رمضان کے بعد ہمارے معاملات و معمولات

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی

ماہ غفران رمضان کے فراق پر دل اداس اور مغموم ہیں، آنکھیں بار بار نم ہوتی ہیں، اس کی رحمتوں اور برکتوں کا بار بار خیال آتا ہے کہ نیکیوں کا یہ خوبصورت موسم بہار ہم سے رخصت ہو رہا ہے لیکن رمضان ایک جامع اور دلکش طرز حیات اور تبدیلی کا نقطہ آغاز بھی ہے۔ اس سے حاصل شدہ تربیت سارا سال ہماری زندگی کا حصہ بنے رہنا چاہیے۔ اور ہم سال بھر اس کے مطابق جی سکیں ۔

رمضان المبارک کے گزرنے سے پہلے بھی ہمارے لیے اپنا جائزہ لینا ضروری ہے اور اس کے بعد بھی یہ پریکٹس جاری رہنی چاہیے۔
حضرت أبو ہريرة رضي اللہ عنه سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :
”رَغِمَ أنفُ رجلٍ دخلَ علَيهِ رمضانُ ثمَّ انسلخَ قبلَ أن يُغفَرَ لَهُ.“
ترجمہ:”اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جسے رمضان نصیب ہوا، پھر اس کی مغفرت کے بغیر ہی رخصت ہو گیا۔”
( سنن ترمذي : 3545، صحيح )

رمضان کے بعد ہمارے لیے یہ کام بنیادی، ضروری اور بہت اہم ہیں۔
1. رمضان کی نیکی و تقویٰ اور تربیت کا معیار برقرار  رکھنے کی کوشش کرنا
2. چاند رات، اور عید الفطر کے دن شرعی احکام کی پابندی کرنا۔ فطرانہ کے علاوہ عید الفطر کی نماز کی ادائیگی کے وقت اپنی عیدی میں سے کچھ حصہ مسجد کے فنڈ باکس میں ڈالنا اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا
3. عبادات خصوصاً نماز پنجگانہ اور تلاوت قرآن مجید، دعا مانگنا اور حسب توفیق کچھ نہ کچھ صدقہ کرتے رہنا وغیرہ میں استقامت اختیار کرنا
4. شوال کے چھ نفلی مسنون روزے رکھنا
5. اگر کسی شرعی عذر کی بنا پر ایک یا زائد روزے چھوڑے ہیں، تو ان کی قضا ادائیگی میں جلدی کرنا۔
6. رمضان کے تربیتی کورس سے گزرنے کے بعدفرائض، سنتوں اور نوافل کا ایسا عادی بن جانا کہ یہ ہماری عادات ثانیہ بن جائیں۔ ہمایک نئی اور صالح زندگی کا حامل بن جائیںاور ہماریحیات میں اس طرح کا انقلاب رونماہوجائےکہ ہماری زندگی رمضان کا تسلسل معلوم ہو ۔
7. رمضان سے قبل شرعی احکام پر عمل پیرا ہونے میں ہماری کوتاہیوں اور خطاؤں کی وجہ سے ہماری زندگی میں گناہوں کی جو بہتات تھی، تو اس سے ہم مکمل طور پر اجتناب کریں۔ اور رمضان کی فیوض و برکات کو جاری رکھنے کی کوشش کریں۔

اللہ تعالیٰ نے مومنوں کا یہ حال بیان فرمايا ہے کہ:
وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ۔ (المؤمنون: 60)
ترجمہ: "اور جو لوگ اللہ کے لیے جو کچھ دیتے ہیں ، اسے دیتے ہوئے ان کے دل ڈرتے رہتے ہیں کہ بے شک انہیں اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔”

عبادات کی قبولیت کا معیار یہ ہے کہ انسان کو رمضان کے بعد بھی نیکی کرنے کی توفیق ملتی رہے اور عبادات کا یہ خوبصورت سلسلہ جاری رہے۔ کیونکہ روزہ ختم نہیں ہوتا اور نہ قرآن مجید کو چھوڑا جاتا ہے۔

ماہ شوّال کے چھ روزے
ماہ شوال کے چھ روزوں کی بڑی اہمیت و فضیلت ہے۔ ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ایک سال مکمل روزہ رکھنے کا ثواب عطا فرماتے ہیں۔ حضرت ابو ايوب سے روايت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمايا کہ:
مَن صام رمضان ثم أتبعه ستا من شوال كان كصيام الدهر۔ (صحيح مسلم: 1164) ترجمہ: "جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے، پھر شوّال کے چھ روزے رکھے گويا اس نے سال بھر کے روزے رکھے۔”

کيونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ :
مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا۔ (الأنعام: 160)
ترجمہ: "جو شخص ایک نیکی کرے گا، اسے اس کا دس گنا (بدلہ) ملے گا۔”
اس حکم کے مطابق ايک ماہ کے روزے دس ماہ کے برابر اور چھ دن کے روزے دو ماہ کے برابر، تو يہ کل 360 دن یعنی بارہ ماہ اور پورے سال کے برابر ہوئے ۔

يہ روزے پورے ماہ شوال ميں مسلسل بھی رکھے جا سکتے ہیں اور وقفے وقفے سے بھی۔ کيونکہ حديث ميں ايک ساتھ رکھنے يا مسلسل رکھنے کی پابندی بیان نہیں کر کی گئی۔اسی طرح یہ روزے دو شوال سے شروع کرنے کی بھی کوئی شرعی قيد نہيں۔

رمضان کے فراق پر غم کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے جس نے ہمیں اس تک پہنچایا۔ اور خوش ہونا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور حمد وثناء بیان کرنی چاہیے کہ اس نے ہمیں صیام و قیام، سحری و افطاری، مناجات و دعاؤں، صدقہ و خیرات اور خدمت خلق کی توفیق دی۔ اگر رب تعالیٰ اپنی بارگاہ میں ہمارے ٹوٹے پھوٹے اعمال صالحہ قبول فرمالیں تو پھر ہمارے لیے کامیابی کی نوید ہے!!!
پھر ہمارے لیے اگلی منزلوں میں علم و عمل کی آسانیوں کی مسرت ہے!!!

                              **********


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں