اللہ رب العزت نے اپنے بندوں میں سے کچھ بندے منتخب فرمائے اور ان کو عام لوگوں کی رشد وہدایت کا ذریعہ بنایا۔اسی رب نے اپنی حکمت کاملہ سے رشد وہدایت کے لیے مبعوث کرنے والے خاص بندوں میں فضیلت اور درجے مقرر فرمائے۔
یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان’ میں سے بعض وه ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے بات چیت کی ہے اور بعض کے درجے بلند کیے ہیں‘ (سورہ البقرہ 253)
سب انبیاء کی امامت اور سرداری کے لیے محمد ﷺ کو منتخب کیا گیا اور خاتم النبین کا اعزاز عطا کیاگیا۔
ہماری خوش بختی ہے کہ ہم امام الانبیاء کی امت کے ایک فرد ہونے پر بجاطورپر فخر کرتے ہیں۔اس قابل فخر بات میں ہماری کوئی تدبیر،کوشش نہیں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے۔
یہ نعمت اسی منعم کی طرف سے ہے جو کہ منعم حقیقی ہے۔ ہم جس نبی کی امت میں شامل ہیں۔ اس نبی کا مقام و مرتبہ کتنا اعلیٰ و ارفع ہے؟ اس کا مختصر مگر مکمل اور بہترین جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت، بزرگی اور شان اقدس کے بعد اس پیغمبر کا مرتبہ ہے۔ کوئی انسان یا فرشتہ یہ مقام و مرتبہ حاصل نہیں کرسکتا۔
بعد ازخدا بزرگ توئی قصہ مختصر
اس عظیم ہستی کی تعلیم کے مطابق، دنیا میں، والدین اور استاد اور دیگر بزرگ رشتے ہیں جو کسی بھی انسان کے لیے محترم و معزز ہوتے ہیں۔ مگر آخری نبی ﷺ کا مقام و مرتبہ تو ان سب رشتوں سے بھی بڑھ کر ہے۔ اپنی ذات سے بھی زیادہ، اپنے نفس سے محبت سے بھی زیادہ محبت کا حق دار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبؐ کو دنیا میں سب سے زیادہ مکرم و معزز رکھا۔ وہ مرحلہ جب نام منتخب کرنے کا تھا تو’محمد اور احمد‘ کا انتخاب ہوا کہ ایسا نام جس میں تعریف اور تحسین کے سارے راز مضمر تھے۔ سیرت وصورت کے لحاظ سے دوسروں میں سب سے زیادہ نمایاں تعریف کا حق دار سب سے زیادہ عزت والا۔
یہ بھی پڑھیے
نبی کا امتی ہونا سب سے بڑا اعزاز
حضورؐ کی دنیا میں تشریف آوری سے پہلے ہی والد کی زندگی کا صفحہ کتاب زندگی میں نہ رہا۔ اسی طرح والدہ بھی حضور کی کم سنی کے دور میں ہی اپنے رب کے پاس حاضر ہو گئیں۔ گویا کہ ان دونوں کا مقصد زندگی ایک عظیم نبیؐ کو دنیا میں لانے کا مقرر کیا گیا تھا۔ اب اس کے جیسا کوئی اور دنیا میں لانا مقصود ہی نہ تھا۔ وہ کوکھ صرف ایک شخصیت کی دنیا میں تشریف آوری کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس شخصیت کے جیسا بھی کوئی نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لیے آمنہ کی گود میں صرف ایک ’چاند‘ طلوع ہوا۔
اسی طرح اللہ الکریم نے اپنے آخری نبیﷺ کو’امی‘ رکھا کہ وہ خود اس عظیم ہستی کا استاد تھا۔ بھلا کوئی استاد ہوتا تو دنیا کیسے اس عظیم نبی کو اپنے استاد سے زیادہ عظیم مان لیتی؟ استاد کا رتبہ، شاگرد سے زیادہ ہونا ایک فطری امر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں کیا تھا جو خاتم النبین اور رحمۃ اللعالمین کو علم سکھانے پہ مامور ہو جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی شان کو براہ راست اپنی شان اور اپنے علم کے تابع رکھا۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا خود ’مربی‘ اور ’استاد‘ ہونا ہی نبیﷺ کے شایان شان تھا۔
‘وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا’
(النجم 3)
کہہ کر نبی کے پیروکاروں کے لیے اطاعت میں آسانی فراہم کی۔احترام کا درجہ سب انسانوں سے بڑھ کر قائم رکھا۔ ہمیں اس مخمصے سے دور ہی رکھا گیا کہ نبیؐ کے استاد یا والدین کا درجہ نبی سے بڑھ کر بھی ہوسکتا ہے۔ اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ ہی کام کررہی تھی کہ نبیؐ کی اولاد نرینہ زندہ نہ رہی۔ اس لیے کہ امت کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہوجائے اور افراط و تفریط کے عمل میں ایمان نہ کھو بیٹھے۔ جذباتی قومیں جب افراط و تفریط کے چنگل میں پھنستی ہیں تو شرک سے کم عمل پہ نہیں رُکتیں اور شرک ہی وہ ظلم عظیم ہے جو کوئی فرد یا قوم اپنے اوپر خود کرتی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اولاد میں بیٹیاں بھی حضورﷺ کی زندگی میں وفات پا گئیں سوائے سیدہ فاطمۃ الزھراؓ کے، وہ بھی کارگاہ حیات میں چند مہینوں سے زیادہ نہ رکھی گئیں۔ اس لیے کہ محبت و عقیدت میں ’غلو‘ شامل نہ ہو جائے۔ ان سارے صحابہ وصحابیات کی شعوری عظمت کو سلام ہے جنہوں نے حضور اکرم ﷺ سے رشتہ داریاں نبھائیں۔ نسب کی، سسرال کی رشتہ داریاں، یہ ایک ایسا نازک مرحلہ تھا جس میں افراط وتفریط کا عمل ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے مترادف تھا۔ غلو سے بچتے ہوئے، احترام و عظمت اور اطاعت کے سارے تقاضے پورے کرتے ہوئے۔ کسی نبی کے ساتھ جبکہ وحی نازل ہو رہی ہو۔ نسب و صہر کی تعلق داریاں نبھانا پل صراط پر چلنے جیسا ہی ہوتا ہے۔
انسان کی کمزوری ہوتی ہے کہ وہ عقیدت میں افراط اور نفرت میں تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں اور خاندان، قبیلہ، قوم، اسی رویے میں بہت دور جاپہنچتے ہیں۔
ہر نبیؐ کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان کی قوموں نے سیدھے راستے کی پٹڑی سے اترنے کا یہی طریقہ اختیار کیا۔ شیطانی وار اسی راستے سے کارگر ثابت ہوتا آیا ہے۔ اسلام نے اس معاملے میں بہترین راستہ دکھایا ہے۔ عقیدت کا ایک ہی پیمانہ مقرر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد اس کا رسول اور دونوں کے درمیان کسی فلسفہ، علم، عقل کی گنجائش نہیں۔ جس طرح اللہ کی عبادت میں کوئی شریک نہیں اسی طرح رسول اللہ ﷺکی اطاعت و محبت عقیدت میں کوئی شریک نہیں۔ سب کچھ اتباع رسول میں ہے اور رسول کی اطاعت پہلا زینہ ہے۔
قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی۔
کوئی دانش ، کوئی عقلی دلائل اللہ کے رسول کی اطاعت میں حائل نہیں ہوسکتے اور کوئی’اسوہ حسنہ‘ کی جگہ نہیں لے سکتا۔ رسول کا مقام عظیم ہے، بلند ہے مگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی شان اقدس اور مقام بلند کے تحت ہے۔ یہ مقام نہ بڑھ سکتا ہے نہ کم ہو سکتا ہے۔
اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا مقام بعد میں آنے والے مسلمانوں سے بڑھ کر اور نبی ﷺ کے مقام و مرتبہ اور اسوہ حسنہ کے تحت ہے۔ صحابہ کرام کا یہ مقام نہ کوئی کم کرسکتا ہے نہ بڑھا سکتا ہے۔
بحیثیت انسان صحابہ کرام کی بشری کمزوریوں کو ہتک اور نفرت کا نشانہ بنانا ان کے ساتھ زیادتی ہے اور ان کمزوریوں کی وجہ نزاع بنا کر تفرقہ پیدا کرنا ظلم ہے۔ صحابہ کرام میں عزت و شرف کا جو مقام خود نبی ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے متعین فرما دیا، اس پر ادنیٰ درجے کا اشارہ یا اعتراض بھی نبیؐ کے سامنے گستاخی کرنا ہے۔
صحابہ کرام کے بعد وہ بزرگان دین جس کی بدولت ہم تک دین پہنچا اور دین کو سمجھنے کے آسان راستے ہم پہ کشادہ ہوئے۔ ان کا احترام ہم پر واجب ہے۔ وہ ہمارے استاد ہیں اور ان کے احسانات کا بدلہ ہم چکانے سے قاصر ہیں۔اگر ہم ان سب کے لیے اعمال صالحہ کے ذریعے صدقہ جاریہ بن جائیں تو ہمارے لیے بھی اللہ تعالیٰ صدقہ جاریہ کا انتظام فرما دے گا۔
اسی طرح باہم انسانی رشتوں کا احترام، اطاعت کی تربیت اتنی واضح ہے کہ اس میں شک و شبہ یا کسی الجھاؤ کا سوال پیدا نہیں ہوتا اور ترتیب قائم رہے تو بہترین پرسکون معاشرہ تشکیل دینے میں کوئی امر مانع نہیں ہوتا اور ہر پہلو سے ہر رشتہ اپنے متعین مقام پر فیض اٹھاتا بھی ہے اور فیض پہنچاتا بھی ہے۔ ہر رشتہ اپنے متعین دائرہ میں مصروف عمل رہتا ہے اور انسانی فطری کمزوریوں کو درگزر کرنے، برداشت کرنے کا ماحول خود بخود بن جاتا ہے۔ وقت اور حالات اس میں تبدیلی لاتے بھی ہیں تو بنیادی تعلیم اطاعت اللہ اور اطاعت رسول کا کامل شعور، قدم ڈگمگانے نہیں دیتا کہ ارد گرد کے باشعور افراد بھی اس کو سہارا دینے کو موجود ہوتے ہیں۔
حقوق و فرائض کی جنگ تو وہاں ہوتی ہے جہاں ان کا تعین نہ کیا گیا ہو۔ متعین ڈیوٹی اور ذمہ داری کے بارے میں خلجان کسی بھی فرد کا قوم کے لیے بھٹکنے کا باعث بن سکتا ہے۔
بحیثیت انسان کیا ذمہ داریاں ہیں؟ اور امت مسلم کا فرد ہونے کے کیا تقاضے ہیں؟ اور مسلمان ہونے کے ناطے حقوق العباد کی کیا ترتیب ہے؟
دنیا کی ساری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ وہ فرد ہو، خاندان ہو یا قوم، کسی کو بھی اپنی متعین ڈیوٹی سے روگردانی، غفلت، خلجان، بغاوت اور معاملات میں افراط و تفریط سے، سوائے خسارے اور انتشار کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اس کے رسول کی اطاعت سے شروع ہونے والی ترتیب میں الٹ پھیر معاشرہ کو پراگندہ کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ساری کائنات کا مالک ہے اور اس کو اس نے ایک مکمل ضابطے میں جکڑ رکھا ہے اور اس کائنات میں کرہ ارض کی بھی ایک ترتیب ہے۔ اس کے باسیوں کو بھی خاص ضابطے کا پابند کیا ہے۔ ان کو بھی اپنی منزل کی طرف رواں دواں رکھنے کا ایک سیدھا راستہ بتایا ہے۔ ہر انسان کی ایک ترتیب ہے۔ انسان پیدا ہوتا ہے، شیرخواری،بچپن، لڑکپن، جوانی، ادھیڑ عمری ،بڑھاپا کی ترتیب سے گزرتے ہوئے کشاں کشاں منزل کی طرف چلتا رہتا ہے۔ حتی کہ اپنے رب سے جاملتا ہے۔ اللہ کی مقرر کردہ اس ترتیب میں خلل ڈالنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ یاد رہے کہ اسی طرح محبت،اطاعت، تعلق، حقوق و فرائض کی جو ترتیب اللہ نے بندوں کے درمیان بنا دی ہے ۔اس نے اسی ترتیب سے اپنے بندوں کا محاسبہ بھی کرنا ہے۔
تبصرہ کریں