حامد میر ، پاکستانی صحافی ، اردو تجزیہ نگار ، کالم نگار

سیاست دان ایک بار پھر جرنیلوں کے جال میں پھنس جائیں گے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

معروف صحافی ، تجزیہ نگار اور اینکرپرسن حامد میر نے کہا ہے کہ اس وقت جو لوگ آئین کی خلاف ورزی پر اترے ہوئے ہیں ، اور انتخابات کا التوا چاہتے ہیں ، دراصل ایک جال میں پھنس رہے ہیں۔ اگر آپ اس آئین کی خلاف ورزی کریں گے تو یہ پاکستانی عوام کی اجتماعی دانش کی توہین ہے۔ جو توہین کرتا ہے ، اسے سزا بھی ملتی ہے ، خواہ فوجی ڈکٹیٹر ہو یا سیاست دان ۔ بدقسمتی سے آج پارلیمنٹ بھی آئین کی خلاف ورزی پر اتری ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جو بھی آئین کی توہین کرتا ہے ، اسے سزا ملتی ہے ،

دنیا ٹی وی سے ایک انٹرویو میں حامد میر سے پوچھا گیا ، جب بھی ملک میں سول ملٹری تنازعہ شروع ہوتا ہے ، کسی حکومت کے ساتھ ، کیا اسے ٹالا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ حامد میر کا کہنا تھا کہ ایسے تنازعات کو ٹالا جاسکتا ہے۔

” انیس سو تہتر کا آئین پاکستان کے اس وقت کے سیاسی قائدین کی اجتماعی دانش کا عکس ہے۔ یہ آئین کسی ایک پارٹی نے نہیں بنایا۔ سب پارٹیوں نے بنایا ہوا ہے، اگر آپ اس آئین کی خلاف ورزی کریں گے تو یہ پاکستانی عوام کی اجتماعی دانش کی توہین ہے۔ جو توہین کرتا ہے ، اسے سزا بھی ملتی ہے۔ ”

"جنرل ضیا کو آج تک سزا ملتی ہے ، لوگ اس کی برسی نہیں مناتے۔ ایوب خان نے انیس سو چھپن کا آئین توڑا تھا ، پاکستان میں اس کی کوئی برسی نہیں مناتا۔ یحییٰ خان کے یوم وفات کا کسی کو پتہ ہی نہیں ہے۔ جنرل مشرف کی جس طریقے سے تدفین ہوئی ہے ، وہ سب کے سامنے ہے۔ یقینا کچھ لوگوں نے اسے گارڈ آف آنر دیا ہے لیکن عوام کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ ”

حامد میر نے کہا: "یہ فوجی ڈکٹیٹرز تھے جنھوں نے آئین توڑا۔ بدقسمتی سے آج پارلیمنٹ بھی آئین کی خلاف ورزی پر اتری ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ سے ایک قرارداد منظور کروانا چاہتے ہیں کہ عام انتخابات اگلے سال تک ملتوی کردیے جائیں۔ جو بھی آئین کی توہین کرتا ہے ، اسے سزا ملتی ہے ، خواہ فوجی ڈکٹیٹر ہو یا سیاست دان ۔ اگر کسی سیاست دان نے اس آئین کی خلاف ورزی کی ، اسے سزا ضرور ملے گی۔”

حامد میر سے پوچھا گیا کہ جنرل مشرف کو برطرف کرنا نواز شریف کی غلطی تھی یا ان کا حق تھا ؟ انھوں نے کہا :
یہ نواز شریف کا صوابدیدی اختیار ضرور تھا ، لیکن پرویز مشرف کو پہلے سے پتہ تھا کہ یہ مجھے برطرف کرے گا ، پھر اس نے ردعمل میں جو کچھ کرنا تھا ، اس کا منصوبہ بھی تیار تھا۔ جنرل ( ر ) شاہد عزیز کی کتاب ” یہ خاموشی کب تک ؟ ” پڑھیں ۔ اس نے لکھا ہے کہ ہم پہلے سے تیار بیٹھے ہوئے تھے۔ حامد میر نے کہا کہ سیاست دانوں کو ایسی غلطیوں سے گریز کرنا چاہیے کہ وہ فوجی جرنیلوں کے جال میں پھنس جائیں۔ اس وقت جو لوگ آئین کی خلاف ورزی پر اترے ہوئے ہیں ، اور انتخابات کا التوا چاہتے ہیں ، یہ دراصل ایک جال میں پھنس رہے ہیں۔

کیا عمران خان جنرل باجوہ کو برطرف کرنا چاہتے تھے ؟جب اس حوالے سے حامد میر سے قصہ معلوم کرنا چاہا تو انھوں نے بتایا کہ عمران خان اپریل کے مہینے میں جنرل باجوہ کو فارغ کرکے اپنی مرضی کا آرمی چیف لانا چاہتے تھے ، دو ہزار بائیس ہی میں نئے عام انتخابات کروانا چاہتے تھے ، جائز ، ناجائز حربے استعمال کرکے دو تہائی اکثریت حاصل کرنا چاہتے تھے ، اور وہ اس آئین کو بدلنا چاہتے تھے جس کے احترام کی میں بار بار بات کر رہا ہوں۔ وہ صدارتی نظام لانا چاہتے تھے۔ انھیں اس کی سزا مل گئی۔

اب عمران خان کا سیاسی مستقبل اور عوام میں مقبولیت ؟حامد میر نے کہا کہ جس طرح بے نظیر بھٹو کو سیاست سے نکالا گیا ، وہ جلا وطنی میں رہیں ، پھر واپس آگئیں۔ نواز شریف کو نکالا گیا ، وہ سن دوہزار میں باہر گئے ، پھر واپس آگئے، اور وزیر اعظم بن گئے ۔ پھر باہر چلے گئے، پھر واپس آئیں گے۔ پتہ نہیں دوبارہ وزیر اعظم بنتے ہیں یا نہیں۔ آپ سیاست دان کو صرف چار ، پانچ سال کے لئے نکال سکتے ہیں ، وہ دوبارہ واپس آ جاتا ہے۔ اس لئے عمران خان کو صبر کرنا چاہیے ۔ اگر اس بار انھیں اقتدار میں نہیں آنے دیا جاتا ، وہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں ، اگلی بار برسراقتدار آ سکتے ہیں۔

جب حامد میر سے پوچھا گیا کہ عمران خان دوبارہ برسراقتدار آتے ہیں تو کیا وہ جنرل باجوہ پر آئین کی دفعہ چھ کے تحت بغاوت کا مقدمہ چلائیں گے؟ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے بارے میں مجھے علم نہیں ہے ، لیکن شہباز شریف کے پاس ثبوت موجود ہیں کہ جنرل باجوہ پاکستان میں مارشل لا لگانا چاہتے تھے ، اگر شہباز شریف چاہیں تو وہ بھی ان پر دفعہ چھ کے تحت مقدمہ قائم کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔

راحیل شریف نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے نواز شریف پر زیادہ دبائو ڈالا تھا یا جنرل باجوہ نے شہباز شریف اور نواز شریف پر زیادہ دبائو ڈالا ؟ اس سوال کے جواب میں حامد میر نے کہا کہ راحیل شریف بالواسطہ طور پر دبائو ڈالتے تھے ، وہ سامنے آئے بغیر دبائو ڈالتے تھے ، جنرل باجوہ براہ راست دبائو ڈالتے تھے ، وہ تو مارشل لا کی دھمکیاں دیتے تھے ۔

نواز شریف نے جنرل باجوہ کو مدت ملازمت میں توسیع نہیں دی۔ جب وہ دو ہزار سولہ میں علاج کے لئے باہر گئے تھے ،” انھیں کہا گیا تھا کہ واپس نہ آئیں ۔ وہ واپس آگئے لیکن پھر انھیں نااہل کروادیا گیا۔ ہوسکتا ہے کہ عمران خان کو بھی نااہل کروا دیا جائے۔ جس طرح نواز شریف واپس آئیں گے ، عمران خان بھی واپس آئیں گے۔”


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “سیاست دان ایک بار پھر جرنیلوں کے جال میں پھنس جائیں گے؟”

  1. Zubada Raouf Avatar
    Zubada Raouf

    Informative