گلابی کنول کا پھول پانی میں

حیا ، صحت مند اور تعمیری معاشرے کی بنیاد کیسے بنتا ہے ؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

شاذیہ عبدالقادر

حیا ایک تہذیب بھی ہے ۔۔۔ ایک نظام بھی ہے اور کسی بھی صحت مند اور تعمیری معاشرت کی بنیاد بھی ہے ۔
حیا کے لفظی معنی رک جانا ، جھجھکنا ، شرم
اصطلاحی معنی ۔۔ وہ جھجھک یا وہ شرم جو اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے محسوس ہو۔

کوئی بھی ایسا کام جو اللہ نے منع کیا ہو ، وہ کرتے وقت اللہ سے شرم کرکے رک جانا حیا ہے۔ جھوٹ بولتے وقت ۔۔۔ گالی دیتے وقت ۔۔۔ رشوت دیتے وقت ۔۔۔۔ غیرمحرم پر نگاہ غلط ڈالتے وقت ۔۔۔۔ اللہ کی حدود توڑتے وقت ۔۔۔۔ کسی بھی گناہ کو کرتے وقت اللہ کی محبت کھو جانے اور اللہ کی ناراضگی کے ڈر سے رک جانا حیا ہے۔

راغب اصفہانی کے بقول” حیا وہ وصف ہے جس کی وجہ سے برا کام کرنے سے نفس میں تنگی محسوس ہوتی ہے۔”
علامہ ابن جحر فرماتے ہیں کہ ” حیا وہ خُلُق ہے جو انسان کو نیکی کرنے اور برائی نہ کرنے پر ابھارتا ہے”۔

احادیث مبارکہ کی روشنی میں ” ہر دین کا ایک امتیازی وصف ہوتا ہے،اسلام کا امتیازی وصف ” حیا ” ہے
اسلام ایک ایسا معاشرہ چاہتا ہے جہاں اچھے کاموں کا فروغ ہو اور برے کاموں کی حوصلہ شکنی ہو ۔۔۔۔ اس لئے کہ اچھے کام انسانوں کے معاشرے کے لئے مفید ہیں اور برے کام انسانی معاشرے کے لئے نقصان دہ ہیں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” بے شک ہر دین کا ایک خُلُق ہے اور اسلام کا خُلُق شرم و حیا ہے”
"حیا اور ایمان دونوں ساتھ ساتھ ہوتے ہیں ، ان میں سے اگر ایک اٹھ جائے تو دوسرا خود بخود اٹھ جاتا ہے”

ایمان کیا ہے ۔۔۔لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔۔۔ اس کا اقرار کرنا۔
حیا کیا ہے ۔۔۔۔ کلمہ طیبہ کو اپنی زندگی پر لاگو کرنا ، اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات پر عمل کرنا ، نافرمانی سے بچنا ۔۔۔
اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جب تم میں حیا نہ رہے تو تو جو جی چاہے کر”
جب اللہ کی ماننا ہی نہیں جب اس کی نافرمانی کرتے جھجھکنا ہی نہیں ۔ تو پھر جہاں مرضی جو مرضی کرو ۔ وہ عہد، وہ پیمان ہی توڑ دیا جس کی پابندی پر اللہ کے سارے وعدے ہیں ۔۔۔ تو اب کیا باقی رہا ۔۔۔۔۔

اندرونی حیا میں نیت ، دل ، خیال ، نگاہ شامل ہیں ۔۔۔۔۔
اعمال کا دارومدار نیت پر ہے ۔ نیت کی حیا ہوگی تو اعمال قبول ہوں گے۔
دل کی بات اور دماغ کا خیال حیا دار ہوگا تو انسان اللہ کی نافرمانی سے رکے گا۔
نگاہ کو ایسی چیزوں سے بچائے گا جو اللہ کو پسند نہیں تو یہ اندرونی حیا ہے جس کا انسان کو خود علم ہے کہ اس کا رخ درست ہے یا نہیں ۔۔۔۔ یا صرف اللہ کو معلوم ہے۔

بیرونی حیا میں چال ڈھال ، لباس ، گفتگو ، معاملات ، معمولات ان سب میں ایسے کام کرنا جو اللہ کو پسند ہیں اور ایسے کام سے رک جانا جو اللہ کو پسند نہیں ہیں تو بس یہی حیا ہے۔

باطنی اور ظاہری حیا ہی اچھے انسان کی قوت اور اس کا اعتماد ہے ، ایسے انسانوں سے ہی صحت مند اور تعمیری معاشرے بن سکتے ہیں ورنہ انسان اگر اپنے باطنی اور ظاہری اعمال میں حیا کا دامن چھوڑ دے تو حیوان بن جاتا ہے . پھر انسانوں کامعاشرہ نہیں بلکہ جنگل پروان چڑھتا ہے جہاں ظلم ہوتا ہے ، فساد رہتا ہے ، حق مارے جاتے ہیں اور انسان انسانیت کے درجے سے گر جاتے ہیں ۔۔۔۔

کسی بھی معاشرے کی بنیادی اکائی مرد و عورت ہوتے ہیں ۔ مرد و عورت ہی معاشرے کو باحیا بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ کے احکام ہی انسانیت کے لئے مفید ہیں اور شیطان کا پہلا ہدف انسان کو حیا سے عاری کرنا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے رستے سے بھٹکائے ، ان سے گناہ کروائے اور ان کی دنیا و آخرت تباہ و برباد کردے۔

جبکہ ہمارے پیارے رب نے مرد و عورت کو اسلام کے بنیادی فرائض ایک جیسے بتائے ، بنیادی احکام بھی برابر رکھے ہیں تاکہ انسان اچھی زندگی گزار سکیں ۔۔۔۔

سورہ الاحزاب کی 35 ویں آیت میں بہت پیارے القابات مسلمان مردوں اور عورتوں کو فرمائے گئے ۔۔۔۔
بالیقین جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں , مومن ہیں ، مطیع فرمان ہیں ، راست باز ہیں ، صابر ہیں ، اللہ کے آگے جھکنے” والے ہیں صدقہ دینے والے ہیں ، روزہ رکھنے والے ہیں ، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں ، اور اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے .”

سورہ النور آیت 30،31 میں بھی غض بصر اور ستر کے احکام دونوں کے لئے آئے ۔۔۔۔
اے نبیؐ ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے۔
اور اے نبیؐ ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناوٴ سنگھار نہ دکھائیں بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔

اسی طرح دونوں کو حرمت کے رشتے بتادئیے گئے
مسلمان مردوں کو سورہ النساء 23،24 میں فرمایا
تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں ، بیٹیاں ، بہنیں ، پُھوپھیاں ، خالائیں ، بھتیجیاں ، بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دُودھ پلایا ہو ، اور تمہاری دُودھ شریک بہنیں ، اور تمہاری بیویوں کی مائیں ، اور تمہاری بیویوں کی لڑکیاں جنہوں نے تمہاری گودوں میں پرورش پائی ہے ۔۔۔۔ اُن بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمہارا تعلّقِ زن و شو ہوچکا ہو ۔ ورنہ اگر ﴿صرف نکاح ہوا ہو اور ﴾ تعلقِ زن و شو نہ ہوا ہو تو ﴿ انہیں چھوڑ کر ان کی لڑکیوں سے نکاح کر لینے میں ﴾ تم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ۔۔۔۔ اور تمہارے اُن بیٹوں کی بیویاں جو تمہاری صُلب سے ہوں ۔ اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو ، مگر جو پہلے ہو گیا سو ہو گیا ، اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔ اور وہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں جو کسی دُوسرے کے نکاح مییں ہوں ﴿مُحْصَنَات}

اور مسلمان عورتوں سے النور آیت 31 میں فرمایا گیا
اپنی زیب و زینت ظاہر نہ کریں مگر سوائے ان کے ۔۔۔ شوہر ، باپ ، شوہروں کے باپ ، اپنے بیٹے ، شوہروں کے بیٹے ، بھائی ، بھائیوں کے بیٹے ، بہنوں کے بیٹے ، اپنے میل جول کی عورتیں ، اپنے مملوک ، وہ زیرِ دست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں ، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں ۔ وہ اپنے پائوں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے۔
اے مومنو، تم سب مِل کر اللہ سے توبہ کرو ، توقع ہے کہ فلاح پائو گے۔

یہ حدود اللہ ہیں ان کی پاس داری "حیا” ہے اور انھیں توڑنا "بےحیائی”ہے۔۔۔۔

یہی وہ فریضہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا نے اپنا جنازہ تک رات میں اٹھانے کی وصیت کہ کوئی غیر محرم ان کا جنازہ بھی نہ دیکھ سکے
اور یہی وہ فریضہ ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام کو دعوت گناہ دی گئی تو آپ نے فرمایا
خدا کی پناہ ! میرے رب نے تو مجھے اچھی منزلت بخشی ( اور میں یہ نیچ کام کروں ) ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پایا کرتے (سورہ یوسف آیت 23)

گویا اسلامی معاشرت کی فضا بنانا ہم سب کا فرض ہے جس کی بنیاد حیا ہے جسے مرد و عورت دونوں مل کر ممکن بناتے ہیں۔
اس کے لئے کچھ اقدامات ہمیں کرنے ہوں گے تاکہ ہمارا معاشرہ اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہوکر حیوانی معاشرہ نہ بن جائے کہ جس کا کوئی قانون ، کوئی اخلاق نہ رہے

اس کے لئے ہمیں یہ کرنا ہوگا
سب سے پہلے تو قرآن کریم کی تعلیم عام کرنا ہوگی ترجمہ قرآن و تفسیر سے جڑنا ہوگا ایسی محافل جہاں حدیث و سنت مبارکہ کی تعلیمات دی جائیں ۔۔۔۔
یہ سمجھ لیں کہ اسلام نے مرد و عورت کا دائرہ کار الگ الگ بنایا ہے ۔۔۔۔گھر میں لڑکی اور لڑکے دونوں کی تربیت اسلامی اصولوں کے مطابق کیجئے
ان کے ایمان ۔۔۔ حیا ۔۔۔ اور اخلاق کی پرورش ہماری برابر ذمہ داری ہے
انہیں اللہ کی محبت سکھائیے ۔۔۔ اس کے سمیع و بصیر ہونے کا نظریہ پختہ کیجئے

خود ہمیں اپنے حیا کے دائروں کی حفاظت کرنا ہوگی اور ان دائروں کے قریب آنے کی کسی کو اجازت نہیں دینا
اپنے گھروں کی نشست ، برخاست ، سفر ، تقریبات ، محفلوں دعوتوں میں الگ الگ انتظام ۔۔۔ اختلاط سے گریز

بچوں کے رشتوں کا معیار حدیث کے مطابق ” دین داری” رکھنا اور وقت پر ان کے اچھے جوڑ تلاش کرکے ان کی شادیاں کرنا ۔۔۔ نکاح اور شادی کو آسان کرنا ، بےجا رسوم و رواج کی حوصلہ شکنی کیجئے ۔ یاد رہے اگر ہم نے یہ نہ کیا تو حرام کے رستے بہت کھلے ہوئے ہیں اپنی اولادوں کو جہنم کا ایندھن نہ بنائیے۔

اسلام کا مطلوب حیا دار معاشرہ ہے ایسا معاشرہ ہی ترقی و خوشحالی کا سفر طے کرتا ہے
ایسے حکمران لائیے جو ایمان دار اور حیا والے ہوں جو اللہ کی نافرمانی کرتے وقت ڈریں اور رک جائیں ۔۔۔۔ امانت دارہوں ۔۔۔۔
ان شاءالله ہم ان حدود کا خیال رکھ کر اپنی اولادوں کے لئے ایک حیادار ، خوشحال مستقبل تعمیر کرجائیں گے


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں