کرے گا ۔ یہ ایک تاثر ہے ۔ میں جن لوگوں سے ملا ہوں ، ان کے ذہنوں میں یہ خیال موجود ہے کہ امریکا کے پاس اور کوئی جواز نہیں ہے افغانستان میں ٹھہرنے کا ، ان کی دفاعی ضروریات کو طالبان پوری کریں گے ، وہ پابند ہوں گے کہ افغانستان کی سرزمین امریکا کے خلاف استعمال نہ ہو ، اس لئے اب دیکھا جارہا ہے کہ امریکا کے پاس اس علاقے میں رہنے کے لئے اب آپشنز کیا ہیں ، اس کے پاس آپشنز تب ہی رہ سکتے ہیں جب افغانستان میں بدامنی ہوگی ۔ بدامنی کے خلاف ایک فورس ہونی چاہئے جس طرح طالبان پچھلی حکومت میں تھے ۔ طالبان تھے تو امریکا کے یہاں رہنے کا جواز تھا۔ اب انھیں اس خطے میں رہنے کے لئے ، کسی ملک سے اڈے لے کر ، جو جواز چاہیے وہ یہی ہے کہ بدامنی ہونی چاہیے ۔

میرا خیال ہے کہ دنیا یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ لوگ بھی اسے دیکھ رہے ہیں اور انھیں اس بات کی سمجھ آرہی ہے کہ امریکا کل جارہا ہے ( یاد رہے کہ یہ انٹرویو تیس اگست دو ہزار اکیس کو ہوا تھا ) اور داعش داخل ہورہی ہے اسی دروازے سے ۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس لئے جو لوگ باتیں کررہے ہیں کہ فلاں چیز کا فائدہ کسے ہوگا ۔

تزئین حسن : یہ بڑا اہم سوال ہے کیونکہ امریکا نے پاکستان سے اڈے مانگے تھے، جس پر کہا گیا تھا کہ ابسولیوٹلی ناٹ ، اس کے بعد ہمیں نظر آ رہا ہے کہ افغان فوج کے پاس بھی خاصا اسلحہ موجود تھا ، امریکا نے پاکستان سے اڈے مانگے ، پھر افغانستان میں امریکی فوجیوں کی جیسے جیسے کمی ہوتی چلی گئی ، ویسے ویسے طالبان بہت تیزی سے آگے بڑھتے چلے گئے۔ ایسے میں یہ بڑا اہم سوال ہے ، ایسے میں امریکا کا یہ ضرور خیال ہوگا کہ اس قدر زیادہ اسلحہ چھوڑ کر جا رہے ہیں تو طالبان اور افغان حکومت کچھ عرصہ تک آپس میں لڑتی رہے گی ، افغانستان میں خانہ جنگی جاری رہے گی ، اب یہ دوسری بات ہے ، پوری دنیا حیران رہ گئی ہے یہ دیکھ کر کہ ایک گولی بھی نہیں چلی اور طالبان کابل میں داخل ہوگئے ۔ اس کے بعد انھوں نے کسی بھی قسم کی انتقامی کارروائی سے اب تک پرہیز کیا ہے جیسا کہ آپ نے بھی ہمیں بتایا۔ آپ یہ بتائیے کہ داعش کس حد تک طالبان کو تنگ کرسکتی ہے؟ وہ کس حد تک طاقت ور ہے؟ کیا طالبان داعش پر قابو پانے کی اہمیت رکھتے ہیں؟ کیا وہ دہشت گرد حملوں کو روک سکتے ہیں؟

محمود جان بابر : ایک بات تو بڑی واضح ہے کہ جس طرح طالبان کھل کر لڑ رہے تھے، داعش اس طرح کھل کر نہیں لڑے گی ، وہ طالبان کے ساتھ اس طرح تو نہیں لڑ سکتی ۔ وہ خفیہ کارروائیاں کر سکتی ہے ۔ خفیہ کارروائیوں کے اس کے طریقہ کار کو ہینڈل کرنا باقی لوگوں کے مقابلے میں طالبان کے لئے اتنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اگر بین الاقوامی ادارے داعش کی مدد نہ کریں ، اور اس طریقے سے کام کریں کہ وہ کسی کی نظر ہی میں نہ آئے ، لیکن اگر وہ گروپ کے طور پر کریں گے تو طالبان خود بھی ایک گروپ ہے ۔ دہشت گرد حملے وہ کریں گے ایک نادیدہ فورس کی طرح، جنات کی طرح آئیں گے اور حملہ کریں گے اور غائب ہوجائیں گے اور کہیں گے کہ یہ داعش نے کیا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اس میں داعش کا نام استعمال ہوتا رہے گا۔ اس نام کے استعمال سے وہ طالبان کو تھوڑا سا مشکل میں ڈالیں گے۔

تزئین حسن : داعش نے کابل ائیر پورٹ پر حملے کی باقاعدہ ذمہ داری قبول نہیں کی؟

محمود جان بابر : داعش کو یہاں آنے کا موقع کیسے ملا ؟ ایک تو طالبان بطور عسکریت پسند گروہ ختم ہوئے۔ انھوں نے اس حیثیت سے اپنا کام چھوڑ دیا، حملے چھوڑ دئیے اور ان کا دشمن سامنے سے ختم ہوگیا ۔ وہ فوج بھی چلی گئی، پتہ نہیں کہاں چلی گئی ، کس نے اس سے کہا کہ تم ایک طرف ہوجائو ، اب طالبان کے ساتھ مت لڑو ۔ یہ ایسے نہیں ہوا تھا ، اس کا باقاعدہ حکم جاری ہوا تھا۔ کس نے کہا تھا کہ طالبان سے مت لڑو ، انھیں آنے دو ۔ بہت سارے سوالات ہیں افغانستان میں ، ہر گلی ، کوچے اور ہر جگہ پر یہ ہورہے ہیں۔ تین لاکھ کی اتنی بڑی فوج ، وہ پچاس ساٹھ ہزار طالبان کے ساتھ کیوں نہیں لڑ سکی۔ وہ تو سپیشل فورس تھی ۔ اس کی ٹریننگ ہی مختلف ہوتی ہے۔ اس کے پاس وہ یونیفارم ، وہ اسلحہ اور وہ سامان تھا جو خود امریکی فوجیوں کے پاس ہوا کرتا تھا۔

تزئین حسن : اس پر امریکی تجزیہ نگار بھی بہت سے تبصرے کررہے ہیں، کہ افغان فوج کی وفاداری کس کے ساتھ تھی ، فوج کسی مقصد کے لئے لڑتی ہے،

محمود جان بابر : افغانستان میں ایک بڑا مسئلہ ہے ، فوج کیوں نہیں لڑ پائی ۔ پاکستان کی مثال لے لیں ۔ پاکستان کا ایک نظریہ ہے ، پاکستان ایک ملک ہے ، پاکستان میں ادارے ہیں ، لوگوں کی ان اداروں سے وابستگی ہے ۔ ان کی پاکستان اور اس کے ترانے اور جھنڈے سے ان کی وابستگی ہے، وہ اس سے جڑے ہوئے ہیں ۔ افغانستان میں وہ شناخت کے لئے لڑ رہے ہیں ۔ وہ اپنے جھنڈے کو نہیں چھوڑ رہے ، وہ بہت کچھ کرر ہے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی مرکزی نظام نہیں ہے جس کے پیچھے وہ سارے لوگ کھڑے ہوں اور وہ کسی پر بھی دبائو ڈال کر اپنی بات منواسکیں۔

تزئین حسن : اشرف غنی اور حامد کرزئی کو فوج بھی جانتی تھی ۔ اس سے پہلے اٹھارہ برس تک امریکی رہے ہیں ، انھوں نے افغان فوج تشکیل دی ہے ، میں ان کی کتابیں پڑھتی رہی ہوں ۔ جو بھی امریکی زعما اور صحافی تھے، ان کی کتابیں، ان میں پیٹرک کاکبرن تھا ، اوبامہ وارز میں تذکرہ ملتا ہے کہ جوبائیڈن جب افغانستان پہنچے تو انھوں نے امریکی فوجیوں سے پوچھا کہ آپ کس لئے لڑ رہے ہیں یہاں پر ، کس لئے موجود ہیں یہاں پر ؟ پانچ ، چھ فوجی موجود تھے وہاں پر ، ان میں سے ہر ایک نے الگ الگ جواب دیا۔ کسی نے کہا کہ القاعدہ کو بھگانے کے لئے ہم یہاں پر لڑ رہے ہیں، کسی نے کہا کہ ہم جمہوریت لانے کے لئے یہاں پر ہیں ، کسی نے کہا کہ افغانوں کی مدد کرنے کے لئے یہاں پر ہیں ، انھیں آزادی دلانے کے لئے یہاں پر ہیں ۔ معذرت کہ میں یہاں کچھ چیزیں شئیر کررہی ہوں ، ورنہ تو ہم نے آپ کو مہمان بلایا ہے ۔

محمود جان بابر : افغان فوج کی تربیت کرتے ہوئے ان کے ٹرینرز کا ایک ہی مطمع نظر تھا کہ ہم جب منظر سے غائب ہوں تو یہ اس منظر کو سنبھال لیں ۔ اگر وہ انھیں پہلے سے بتا دیتے کہ آپ کیوں لڑ رہے ہیں ، ان کے پاس ایک نعرہ ہوتا ، ایک مقصد ہوتا ، اس کے بعد ان کے لئے سب کچھ آسان ہوتا ۔

تزئین حسن : وہ مقصد کیا ہوسکتا تھا؟ آپ کے خیال میں کوشش نہیں کی گئی ہوگی۔ نعرہ کیا ہوسکتا تھا؟ افغان اور مسلمان جہاں بھی ہوں ، وہ بیرونی طاقت کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں ۔ اخلاقی طور پر افغان فوج ویسے ہی ڈائون تھی کہ بیرونی طاقت کے بل پر ہی بیٹھی تھی ۔ بیرونی طاقت نے اسے تربیت دی تھی ۔ یہ رپورٹس بھی موجود ہیں کہ جو گرین آن بلیو اٹیکس ( حملے ) تھے ، اگرچہ یہ چیز اس وقت زیر بحث نہیں آرہی لیکن دو ہزار آٹھ سے گرین آن بلیو اٹیکس ہونا شروع ہوئے تھے

محمود جان بابر : میں نے اس پر بڑا کام کیا ہے، اس میں کلچر کے ایشوز تھے ، انگریز جب یہاں موجود تھا چاہے وہ امریکی تھا یا کسی دوسری جگہ سے آیا تھا ، جب وہ بات کرتا تھا تو اس کی بات کرنے کا اپنا ایک سٹائل ہے ۔ وہ بات میں گالی نہیں دے رہا ہوتا تھا لیکن اس کے منہ ، اس کے الفاظ اور انداز کو گالی سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ وہ اسی گالی کو ناکامی کے طور پر استعمال کر رہا ہوتا تھا۔

تزئین حسن : ان کے اپنے ریسرچ پیپرز کے اندر یہ بات مانی گئی کہ یہ طالبان در انداز بھی ہیں ۔ دوسری بات کہ بیرونی طاقت کا ایک خوف بھی تھا اور اس سے نفرت بھی موجود تھی۔

محمود جان بابر : اگر آپ اس کا تجزیہ کریں گی تو اس کے لئے ہمارے پاس بہت سا مواد ہوگا ۔

تزئین حسن : لیکن اس کی وجہ سے ٹریننگ پر فرق تو پڑا ہے نا ؟ جب انھیں ٹریننگ دی گئی تو وہ ڈرتے ہی رہے ، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کسی نے کہا تھا کہ میں حیران ہوں کہ افغانوں کو ہتھیاروں کے بغیر ٹرینڈ کیا جارہا ہے۔

محمود جان بابر : افغان فوجیوں کے ساتھ بتیس ہزار ہینڈلرز رکھے گئے تھے ۔ وہ افغان فوج کے ساتھ ہوتے تھے، وہ ایک خاص قسم کی آوازیں نکالتے تھے ، ایک بندہ کھڑا ہوتا تھا اور وہ عجیب سی آواز نکالتا تھا تو افغان فورس لڑ رہی ہوتی تھی ۔ لیکن پھر اچانک وہ بتیس ہزار ہینڈلرز ان کے سر سے ہٹا دیے گئے ۔ جب انھیں کاشن ملنا بند ہوگیا تو فورسز نے کہا کہ اب ہم کیسے لڑیں گے؟ ہمیں تو وہ سگنلز ہی نہیں مل رہے ۔ فائر کرنا ہے، یہاں رکنا ہے ، یہاں پیچھے مڑنا ہے ۔

تزئین حسن : یہ ہینڈلرز کون تھے؟

محمود جان بابر : کچھ غیر ملکی تھے اور کچھ افغان بھی تھے جن کی سپیشل ٹریننگ ہوئی تھی۔ آپ مثال لیں کہ کوئی ایسا جانور لے لیں جو جنگ میں کار آمد ہو ، آپ کا گھوڑا ہو اور وہ آپ کی ضرورت کی چیز ہو ، گھوڑے کو آپ ایک خاص آواز دیں گے وہ پھر جنگ میں اس کے مطابق عمل کرے گا۔ جب آپ اس گھوڑے کے پیچھے سے اس ہینڈلر کو ہٹا دیں گے تو گھوڑا سوچے گا کہ اب آواز کہاں سے آئے گی ، میں کس طرف جائوں ۔

تزئین حسن : جس حکمت عملی کے تحت انھیں ٹریننگ دی گئی تھی ، اس ٹریننگ سے انھوں نے وہ ٹول نکال لیا۔ وہ ڈیوائس انھوں نے الگ کرلی ، یہ آپ کہہ رہے ہیں ۔ میں یہاں رپورٹس پڑھتی رہی ہوں ، دوہزار نو اور دوہزار بارہ کی لکھی ہوئی کتابیں ۔ سب بتاتی تھیں کہ افغان فوج باصلاحیت نہیں ہے ۔ اور نہ ہی اسے مناسب طور پر ٹریننگ دی جارہی ہے ۔ اگر آپ کاکبرن کی کتاب پڑھیں تو اس نے واضح طور پر یہ بات لکھی ہے کہ ہتھیاروں کے بغیر افغانوں کو ٹریننگ دی جارہی ہے۔ پھر وہ ہینڈلرز جو انھیں تکنیکی امداد دے رہے تھے، ان کے پاس اعلیٰ قسم کے آلات تھے ، وہ الگ ہوگئے ۔ دوسری بات کہ یہ بات بھی کی جاتی تھی کہ یہ امریکا کی فضائی قوت ہے جو افغان حکومت کو برقرار رکھے ہوئے ہے ۔ اس طرح کی باتیں مسلسل پڑھنے کو ملتی رہی ہیں کہ امریکا کی فضائی قوت نہ ہو تو کابل حکومت چند ہفتوں کی بات ہے ۔ کابل کا کچھ علاقہ ایسا ہے جو امریکیوں کی حفاظت میں ہے ۔ یہ نہ ہو تو اشرف غنی اور حامد کرزئی باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ یہ دونوں صدور کتنا سفر کرتے تھے ، کتنا دیہاتوں میں جاتے تھے ، کتنا افغان عوام سے ملتے تھے ۔

محمود جان بابر : اس کا کوئی ایک فیکٹر نہیں تھا ، اس کے بہت سارے فیکٹرز تھے جن کی وجہ سے افغان فورسز نہیں لڑ پائیں ۔ اب انھیں خود بھی احساس ہو رہا ہے لیکن کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ افغان فورسز کو قصدا وہاں سے ہٹایا گیا ہے تاکہ طالبان آئیں اور ٹیک اوور کریں۔ اور طالبان کو مشکل میں ڈالنے کا ایک ذریعہ ہاتھ آسکے۔

تزئین حسن : طالبان کے مذاکرات امریکا سے ہوئے، اور پھر امریکی فوج کا انخلا شروع ہوا ۔ ظاہر ہے کہ معاہدہ یہی تھا کہ امریکی فوج پر طالبان حملے نہیں کریں گے ، طالبان کا مطالبہ یہ تھا کہ کوئی ایک بھی بوٹ افغانستان میں نہیں رہے گا۔ طالبان نے پھر حملے نہیں کیے ۔ امریکی تنصیبات پر حملے نہیں کیے ۔ کابل پر جب طالبان نے کنٹرول حاصل کیا ، تو امریکی فوجی کابل میں موجود تھے ۔ کابل ائیرپورٹ پر امریکی موجود تھے ، ان کا انخلا ہورہا تھا، طالبان نے ان پر ایک بھی گولی نہیں چلائی ۔ یہاں تو معاہدہ ٹھیک ہوا ۔ اگر یہ معاہدہ ہوا تھا تو کہیں بھی مزاحمت نہیں ہونی چاہئیے تھی لیکن بعض جگہوں پر افغان فوج نے مزاحمت کی ہے ۔ قندھار اور قندوز وغیرہ میں ۔

محمود جان بابر : اس کی وجہ یہ تھی کہ قندھار کا گورنر اپنے آپ کو نیشنلسٹ کہتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ کسی بھی صورت طالبان کے سامنے نہیں جھکوں گا، یہی صورت حال پنج شیر میں بھی تھی اور یہی صورت حال باقی کچھ ضلعوں اور بڑے شہروں میں بھی تھی۔ اس لئے وہاں مزاحمت ہوئی۔ ورنہ باقی جگہوں پر کوئی اور بھی ہوتا اور وہ نیشنلزم کے نام پر لڑتا ، جیسے کہ ایسے لوگوں سے توقع کی جارہی تھی، جیسے امر اللہ صالح وہاں بیٹھ گیا۔ اسی طرح احمد شاہ مسعود کا فرزند ہے۔ ان سارے لوگوں کی وجہ سے لڑائی ہوئی۔

اب میں آپ کو ایک اور بات بتاتا ہوں کہ پنج شیر کے اردگرد کے اضلاع میں جو فورسز کے لوگ تھے ، وہ ہتھیار ڈالنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ وہ مختلف جگہوں سے پیچھے ہٹتے گئے اور پھر انھیں احساس ہوا کہ ہمیں پنج شیر جانا چاہئیے، ہم پنج شیر میں اکٹھے ہو کر طالبان سے لڑتے ہیں ۔ اسی لئے کہا جا رہا ہے کہ پنج شیر میں ہزاروں افغان فوجی موجود ہیں اور وہ ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں ۔ وہ وہاں موجود ہیں اور لڑنے کے لئے تیار ہیں ۔ تاہم پنج شیر کی قیادت اس طرح لڑنے کے لئے تیار نہیں جس طرح اس سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ احمد شاہ مسعود کی طرح ضرور لڑیں گے۔

تزئین حسن : ابھی پنج شیر کی کیا صورت حال ہے؟

محمود جان بابر : بات چیت کا سلسلہ جاری ہے ۔ البتہ رستے بند ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ اس کے ارد گرد کے رستے بند کردیں گے ، جیسا کہ طالبان نے کیا ہے تو رسد بالخصوص خوراک کا سامان وہاں نہیں پہنچے گا ، وہاں پر کئی اور بنیادی ضروریات میسر نہیں ہوں گی ۔ یہ ایک حربہ استعمال کیا جا رہا ہے کہ ابھی لڑتے نہیں ہیں ، صرف پنج شیر کا محاصرہ کرتے ہیں ۔ پنج شیر محصور ہے ۔ بات چیت بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہے ۔ مختلف لوگوں کے ساتھ ہماری بات چیت ہوئی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ پنج شیر والوں کے ساتھ رابطہ ہے اور بات چیت جلد ہی کامیاب ہوجائے گی ، یہ مسئلہ بھی ختم ہوجائے گا اور پورے افغانستان میں امن آ جائے گا۔

تزئین حسن : طالبان اس وقت جتنے امن پسند دکھائی دے رہے ہیں ، کیا یہ سنجیدہ ہیں ؟ میری ایک ہزارہ فیملی سے ملاقات ہوئی ، ان کا کہنا تھا کہ ہم طالبان کی باتوں پر یقین نہیں کرتے۔ دوسری طرف طالبان ازبک ، تاجک ، ہزارہ اور دیگر غیر پشتون طبقات کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

محمود جان بابر : میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں ، آپ نے کچھ لوگوں کو ہمیشہ لڑتے دیکھا ، آپ کی کہانی میں وہ برے لوگ ہیں ، آپ کی کہانی میں وہ ولن ہیں۔ انھیں ہیرو بناتے ہوئے آپ کی آدھی زندگی گزر جائے گی ۔ میں یہاں پر ہزارہ لوگوں کی بات کر رہا ہوں ۔ انھیں یقین آتے آتے بہت عرصہ گزرے گا۔ طالبان کم از کم دو سال ایسے کام کریں گے جن سے لوگوں کو اندازہ ہوگا کہ اب یہ پرانے والے طالبان نہیں ہیں۔ اب یہ بالکل بدل چکے ہیں، تب لوگوں کو یقین آئے گا۔ یا طالبان فوری طور پر ایسے دو ، تین اقدامات کردیں جیسے انھوں نے ابھی کئے ہیں ۔

وہ پہلے ہر شیعہ کو مارتے تھے لیکن اب انھوں نے شیعوں کی مجلس میں خطاب کیا ، ماتمی جلوس سے خطاب کیا ، ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کبھی ایسے ہوسکتا ہے۔ ہم یہ بھی نہیں سوچ سکتے تھے کہ طالبان آئیں گے اور افغانستان کی خواتین ٹی وی پر پروگرام بھی کر رہی ہوں گی ، سکولوں میں بھی پڑھا رہی ہوں گی ، سڑکوں پر بھی پھر رہی ہوں گی ۔ اس کے علاوہ انھوں نے ابھی تک ان لوگوں کو بھی کچھ نہیں کہا جو ان سے لڑے تھے ۔ بعض لوگوں نے شکوہ کیا ہے کہ انھیں مارا گیا ہے لیکن بہت بڑی تعداد میں یہ شکوہ سامنے نہیں آیا ۔ جہاں تک بنیادی حقوق کی بات ہے ، موسیقی پر بھی پابندی نہیں ۔ بامیان میں انھوں نے بت گرائے تھے ، اب کیا افغانستان میں کوئی بت نہیں بچا؟ بت ابھی ہیں۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ لوگ بڑے حیران ہیں کہ یہ وہ طالبان نہیں ہیں ۔ابھی کچھ وقت گزرے گا ، پھر ہزارہ والوں کو بھی یقین آ جائے گا۔

تزئین حسن : غیر ملکی صحافیوں کے لئے کیا حالات ہیں وہاں ؟

محمود جان بابر :غیر ملکی صحافیوں کے لئے وہاں صورت حال اتنی بری نہیں ہے ۔ ہم پاکستانی صحافی وہاں جاتے ہیں تو وہاں کے صحافی کہتے ہیں کہ ہم یہاں پر ہیں تو پھر دوسرے صحافی کیوں آتے ہیں ۔ وہاں کچھ لوگوں نے کہا کہ پاکستانی صحافی اس لئے یہاں آگئے ہیں کہ طالبان پاکستان کی مدد سے آئے ہیں ۔ طالبان کو بھی میں نے شکوہ کرتے دیکھا ہے کہ پاکستانی صحافی کیوں آئے ہیں یہاں پر ؟

تزئین حسن : آپ افغانستان گئے تو طالبان نے آپ کی کوئی سپورٹ کی یا آپ کی حفاظت کی ضمانت دی انھوں نے؟

محمود جان بابر : نہیں ، بالکل نہیں۔ مجھے انٹرویو کا وقت بھی نہیں دیا ، ملاقات کا بھی وقت نہیں دیا ، انھوں نے کسی کی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی ۔ ہاں ! وہ باقی غیر ملکیوں کو انٹرویو ضرور دے رہے تھے ، وہ غیر ملکی جو یورپی ممالک کے ہیں ، کینیڈا ، جرمنی سمیت ان سب ممالک کے صحافیوں کو آن کیمرہ انٹرویوز دیے لیکن ہمیں نہیں وقت نہیں دیا ۔ یہ لوگ ہمیں پہلے سے جانتے ہیں کیونکہ پاکستان سے ہم جنگی رپورٹنگ کیا کرتے تھے . جب ہم افغان حکومت کے ساتھ طالبان کی لڑائی ہوتی تھی تو جو خبر وہاں سے آتی تھی اور ہم ان سے تصدیق کرتے تھے ، ہمارا ان سے رابطہ تھا لیکن اب طالبان نے ہمارے ساتھ وہ رابطہ برقرار نہیں رکھا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ طالبان نے ہمیں نظر انداز کیا ، انھوں نے ہمیں انٹرویو نہیں دیے ، ہم سے بات بھی نہیں کی ۔ ان کی خواہش تھی کہ پاکستانی نہ ہی آئیں تو بہتر ہے ۔ ٹھیک ہے ان کی پالیسی ہوگی ، جیسا بھی ہو ۔ اس پر کیا کہا جاسکتا ہے۔

تزئین حسن : کسی بھی پاکستانی چینل کو انھوں نے انٹرویو نہیں دیا ؟

محمود جان بابر : انھوں نے ٹیلی فون پر دیے ہیں انٹرویو ، اور بھی ذرائع اختیار کئے ہیں ، تاہم بحیثیت مجموعی ان کا رویہ پاکستانیوں کے ساتھ زیادہ دوستانہ نہیں تھا۔

تزئین حسن : کیا باقاعدہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان اس وقت افغانستان کے پیچھے نہیں ہے؟ کیونکہ پہلے تو سمجھا جاتا تھا کہ طالبان کو پاکستان نے پیدا کیا ہے ، پاکستان سپورٹ کرتا ہے ، پاکستان کی مدد کے بغیر وہ کچھ نہیں کرسکتے ۔۔۔

محمود جان بابر : میرا خیال ہے کہ طالبان کو اس بات کا احساس ہوگیا ہے، انھوں نے جو کچھ کیا ، جتنا بھی لڑے ، اب بعض لوگ اس سارے کچھ کو پاکستان کی جھولی میں ڈال کر طالبان کی کامیابی کو کم دکھانا چاہتے ہیں تو ایسے میں وہ چاہتے ہیں کہ اس کو تھوڑا سا بدل دیا جائے ۔ اسی لئے وہ ایسا کررہے ہیں ۔

تزئین حسن : ویسے اس دفعہ پاکستان کی بات نہیں کی گئی ہے ، دنیا میں کہیں یہ بات نہیں کی جارہی کہ پاکستان پیچھے ہے ۔

محمود جان بابر : طالبان پاکستان سے کسی حد تک ناراض ہیں ، ممکن ہے کہ یہ ناراضی حقیقی ہو سکتی ہے یا پھر سٹریٹیجک بھی ہوسکتی ہے۔ پتہ نہیں یہ کیا ہے، بعد میں پتہ چل جائے گا۔

تزئین حسن : آپ نے اپنے آپ کو محفوظ تصور کیا ؟

محمود جان بابر : میں وہاں کسی بھی اعتبار سے محفوظ نہیں تھا لیکن یہ احساس تھا کہ طالبان کھڑے ہیں تو کوئی مجھے کچھ نہیں کہے گا۔ مجھے صرف یہ فائدہ حاصل تھا کہ میں پشتو زبان بول سکتا تھا ۔ افغان صحافی سمجھتے تھے کہ یہاں سے رپورٹنگ ہمارا حق ہے، ان پاکستانیوں کو یہاں نہیں آنا چاہئے۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستانی صحافی یہاں آکر افغانستان کو طالبان کے زیر اثر بہتر مقام پر دکھانے کی کوشش کر ر ہے ہیں ۔ میرا نہیں خیال کہ میں نے کوئی ایسی سٹوری نہیں کی ، ہاں کچھ دوسرے دوستوں نے کی ہوں تو یہ ایک الگ بات ہے ۔

تزئین حسن : آپ کے ساتھ مزید کتنے پاکستانی صحافی موجود تھے؟

محمود جان بابر : میں نہیں جانتا، میں تو آٹھ ، دس صحافیوں سے ملا تھا۔

تزئین حسن : اگر میں وہاں جائوں تو کیا افغانستان میرے لئے محفوظ جگہ ہے؟

محمود جان بابر : اگر آپ کینیڈین شہری کی حیثیت سےجائیں تو محفوظ جگہ ہے۔ کسی بھی ملک میں جانے سے پہلے آپ اس ملک کے قانون کا احترام کریں ، ویزہ ضرور لگوائیں ۔ اگر آپ کے پاس ویزہ نہیں ہے ، اگر آپ کے پاس اوورسیز پاکستانی فائونڈیشن کا کارڈ نہیں ہے تو مت جائیں۔

تزئین حسن : آپ بھی ویزہ لے کر گئے تھے افغانستان؟

محمود جان بابر : آپ پاکستانی سرحد عبور ہی نہیں کرسکتے ، اگر آپ کے ویزہ نہ ہو تو ۔ پاکستان کی پالیسی ہے کہ وہاں حکومت ہو یا نہ ہو ، آپ ویزہ لے کر جائیں گے۔ میرے علم میں نہیں ہے کہ کوئی ویزہ لئے بغیر افغانستان گیا ہو۔

تزئین حسن : اس وقت افغانستان کے سفارت خانے کام کر رہے ہیں؟

محمود جان بابر : اسلام آباد میں سفارت خانہ سفیر صاحب کی بیٹی کے اغوا والے واقعے کے بعد بند ہوگیا تھا ۔ کچھ قونصلیٹس کام کررہے ہیں۔ پشاور اور کوئٹہ میں ہیں ۔ وہاں ویزے لگ رہے ہیں ۔ باقی بعض ممالک سے یہ اطلاعات سننے کو ملی ہیں کہ وہاں کے سفارت خانوں نے بھی آزادی کا اعلان کردیا ہے ۔ انھوں نے اشرف غنی کی تصویر لگائی ہوئی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم نئی حکومت کو نہیں مانتے۔ مختلف ممالک میں مختلف صورت حال ہے۔

تزئین حسن: ابھی تک کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا، ایسا ہی ہے؟

محمود جان بابر : اس لئے کہ طالبان کی ابھی حکومت قائم نہیں ہوئی۔ ان کی حکومت شاید نائن الیون کے بعد بنے گی جب جو بائیڈن باضابطہ طور پر اعلان کردیں گے کہ انھوں نے افغانستان کو چھوڑ دیا ہے ۔ طالبان حکومت بنے گی تو پھر تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا مسئلہ سامنے آئے گا۔

تزئین حسن : آپ کابل کی مساجد میں گئے ، گھروں میں گئے ، طالبان کی حمایت کس حد تک موجود ہے؟ کم از کم بڑے شہروں کی حد تک ہی بتا دیں

محمود جان بابر : طالبان کی حکومت میں نے کابل میں نہیں دیکھی ، بس ! لوگ ان سے اس وجہ سے خوش ہیں کہ پہلے ان کے ہاتھ میں موبائل اور پیسے ہوتے تھے تو کوئی چھین کر لے جاتا تھا ، طالبان کے آنے کے بعد ایسا نہیں ہورہا ۔ کچھ لوگ اسلام پسند ہیں ، وہ طالبان کے باب میں خاموش ہیں کہ طالبان جو شریعت لا رہے ہیں، اس کے خلاف بات کریں گے تو گنہہ گار ہوں گے اس لئے وہ طالبان کے خلاف بات نہیں کرتے ۔ میں نے باضابطہ طور پر طالبان کے لئے کوئی بڑی حمایت نہیں دیکھی ۔ ہاں ! لوگوں نے ان کے خلاف بڑی مزاحمت بھی نہیں کی کہ جس سے اندازہ ہو کہ طالبان کے خلاف لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

تزئین حسن : ہوسکتا ہے کہ لوگوں نے مزاحمت خوف کی وجہ سے نہ کی ہو ۔۔۔۔

محمود جان بابر : لیکن حمایت میں تو کسی کو خوف نہیں تھا ، حمایت تو کی جاسکتی تھی ، اگر کوئی طالبان کا حامی تھا تو اسے حمایت تو کرنی چاہئیے تھی۔ دراصل لوگ ابھی دیکھ رہے ہیں کہ یہ کس رخ جا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ جانا چاہئیے یا نہیں ۔ ان کی پالیسی بنے گی ، انسانی بنیادی حقوق سے متعلق ، خواتین کے بارے میں ، اقلیتوں کے بارے میں ، ہمسائیوں کے بارے میں ، باقی دنیا کے لوگوں سے تعلقات سے متعلق ، تجارت سے متعلق پالیسی بنے گی تو لوگ فیصلہ کریں گے کہ ان کا ساتھ دینا چاہئے یا نہیں ۔ اگر یہ سخت گیر بنیں گے تو پھر شاید ان کا ساتھ نہ دیں ، میرا نہیں خیال کہ وہ اب سخت گیر بنیں، وہ بہتر طور پر کام چلائیں ۔

تزئین حسن : امریکی فوجیوں کو جو پاکستان منتقل کیا جارہا ہے ، اس کا کیا پس منظر ہے؟

محمود جان بابر : امریکیوں کے پاس سامان کافی زیادہ تھا ، فوجی بھی کافی زیادہ تھے، طیارے اتنے زیادہ ٹیک آف نہیں کر پا رہے تھے ، لینڈنگ نہیں ہو پارہی تھی ، امریکا کو ضرورت تھی کہ وہ وہاں سے اکتیس اگست سے پہلے نکلیں ۔ اس کے بعد انھیں وہاں بٹھایا جاتا تو بوٹ آن گرائونڈ تصور ہوتا ، اس لئے انھیں اٹھا کر یہاں بٹھا دیا کہ کچھ دنوں میں انھیں لے جائیں گے کہ پاکستان ان کی مدد کر دے گا ۔

تزئین حسن : انھیں پاکستان کیسے پہنچایا گیا ؟

محمود جان بابر : جہاز کے ذریعے، ایک گھنٹے کا فاصلہ ہے۔ جہاز آتے تھے اور لے جاتے تھے ۔ لوگ اس وجہ سے حیران تھے کہ امریکا نے ہمیشہ پاکستان سے شکوے شکایات ہی کی ہیں ، انھوں نے پاکستان کو برائی کی جڑ بھی قرار دیا ہے ، یہ اپنے فوجیوں کو ہندوستان کیوں نہیں لے کر گئے ؟ یہ مکافات عمل نظر آ رہا ہے، انھوں نے جس پاکستان ، پاکستانی لوگوں کو ، پی آئی اے کو ہمیشہ برے الفاظ سے یاد کیا ، آج امریکہ کو ان کی ضرورت پڑ گئی ہے ۔

تزئین حسن : یورپی یونین نے پی آئی اے کے آپریشنز بند کردئیے تھے ، اب وہی پی آئی اے امریکی فوجیوں کے انخلا میں میں مدد کرر ہی ہے

محمود جان بابر : ہاں ، یہ چیزیں تو ہیں نا ، انھیں ماننا پڑے گا ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں