وینس ( اٹلی ) میں شہر ایک قدیم ، پرسکون حصہ

ایک بنجارن کا سفر یورپ ( قسط 1 )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

تزئین حسن

انڈیانا جونز کا کشتی سے اترنا اور دراز قامت حسینہ ڈاکٹر شنائیڈن کے ساتھ سیڑھیاں چڑھ کر وینس کی ایک نہر پر بنے ننھے سے پل کو عبور کرنا تو ہمیں یاد تھا لیکن وینس کے تاریخی مرکز ، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پانی پر ہے کیسے پہنچنا ہے ، اس کا کوئی آئیڈیا نہیں تھا۔

ابن بطوطہ کے حج کے سفر پر بننے والی فلم میں دیکھا کہ اس نے مراکش سے مکہ تک کا سفر کاروان کے ساتھ کرنے کے بجائے اکیلے ہی سفر ترتیب دیا۔

ہم نے بھی پہلی دفعہ مصر میں ایک ٹریول پیکج لیا ، اس کے بعد گروپ ٹریول سے عملاً توبہ کر لی ۔ ہم جیسے آزاد منشوں کے لئے گروپ کی اور ٹریول ایجنٹ کی ترتیب کردہ پابندیوں سے جکڑا ہوا سفر ایک ٹارچر سے کم نہیں ۔ اپنے ذاتی ترتیب دئیے گئے سفر میں ہم راستے بھی بھٹکتے ہیں اور فورا فیصلے بھی کرتے ہیں اور اکثر غلط فیصلے بھی کرتے ہیں ۔ اس میں کبھی کبھی انگریزی اور اردو دونوں کا سفر بھی ہو جاتا ہے ۔ کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ ڈیڈ اینڈ آگیا ہے ۔ اسی لئے ہم اپنے تئیں اپنے آپ کو ابن بطوطہ کا فکری یا سفری وارث سمجھتے ہیں۔

تزئین حسن ، مصنفہ

118 جزیروں اور 700 پلوں کے ملاپ کے نتیجے میں ظہور میں آنے والے اس عجوبہ شہر ” وینس ” میں پہنچنے سے پہلے اللہ کی کا کرنا ایسا ہوا کہ ہم تین افراد پر مشتمل فیملی آپس میں بچھڑ گئی ۔

گاڑی لے جانے کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا کہ اٹلی کے دوسرے سیاحتی اہمیت کے شہروں میں بھی ، اب شہر کے تاریخی مرکز میں سیاحوں کو گاڑی لے جانے کی اجازت نہیں ہے ۔ روم میں ہم دونوں دن تاریخی مرکز کے باہر ٹھہرے ۔ فلورنس میں گاڑی ایک پارکنگ میں کھڑی کرکے بس سے اپنے ایئر بی این بی پہنچے ۔

وینس میں صورت حال اور مخدوش تھی ۔ آدھا دن فلورنس میں گزار کر کوئی تین بجے کے قریب وینس پہنچے ۔ پانی والے تاریخی شہر کو وینس کے میٹرو پولیٹن شہر سے ملانے کے لئے تقریباً چار کلومیٹر طویل برج ہے جو ” لبرٹی برج ” کہلاتا ہے ۔ اس کے ایک سرے پر میسترے نامی علاقہ ہے جو میٹرو پولیٹن سے ملحق ہے اور دوسرے سرے پر پیازیل روما جو جزیروں سے ملحق ہے ۔

پیازییل روما سے ہی وینس کے سینٹ مارک اسکوئر اور دیگر جزیروں مثلاً برانو اور مرانو کے لئے کشتیاں چلتی ہیں ۔ یاد رہے کہ پیازیل اطالوی میں اسکوئر کو کہتے ہیں ۔

ہم اس امید پر اس پر چڑھتے رہے کے آگے پارکنگ مل جائے گی ۔ پل کے دوسرے سرے پر موجود پارکنگ چوبیس گھنٹے کے واحد آپشن کے ساتھ 22 یورو پلس ٹیکس میں ہمیں مہنگی لگی ۔ خصوصاً اس لئے کہ رات ٹھہرنے کا ارادہ نہیں تھا ۔ سوچا دو تین گھنٹے شہر میں گزار کر آگے یورپ کے فیشن کیپیٹل ” میلان ” کی راہ لیں گے کہ دوسرے دن سوئیزرلینڈ ہماری راہ تک رہا تھا۔ لبرٹی برج سے یوٹرن لیا توواپسی پرمناسب پارکنگ اس کے دوسرے سرے میسترے پر مل گئی ۔

خدا خدا کر کے پارکنگ ملی تو اب دور دور تک رکشا نہ ٹیکسی نہ چنگچی ۔ بس کا پوچھنے پر پارکنگ بوتھ پر موجود بابے نے مین روڈ کی طرف اشارہ تو کر دیا لیکن بس کے ٹکٹ کہاں سے ملنا ہیں یہ نہیں پتہ ۔ آخر کار اس امید پر بس اسٹاپ پہنچے کہ شاید لندن کی طرح یہاں بھی کریڈٹ کارڈ سے ٹکٹ خرید سکیں گے ۔

دو ہی منٹ میں میسترے کے اسٹاپ پر بس پہنچ گئی ۔ اب ہم اس انڈر سٹینڈنگ بلکہ مس انڈر سٹینڈنگ پر پچھلے دروازے سے بس میں چڑھ گئے کہ پیچھے باقی فیملی بھی چڑھ گئی ہے ۔

ڈرائیور تک پہنچ کر کریڈٹ کارڈ لہرایا کہ اٹلی کے دوسرے دورے کے تیسرے دن تک بھی اطالوی سے نا بلد ہی تھے۔ ڈرائیور نے نہ صرف جواب دینے سے انکار کردیا بلکہ جواب میں بس چلا دی ۔ اب صورتحال یہ تھی کہ انٹرنیشنل رومنگ صرف ہمارے ہی موبائل پر کام کر رہی تھی ۔ اور جس سنسان میسترے اسٹاپ پر باقی فیملی یعنی ہمارے نامدار اور دختر نیک اختر کھڑے تھے ، وہاں وائی فائی کا تو سوال ہی نہیں تھا ۔

ہمارے تقریباً رو دینے والے تاثرات پر قریب کھڑے ایک صاحب نے ہمیں تسلی دی کہ تھوڑی دور کی بات ہے پھر آپ واپسی کی بس لے کر واپس جا سکتی ہیں ۔

برج کی دوسری طرف پیاذیل روما پہنچے تو وہاں بسوں کا اژدھام کہ وہیں سے تاریخی مرکز کے لئے کشتیاں چلتی تھیں ۔ گرینڈ کنال بھی نظرآ رہی تھی لیکن ہم خاندان کے غم میں نڈھال ۔ فوراً میسترے واپسی کی بس پکڑی۔

راستے میں اسکارف میں ملبوس ایک بنگالی نوجوان لڑکی نے جو وینس کے تاریخی مرکز میں کام کرتی تھی اور میسترے میں رہتی تھی نہ صرف تسلی دی بلکہ ہمیں وینس کے بارے میں کچھ جانکاری بھی فراہم کی مثلاً کون سی فیری لینی چاہیے اور کہاں سے ملے گی اور کس اسٹاپ پر اتارے گی ۔

اب میسترے پر اتر کر اوور ہیڈ برج عبور کرکے واپس اسٹاپ پر اترے جہاں میاں اور بیٹی کو چھوڑ کر گئے تھے تو دونوں گنجے کے سر پر بال کی طرح غائب ۔ ہم دو تین سو میٹر چل کر پارکنگ میں گاڑی تک گئے کہ شاید ہمارے غم میں گاڑی میں جا کر بیٹھ گئے ہوں گے ۔ وہاں بھی صرف لاکڈ گاڑی کا دیدار ہی نصیب ہوا۔

مرتے کیا نہ کرتے پھر اسٹاپ پہنچے کہ یورو اور کریڈٹ کارڈ تو ہمارے پاس بھی تھا ۔ پیچھے رہ جانے والوں کی پرواہ کب تک کی جا سکتی ہے ۔ واپسی کے سفر میں بیٹی کی واٹس ایپ پر کال آ گئی کہ ہم پا ذیل روما یعنی لبرٹی برج کے دوسرے سرے پر پہنچ چکے ہیں ، یہیں آجائیں ۔

وینس ( اٹلی ) شہر کا مرکز

کال کسی پیزا شاپ کے وائی فائی سے ہو رہی تھی یعنی ہمارے بغیر پیزا اڑایا جا رہا تھا ۔ اب پیازیل روما پہنچ کر چاروں طرف نظریں دوڑائیں ، بسوں کے ساتھ ساتھ سیاحوں کا بھی اژدھام مگر پیچھے رہ جانے والے ندارد ۔

سورج غروب ہونے میں کچھ ہی دیرتھی ۔ ہم نے سوچا ابھی نہیں تو کبھی نہیں ۔ سیدھے فیری کا ریٹرن ٹکٹ ، ٹکٹ کاؤنٹر سے پکڑا اور گرینڈ کینال کی سیر کو تنہا چل دیئے ۔ جلدی میں پچاس یورو کا نوٹ بھی کاؤنٹر پر موجود اطالوی بھائی سے لینا بھول گئے جسے غالباً انھوں نے بخسشش سمجھ کررکھ لیا ۔ پچاس کا نوٹ ہاتھ میں لے کر ان کا کہنا تھا کہ یہ بڑا نوٹ ہے ، آپ کریڈٹ کارڈ سے پیمنٹ کردیں ۔ ہم نے پیمنٹ تو کارڈ سے کردی مگر ہم جیسے غائب دماغ افراد کے لئے اس انداز میں بخشیش دینا روز کا معمول ہے ۔ ایسے میں کریڈٹ کارڈ کی قدر آتی ہے ۔

وینس ( اٹلی ) شہر کا مرکز

تھوڑی دیر بعد بیٹی کی کال آئی ، پتہ چلا ابھی تک پیا ذیل روما پر پیزا تناول کیا جا رہا ہے ۔ ہم نے بھی اپنے آپ کو سمجھایا کہ تھوڑا بہت روشن خیالی سے کام لینا چاہیے ۔ آخر ہرایک کی اپنی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں ۔ جب تک آپ لوگ پیزا کھائیں ، ہم وینس تاریخی مرکز سے ہو کرآتے ہیں ۔

سینٹ مارکو کے اسٹاپ پر فیری سے اتر کر کچھ دیر وینس کے بازاروں میں مٹر گشت کرتے رہے ۔ سیاحوں کا رش اور بھانت بھانت کی دکانیں ۔ کچھ کچھ مکّہ شہر کی یاد آ رہا تھا ۔ میاں اور بیٹی کی عدم موجودگی کے باعث زیادہ عیاشی کی گنجائش نہیں تھی اس لئے کچھ دیر بعد واپسی کی فیری پکڑی ۔

اس دفعہ پیچھے رہ جانے والے اسٹاپ پر سراپا انتظار تھے لیکن دونوں کا کہنا تھا کہ ہمارا وینس جانے کا موڈ نہیں ۔ تھکن بہت ہے اب شہر چل کر ہوٹل لیتے ہیں ۔ دوبارہ میسترے کے لئے بس لی اور بیٹی کو موبائل پکڑا کر کہا کہ شہرمیں کوئی ہوٹل دیکھو ۔

وینس ( اٹلی ) شہر کا مرکز

شہر پہنچ کر خیال آیا کہ اگر رات یہیں رکناہے تو تاریخی مرکز میں ہی کیوں نہ رکیں ۔ گاڑی کی پارکنگ تو 24 گھنٹے کے لئے ویسے ہی ادا کر چکے ہیں ۔ تاریخی مرکز میں رہائش شہر کے مقابلے میں مہنگی یقیناً ہوتی ہے لیکن یہ قیمتی وقت بچاتی ہے اور تاریخ و سیاحت کے ذوق کو تسکین دے کر لطف دوبالا کر دیتی ہے ۔ بکنگ ڈاٹ کام پردو سو کینیڈین ڈالر کے مساوی یورو میں تین بیڈ کا ایک پرائیویٹ روم ملا۔

پیازیل روما واپس پہنچ کر بیٹی نے بتایا کہ تقریبا 900 میٹر چلنا پڑے گا۔ اسی وقت یہ بات معلوم ہوئی کہ تاریخی مرکز کے لئے خشکی کا راستہ بھی موجود ہے ۔ بعد میں محسوس ہوا کہ پورے سفر کا سب سے زیادہ دانش مندانہ فیصلہ یہی تھا ۔ سچی بات ہے کہ اس واک کے دوران میں اصلی وینس دیکھنے کا موقع ملا ۔ پتلی پتلی گلیاں بغیر پلستر اینٹوں کے مکانات ، جگہ جگہ چھوٹے پیاذیل یعنی چوراہے میدان ۔

ہاسٹل میں ہمارا کمرہ ، وینس ( اٹلی )

بکنگ ڈاٹ کام پر تو شاید 900 میٹر بتایا تھا لیکن تاریخی مرکز میں ٹیڑھی میڑھی گلیوں اور متعدد چوراہوں سے گزرتے ہوئے جو میدان کی شکل میں ہوتے تھے کوئی سوا کلومیٹر چلنے کے بعد بالآخر آٹھ بجے ہاسٹل پہنچے ۔ راستے میں ایک بنگالی بھائی کی دکان سے کچھ بنگالی مٹھائی اور ایک اطالوی کی بیکری سے ڈبل روٹی خریدی ۔

ہاسٹل وینس کی ایک پرانی عمارت میں تھا جسے وینشین طرز پر پرانے طرز سے سجایا گیا تھا ۔ ونٹیج یعنی قدیم پینٹنگز اور پرانا فرنیچر دیکھ کر ہم تو نہال ہی ہوگئے ۔

ہاسٹل میں ہمارا کمرہ ، وینس ( اٹلی )

بڑی بڑی مونچھوں اور سرخ و سفید چہرے والا ہاسٹل کا مالک شکل ہی سے اصلی تے وڈا وینشین لگ رہا تھا ۔ شاید اس سے قبل اسے مرچنٹ آف وینس ” میں دیکھا تھا۔ ہمارے استفسار پراس کا کہنا تھا کہ وی آر سیلرز ، وینشینز آرسیلرز۔”

ڈھائی یورو سٹی ٹیکس فی مسافر وصول کرنے کے بعد وہ ہمیں تیسری منزل ہمارے کمرے میں چھوڑنے خود گیا ۔ اٹلی کے ہر شہر میں سٹی ٹیکس کیش میں ہی وصول کیا جاتا تھا۔

وینس ( اٹلی ) ہاسٹل میں سیڑھیاں ۔ یہ شہر اور اس کا ہر حصہ قدامت کا شاہکار ہوتا ہے

گو ہاسٹل کسی حد تک رینوویٹڈ تھا لیکن ہمارے کمرے کی ماڈرن کھڑکیوں کے پیچھے سے گہرے سبزرنگ کی لکڑی کی پرانی طرز کی کھڑکیاں جھانک رہی تھیں ۔ سامنے والی دیوار پر ایک ونٹیج یعنی قدیم نظر آنے والی پینٹنگ کے علاوہ ایک پرانے طرز کی کرسی بھی کمرے میں موجود تھی ۔

وینس اٹلی کے شمال مشرق میں واقع ہے اور مشرقی یورپ کی بلقان کی ریاستیں یہاں سے زیادہ فاصلے پر نہیں ۔ جنہوں نے انڈیانا جونز اور ” دا لاسٹ کروسیڈ ” فلمیں دیکھی ہیں انہیں شاید یاد ہو کہ یہ قاتل حسینہ ڈاکٹر شنا ئیڈن ڈاکٹر جونس کو یہاں سے مشرقی یورپ کے کسی ملک کے ایک قلعہ میں ہی لے گئی تھیں جہاں آرکیولوجسٹ جونز کا قدیم مخطوطوں کا ماہر باپ قید تھا۔ ( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں