سید ابوالاعلیٰ مودودی کون تھے؟ اس بزرگ کے 45 ویں یوم وفات پر یہ سوال بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اس سوال کی اہمیت دو وجہ سے ہے۔ اول جماعت اسلامی کی قیادت حال ہی میں تبدیل ہوئی ہے اور خیال ہے کہ طویل ایک عرصے کے بعد ایک ایسی شخصیت جماعت کی امارت کے منصب پر فائز ہوئی ہے جو میاں طفیل محمد کے بعد منصہ شہود پر آنے والی تقریباً تمام شخصیات سے مختلف ہے۔
اس کی دوسری وجہ ذرا نازک ہے۔ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ سیاسی اور مذہبی طبقات اس فورم پر اپنے بزرگوں اور قائدین کی عظمت کے گن گاتے ہیں، بالکل اسی طرح اب مولانا مودودی کے لیے القابات استعمال کیے جانے لگے ہیں جیسے امام العصر، مجدد عصر اور فاتح تختہ دار وغیرہ۔ اس قسم کے القابات پڑھ کر ان کے لیے بھی خطیب اسلام، واعظ شعلہ بیاں قسم کے بزرگ کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ کیا واقعی مولانا مودودی ایسے تھے اور اپنے بارے میں وہ اسی قسم کا تاثر پیدا کرنا چاہتے تھے؟
مولانا مودودی جن دنوں اپنے ناقدین کی تنقید کا بدترین نشانہ تھے، کچھ لوگوں کی طرف سے کہا گیا کہ وہ مجدد یا مہدی بننا چاہتے ہیں جس پر انھوں نے جواب دیا کہ وہ کوئی بھی دعویٰ کیے بغیر اس دنیا سے کوچ کر جائیں گے۔ مولانا کا یہی مزاج تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس عہد میں ان کے رفقا اور جماعت کی قیادت نے بھی انھیں القابات دینے سے گریز کیا۔ سید مودودی جیسی شخصیات کے بارے میں اس طرز عمل سے گریز اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے نقطہ نظر اور سیاسی کردار کی وجہ عمومی دینی شخصیات سے مختلف ہوتی ہیں لہٰذا انھیں جب اس قسم کے القابات دیے جاتے ہیں تو ان کی رائے سے اختلاف رکھنے والوں کے ہاں مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے ماحول بھی خراب ہوتا ہے، زیر بحث شخصیت بھی متنازع ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مداح جس شخصیت پر فدا ہوئے جاتے ہیں، وہ خود اس کے مقام اور مرتبے سے ہی واقف نہیں ہیں۔ سبب یہ ہے تاریخ میں ایسی بے شمار شخصیات موجود ہیں جنھیں کوئی لقب نہیں دیا گیا لیکن اس کے باوجود ان کا نام زندہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بعض اوقات القابات اور ٹائٹل کسی شخص اور اس کی خدمات سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ مولانا مودودی کیا تھے اور ان کا مرتبہ کیا ہے؟ یہ سوال اتنا سادہ نہیں ہے۔ مولانا مودودی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے سرسید احمد خان اور ان کے سب سے بڑے نظریاتی حریف علامہ شبلی نعمانی کے درمیان اختلاف کو سمجھا جائے۔ اسے سمجھنے کے بعد یہ جاننا ضروری ہے کہ برصغیر کے ان دو طاقت ور نظریاتی دھاروں کے ہوتے ہوئے اقبال نے ایک عظیم مقام کیسے حاصل کیا؟ سر سید کے بارے میں جیسا ہم جانتے ہیں کہ انھوں نے جدید تعلیم کو چراغ دیا، مسلمانوں کو برطانوی استعمار کے جبر سے بچانے کے لیے ان کے موافق عمل اختیار کرنے کی راہ اختیار کی۔ اس دور میں عقلیت پسندی فروغ پا رہی تھے، اس لیے انھوں نے دین کے بہت سے تصورات کی نئی تعبیر بھی کی۔ جمود کے شکار معاشرے میں یہ تعبیریں ٹھنڈے پیٹوں برداشت کی جا سکتی ہیں اور نہ مذہب کی سکہ بند تعبیر اس کی اجازت دیتی تھی۔ لہٰذا یہ سمجھنا فطری اور ناگزیر تھا کہ ان کا ردعمل ہوتا۔ ان کے ردعمل میں سب سے توانا آواز علامہ شبلی نعمانی کی تھی۔ ان کا نقطہ نظر مختصر ترین الفاظ میں یہ تھا کہ دنیا کی ترقی یہی ہے جو ہمیں بتائی جا رہی ہے لیکن مسلمان کی ترقی یہ ہے کہ وہ صحابہ کرام کے عہد میں صرف معنوی انداز میں نہیں بلکہ عملی اعتبار سے بھی سانس لے۔ اس کے بعد جدید دنیا کی ہوا اسے لگے یا نہ لگے، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ گویا یہ قدیم اور جدید کا فرق تھا یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان دو بزرگوں میں اگر ایک سیاہی کی بات کرتا تھا تو دوسرے کا اصرار سفیدی پر تھا۔
یہ بھی پڑھیے
سعود ساحر، مولانا بھاشانی سے مولانا مودودی تک
سید ابوالاعلیٰ مودودی کی فکر شدت پسندی کو جنم دیتی ہے؟
مولانا مودودیؒ، نوابزادہ صاحب اور آصف زرداری
مسلم برصغیر میں یہ نہایت نازک دور تھا جس میں مسلمان اس مباحثے میں پھنس کر رہ گئے تھے۔ اقبال نے مسلم بر صغیر کو اس نظریاتی کشمکش سے نکالا۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ ذہنی اعتبار سے صحابہ کے عہد میں سانس لینا سعادت کی بات ہے لیکن دور جدید کے چیلنجز اور علمی سوالوں کا جواب کیا ہے؟ پھر انھوں نے جو حکمت عملی اختیار کی وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے عین مطابق تھی جس میں فرمایا ہے کہ حکمت مومن کا گم شدہ سرمایہ ہے، یہ جہاں سے ملے اسے حاصل کر لیا جائے۔ ان کا نظریہ یہ تھا جدید ترین تعلیم حاصل کی جائے حتیٰ کہ فقہ اسلامی کی تشکیل جدید بھی کی جائے لیکن اپنی اصل کو نہ چھوڑا جائے۔
قیام پاکستان کا معجزہ ہو یا بیسویں صدی کی جدید اسلامی تحریکیں، ان سب نے اس قیمتی نظریے کو مضبوطی سے تھام لیا۔
ان کی فکر کا ایک اور اہم نکتہ ان کا خطبہ الہ آباد ہے جس میں انھوں نے بتایا کہ امپریلزم یعنی ملوکیت سے نجات میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری نسل انسانی کی بقا ہے۔ خطبہ الہ آباد کے بعد تو اقبال کو زیادہ وقت نہ ملا لیکن ان کے بعد بھی یہ فکر آگے بڑھتی رہی۔ اس کا کریڈٹ اگر کسی کو جاتا ہے تو وہ صرف ایک ہی شخصیت ہے اور وہ شخصیت ہے مولانا مودودی کی۔
مولانا مودودی اقبال کے جونیئر ہم عصر ضرور ہیں لیکن ان کا اصل زمانہ قیام پاکستان کے بعد کا ہے جب بالکل نئے حالات اور نئے مسائل تھے۔ علامہ اقبال قیام پاکستان کے بعد حیات ہوتے تو یقیناً وہ ان نئے مسائل کے ضمن میں بھی راہ نمائی کرتے لیکن ان کے بعد یہ ذمے داری تنہا مولانا مودودی نے اٹھائی۔ علمی اور فکری میدان میں ان کی خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔
ان کے اپنے مکتبہ فکر کے مطابق تفہیم القرآن ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے جس میں انھوں نے اللہ کی آخری کتاب کو جدید زبان میں اپنے عہد کے لوگوں کے سامنے پیش کیا اور نہ صرف پاکستان، نہ صرف برصغیر بلکہ عالمی سطح پر نظریاتی منظر نامہ ہی بدل دیا۔ اسی طرح اسلام کی مبادیات کے بارے میں دینیات اور خطبات نامی کتابیں لکھ کر عام پڑھے لکھے آدمی کی ضرورت پوری کی جو دینی طبقات کے روایتی لب و لہجے سے خود کو ہم آہنگ نہیں پاتا تھا۔ کچھ ایسا معاملہ ہی ان کے دیگر تحریری اثاثے کا ہے لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ ان کی کتاب ‘ خلافت و ملوکیت ‘ ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے مسلم امہ کے سب سے بڑے مسئلے کو موضوع بنایا اور بتایا کہ یہ جو ایک عام خیال ہے کہ مسلمان دنیا کو کوئی مستحکم سیاسی نظام دینے میں ناکام رہے ہیں، اس کا سبب کیا ہے اور ایسی کیا حکمت عملی ہے جسے اختیار کر کے اس کمزوری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
یہ کتنا بڑا کام تھا؟ اس سلسلے میں پروفیسر فتح محمد ملک کا تبصرہ بہت وقیع اور توجہ طلب ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں ملوکیت یا امپریلزم کے جس استبداد کی نشان دہی کی تھی، مولانا مودودی نے ‘ خلافت و ملوکیت ‘ لکھ کر اسی کام کو آگے بڑھایا۔ یہاں یہ امر ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے کہ یہ بیان نہ جماعت کے اندر سے آ رہا ہے اور نہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، خالد ایم اسحق ایڈوکیٹ یا اے کے بروہی جیسے مفکروں کی طرف سے آیا ہے جو فکری اعتبار سے ان کے ہم خیال اور بعض صورتوں میں ان کے پیروکار تھے۔ یہ بیان پروفیسر فتح محمد ملک صاحب کی طرف آیا ہے جو نظریاتی اعتبار سے ہمیشہ مولانا مودودی کے متوازی دھڑے میں رہے ہیں۔
کیا مولانا مودودی محض نظری کام کر کے مطمئن ہو گئے جیسا عام طور پر دانشوروں اور مفکروں کا طریقہ ہوتا ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ وہ اپنے وقت کے طاغوت کے خلاف خم ٹھونک کر کھڑے ہو گئے۔ انھوں نے اپنے سیاسی عہد کی ہر عملی طور پر آمریت کو چیلنج کیا اور ہمیشہ جمہوری جدوجہد میں شامل رہے۔ یہاں تک کہ سزائے موت کی پروا بھی نہ کی۔ تاریخ یہ حقیقت ہمیشہ یاد رکھے گی کہ مارشل لا کی فوجی عدالت نے انھیں سزائے موت سنائی تھی۔ انھوں نے سب سے بڑی سزا قبول کر لی لیکن جبر کے سامنے سر نگوں نہیں ہوئے۔
نظریاتی میدان میں جہاں ان کی ایک عظیم خدمت اسلام کے سیاسی نظام کی طرف راہ نمائی ہے تو وہیں انھوں نے اسلام کے نظریہ جنگ و جدل کے ضمن میں بھی وہ بات کہیں جس کی سمجھ دنیا کو آج پون صدی کے بعد آ رہی ہے لیکن ان کی خدمات کے اس پہلو کو بھی تاریخی تسلسل میں دیکھنا ضروری ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں تحریک مجاہدین جیسے واقعات کے بارے میں اقبال کی رائے یہ تھی کہ یہ اپنی قوت زائل کرنے کے مترادف ہے جس سے منزل مزید دور ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ یہی سبب تھا کہ اقبال نے مسلمانوں کو سیاسی راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔
قیام پاکستان کے بعد جنگ کا پہلا مرحلہ 1948ء میں آیا۔ مولانا مودودی نے اس وقت کہا کہ اگر ریاست اس جنگ کو تسلیم کرتی ہے تو یہ جہاد ہے ورنہ اس کے نتائج مفید نہیں ہوں گے۔ جہاد افغانستان نامی واقعہ ان کی زندگی میں ہی شروع ہو گیا تھا۔ ان کے اپنے حلقے کے بہت سے لوگ اس جنگ میں نجی یا تنظیمی حیثیت سے شریک ہونا چاہتے تھے لیکن مولانا مودودی نے اسے کبھی درست قرار نہ دیا۔ ان کی زندگی کے بعد ان کے پیروکار اس جنگ میں شریک رہے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ان کے بعد بھی جماعت کے کسی قانونی پلیٹ فارم سے اس جنگ میں شرکت کا کوئی فیصلہ کبھی نہیں ہوا جو کچھ بھی ہوا، بالا بالا ہی ہوا۔ پروفیسر سلیم منصور خالد نے اس کی بیشتر تفصیلات اپنی کتاب ‘ تصریحات ‘ میں لکھ دی ہیں۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے۔ مولانا مودودی کا ذہن جنگ و جدل کے معاملے میں بھی ریاست کے نظام کی طرح بالکل واضح تھا۔ وہ کسی پرائیویٹ شخص یا گروہ کو ہتھیار اٹھانے کا حق دینے کے بالکل خلاف تھے۔ ان کا یہ موقف بھی آج بالکل درست ثابت ہو گیا کہ پرائیویٹ جہاد دراصل فساد کا دروازہ کھولنے والی بات ہے۔
یہ دعویٰ تو درست نہیں ہو گا کہ اس مختصر جائزے میں مولانا مودودی کے علمی مرتبے اور کردار کا تعین ہو گیا۔ یہ شاید آسان بھی نہ ہو لیکن یہ تو ہو سکتا ہے کہ ان کی اصل خدمت کی طرف توجہ مبذول کرا دی جائے۔ مختصر یہ کہ مولانا مودودی اسی چراغ کی لو ہیں جس نے سرسید اور شبلی کی دو انتہاؤں میں اعتدال پیدا کر کے مسلمانوں کو کامیابی کا راستہ دکھایا تھا۔ ہمارے عہد میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ وہ تنگ نظری اور بے راہ روی کے درمیان اعتدال کی آخری اور سب سے قیمتی کڑی ہیں۔
تبصرہ کریں