بچے موبائل دیکھ رہے ہیں

بچوں کی نفسیاتی صحت پر موبائل فون کے برے اثرات

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

روبینہ اعجاز

انسانی دماغ میں دو طرح کے ایونٹ بنتے ہیں ۔
ایک
مائیکرو ایونٹ ۔
دوسرا
آوکسڈوسن ایونٹ
مائیکرو ایونٹ جب کوئی موباٸل آن کرتا ہے تو وہ ایک ایونٹ تیار ہوتا ہے ، اسے مائیکرو ایونٹ کہتے ہیں کیونکہ موبائل آن کرنے کے بعد یہ ہمیں ایک خوشی دیتا ہے تو ہمارے دماغ میں ایک کیمیکل تیار ہوتا ہے جس کا نام ہے ٹوپا من ۔۔

یہ ہمارے دماغ میں خود سے پیدا ہوتا ہے ، یہ ضروری ہے . اس سے دماغ میں ایک تحریک پیدا ہوتی ہے. اللہ تعالی نے اسے کسی مقصد کے لیے بنایا ہے یعنی جس بھی چیز میں ہمیں خوشی محسوس ہو وہ ایک ٹوپامن بناتی ہے۔ چاہے وہ کھانے کی خوشی ہو چاہے .پوزیشن حاصل کرنے کی خوشی ہو، چاہے ڈرگ ، سگرٹ، یا شراب یا کسی بھی نشے کی چیز کی خوشی ہو یہ ٹوپا من آپ کو مصنوعی خوشی دیتی ہے ،

اگر کوئی اپنے بچوں کے ساتھ3.4 گھنٹے کھیلتا ہے ،اسے گود میں اٹھاتاہے ، اس کے ساتھ بال سے کھیلے یا پہیلیاں بھجائے ،،
یا کمر پر سوار کر کے جھولے جھلائے ، ان کے ساتھ تتلیاں پکڑے 2 .3 گھنٹے میں آپ جتنے ایونٹ بناتے ہیں ، ایک ویڈیو گیم دو منٹ میں اتنے مائیکرو ایونٹ بناتے ہیں یعنی ٹوپا من۔

لیکن جب کوئی اپنے بچے کو فزیکلی خوشی دے رہا ہوتا ہے ۔ وہ فزیکلی خوشی ہی حقیقی خوشی ہوتی ہے اس سے ایک اور کیمیکل جو اللہ پاک نے رکھا ہے وہ ہے اوکسڈوسن ۔ جب ماں اپنے بچے کو گلے لگاتی ہے اس وقت ماں کے اندر اوکسڈوسن بنتا ہے اور بچے کے اندر بھی ۔ اوکسیڈوسن اصل میں اس خوشی کا کیمیکل ہے اور یہ کیمیکل بچے کی پیدائش کے وقت سب سے زیادہ پرڈیوس ہوتے ہیں کیونکہ اس وقت ایک بےلوث محبت اور قربانی کی انتہا ہوتی ہے جو اللہ پاک بنا رہے ہوتے ہیں اور بچہ لیڈر ہی پیدا ہوتا ہے اور محبت کی فضا میں دنیا میں آتا ہے۔

یہ اوکسیڈوسن ہر انسان میں پیدا ہوتے ہیں۔ جس سے بھی ہم محبت کرتے ہیں یعنی ماں باپ بہن بھائی بچے دوست احباب سب کے لیے یعنی فزیکلی ایونٹ اوکسیڈوسن پیدا کرتے ہیں اور آرٹیفشل ایونٹ ٹوپا من پیدا کرتے ہیں

دونوں میں فرق یہ ہے کہ ٹوپا من جس دماغ میں جنم لیتے ہیں وہ وقتی خوشی ہوتی ہے۔ اور اس سے وہ زیادہ اور زیادہ کی تمنا کرتے ہیں۔ جیسے کوئی شخص دو روٹیاں کھاتا ہے تو تمنا تین کی ہونے لگے اور اگر تین کھائے تو چار کی ، اس طرح خواہش بڑھتی جاتی ہے۔

اب ٹوپامن کیمیکل اور کی طلب کرتا ہے اور اس کیفیت کو آبجیکشن کہتے ہیں۔ جیسے کوئی نشٸ نشہ کے بعد اور اور اور زیادہ ک طلب کرتا ہے۔ اور ان سب براٸیوں کو چھڑانے سے سب سے مشکل برائی یہ موباٸل ہے جس کو چھڑانا سب سے مشکل ترین ہے ۔
جتنا فزیکلی نقصان سگرٹ کے دھویں اور آگ سے ہوتا ہے ۔ اس سے زیادہ ایموشنل اور مینٹلی نقصان بچے کے ایک وڈیو گیم سے ہوتا ہے ۔

اگر کوئی دوسال کے بچے کو موباٸل پر گیمیں لگا کر دیتا ہے ۔تو اس کے ٹوپا من بہت جلدی اور اور کی طلب کرتے ہیں۔ پھر وہ کتنی گولیاں مارے گا ، کتنے جہاز گرائے گا ، کتنے لوگوں کو قتل کرے گا ، اب وہ بور ہونے لگتا ہے، حالانکہ بچوں کو بور ہونے کا پتا، یہ تو بڑوں کی بیماری ہے ۔

بچوں کے تو کھیلنے کے بلاکس بنانے کے اچھلنے کودنے اور تتلیاں پکڑنے کے وقت ہیں۔ وہ بور ہوتے ہیں ۔ جب وقت ان کے کھیلنےکودنے کا تھا ،
تو اس وقت اس کے ہاتھ میں ہم نے موباٸل پکڑا کر ہر کھیل سے مفلوج کر دیا ، اب اس کا کسی بھی فزیکلی کھیل میں دل نہیں لگتا ۔اب ان کو موباٸل سے بڑی چیز چاہیے ۔

ماں باپ کی تربیت بھی نہیں ہوتی ۔ اگر ماں کی تربیت ہوتی تو وہ بچوں کے ہاتھ میں موباٸل کیوں پکڑاتی ؟ اب وہ کلاس کے یا سکول کےکسی بدمعاش یا غلط لڑکے کے ہتھے چڑھتا ہے۔ اور اس کی باتوں میں آکر ڈرگ ، سگرٹ ، نشہ ، ون ویلنگ موٹر ساٸیکل کا عادی ہو جاتا ہے کیونکہ اب اس کے ٹوپامن بڑھ رہے ہیں، اور زیادہ کی طلب کرتے ہیں ۔
اور اس طرح کی خبریں دنیا کو اس لیے نہیں بتائی جاتی ۔ کیونکہ اس سے لوگوں کے اربوں ڈالروں کے بزنس تباہ ہو جاٸیں گے۔
پہلے اس مشین کو دفتری استعمال کے لیےبنایا گیا ، پھر ہر ڈیسک پر پہنچی پھر ہر گود میں اور اب ہر ہاتھ میں ۔ اور دوچار سال تک ایک عینک بنائی جا رہی ہے ، جس سے آپ دنیا میں رہیں گے کہیں ۔ اور دماغی طور پر کہیں اور ہوں گے۔ یعنی دنیا کے اوپر ایک اور عذاب آرہا ہے۔

ہم بڑھے ہیں ہم اس کے بغیر 4 گھنٹے بھی نہیں رہ سکتے تو سوچیں وہ معصوم بچے جن کو ابھی عمریں کچی ہیں۔ وہ اپنا اچھا برا نہیں سمجھ سکتے ۔ تو ان پر اس کے کتنے برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔

اگر آپ کو کوئی کہے جلتا کوٸلہ یا موبائل اس میں سے ایک چیز اپنے بچے کے ہاتھ میں رکھ دو تو آپ بغیر سوچے سمجھے کوٸلہ اس کے ہاتھ پر رکھ دو اس کے نقصان اس موبائل کے نقصان سے بہت کم ہیں ۔ اس سکرین کی وجہ سے ہم دیکھیں گے کہ اگلے 20 سالوں میں ڈیپرسڈ اور خود پسند لوگ ہی نظر آٸیں گے جو اپنے علاوہ کسی کی فکر نہیں کریں گے ۔ یہ بہت خطرناک ہے ۔

ہاں سات سال کے بعد آپ اسے انفورمیشن کمیونیکشن اور ریسرچ وغیرہ کے لیے استعمال کر سکتے ہیں مگر انٹرٹینمنٹ کے لیے بالکل بھی نہیں ۔ اپنے معصوم چھوٹے بچوں کو موباٸل جیسی برائی سے بچاٸیں انھیں جسمانی کھیل کود کا عادی بنائیں.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں