ٹرانس جینڈر گل چاہت

گل چاہت’ بنا ‘معاویہ’ ، کیا وہ پھر گل چاہت بن جائے گا؟’

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر کلثوم عبدالرزاق خان

خلاق عالم نے اس جہان رنگ و بو کو اپنی ان گنت مخلوقات سے تزئین و آرائش بخشی ہے اور ہر مخلوق کی تخلیق عین اس کے تقاضہ حکمت کےتابع ہے۔ اللہ تعالی نےانسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور انسان کو بحثیت تخلیق احسن تقویم قرار دیا بے۔ ارشاد ربانی ہے:

بیشک ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھال کرپیدا کیا ہے (التین:4:95)

یہ اس رب کی صناعی کاریگری ہے کہ اس نے کسی انسان کو جملہ اوصاف خلق و ہئیت سے آراستہ فرمایا اور کسی میں بظاہر کوئی کمی رکھ دی، لیکن یہ سب اس کے عین تقاضہ حکمت کے مطابق ہے. اس سے انسان کےاحترام اور رتبے میں کمی نہیں آتی۔ یہ عزت و شرف اور تکریم بحیثیت بنی نوع آدم اللہ رب العزت کی جانب سے عطا کردہ ہے اور یہ وہی فضیلت ہے جو بہ لحاظ جنس انھیں حاصل ہے۔ ارشادربانی ہے:

“اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور انہیں خشکی اور سمندر دونوں میں سواریاں مہیا کی ہیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کارزق عطا کیا، اور ان کو بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا کی ہے (بنی اسرائیل, 70:17)

رب تعالی کی تخلیقات میں سےایک منفرد تخلیق “مخنث” ہے جو مکمل طور پر مرد ہوتا ہے نہ عورت۔ اس کی اس صورت میں پیدائش پر اسے کوئی اختیار نہیں ہے۔ خلاق عالم نے جس طرح چاہا اسے تخلیق کیا۔

ہمارے معاشرے میں بہت بڑی تعداد ان افراد کی ہے جنہیں ہم “مخنث” کہتے ہیں۔ علامہ ابن منظور لکھتے ہیں:” خنثی نہ خالص مرد ہوتا اور نہ عورت ہوتا ہے، پس “رجل خنثی” اس کو کہا جاتا ہے جس کے مرد اور عورت ( قسم کے اعضاء ) ہوں یعنی وہ شخص جس میں مرد و عورت دونوں کی علامات پائی جائیں، یہ ثابت نہ ہو کہ وہ مرد ہے یا عورت، وہ خنثی مشکل ہے”(لسان العرب)

دیگر افرادِ معاشرہ کی طرح یہ بھی یکساں انسانی حقوق، عزت، اعزاز و اکرام کے مستحق ہیں کیونکہ کوئی بھی فرد کسی جسمانی کمی یا نقص کے باوجود بحیثیت انسان اسی عزت و احترام کا مستحق ہے جو جسمانی لحاظ سے تندرست و توانا اور ایک مکمل انسان کو حاصل ہیں۔

تخلیقی اعتبار سے یہ عین تقاضائے حکمت ہے۔ اللہ تعالی نے جس صورت و ہیئت اور ساخت پر اسے پیدا کیا ہے، اس میں انسان کا اپنا کوئی دخل نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالی کی قدرت کاملہ ہے۔ وہ جس کو جیسے چاہے تخلیق کرے لہذا مخنث افراد بھی معاشرہ کے عام افراد کی طرح سماجی و معاشی اور قانونی و سیاسی حقوق کے مستحق ہیں۔

مخنث افراد کے حوالے سے معاصر صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو حالات بہت حد تک قابل مذمت و افسوس نظر آتے ہیں کہ ان افراد کو بہت سے امتیازی مسائل اور رویوں کا سامنا ہے۔

گل چاہت ، تصویر: ڈی ڈبلیو

سوشل میڈیا سٹار”گل چاہت” ایک خواجہ سراء ہیں۔ انہوں نے اپنے کیریئر کے عروج پر مذہب کی جانب رغبت کے سبب رقص وغیرہ چھوڑ دیا اور اپنا نام بھی ‘گل چاہت’ سے بدل کر ‘معاویہ’ رکھ لیا۔ پاکستان جیسے مسلم معاشرے میں اس طرح کی تبدیلی کا خیر مقدم کیا جاتا ہے.. مگر گل چاہت کو پھر بھی حوصلہ شکنی اور تحقیرکا سامنا ہے۔

اردو DWکی نمائندہ ‘فاطمہ نازش’ کو ایک انٹرویو میں اپنی زندگی کی تکالیف اور مشکلات کی روداد سناتے آبدیدہ ہو گئے, وہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے 12, 13 سال تک، میری زندگی کو، اس قدر اجیرن کیے رکھا، کہ اب جینے کی تمنا نہیں رہی۔

گل چاہت ، تصویر: ڈی ڈبلیو

خیبر پختونخوا کی وادی سوات سے تعلق رکھنے والے نامور خواجہ سرا جنہیں پیدائش کے وقت ‘عنایت’ کا نام دیا گیا تھا، اب ‘معاویہ’ کہلاتے ہیں۔ انہوں نے آج سے 15برس قبل اپنا گھر چھوڑ دیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر17 برس تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ جب وہ 8،7 برس کے تھے توان کو خواجہ سرا ہونے کا علم ہوا, جب باہر جانا ہوتا، مسجد، مدرسہ، اسکول تو بچے انہیں بے حد پریشان کرتے، جبکہ گھر آنے پر والد صاحب اور بڑے بھائی کی جانب سے میرے اٹھنے، بیٹھنے، چلنے، پھرنے کےانداز کے درست نہ ہونے پر ڈانٹ ڈپٹ اور طعن و تشنیع کا ہر وقت سامنا کرنا پڑتا، جو بالآخر گھر چھوڑنے کا سبب بنا۔

وادی سوات سےہری پور پہنچنے پر ‘عنایت’ کے ‘گل چاہت’ بننے کا سفر شروع ہوا۔

گل چاہت ، تصویر: ڈی ڈبلیو

معاویہ کہتےہیں: ‘ہری پور میں انہیں ایک ایسی گرو ملی جو بہت اچھی تھی۔ انہوں نے میری تربیت کی، پاؤں میں گھنگرو، ہاتھوں میں چوڑیاں، گلے میں ہار وغیرہ آنکھوں میں کاجل اور رقص سکھایا۔ نسوانیت کااحساس بچپن سے پایا جاتاتھا۔ عورت بننے کا شوق اس قدر غالب رہا کہ بہت سی پلاسٹک سرجریز کروائیں۔ ڈانس پارٹیز میں مقبولیت سوشل میڈیا تک پہنچی تولاکھوں افراد دیکھنے اور پسند کرنے لگے۔ ٹک ٹاک پر 60 لاکھ فالوورز ہیں۔ فیس بک، انسٹاگرام اور یوٹیوب چینل پر دیکھنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے..

معاویہ کے بقول وہ تبلیغی اجتماع پر جاتے، خواتین کے حقوق اور صلہ رحمی پر بات کرتے ہیں لیکن ان کی بات سننے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہوتا ہے۔ وہ بطور خواجہ سرا اپنی پہچان نہیں چھپاتے۔ لوگ ان سے منہ موڑ لیتے ہیں تو یہ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔

گل چاہے عمرہ کے دوران میں

معاویہ ماضی کو دوہرانا نہیں چاہتے لیکن اپنے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک نے انہیں دلبرداشتہ کر دیا ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں: لوگ اپنے، اپنے کے مطابق مجھے چلا رہے ہیں۔ مثلاً آپ ٹک ٹاک نہ کرو، ویڈیو اپلوڈ نہ کرو، آپ ایسے نہ گھومو پھرو حتی کہ لوگ میرے عبادت کے طریقے پر بھی اعتراضات کرتے ہیں۔

شناخت کے حصول کیلئے زندگی کے مختلف ادوار میں اپنی پہچان بدلنے والے معاویہ کی یہ خواہش ہے کہ خواجہ سراؤں کو بنیادی انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ معاشرتی سطح پر قبولیت بھی دی جائے۔

گناہوں سے تائب ہوکر دین الہی کے مطابق زندگی گزارنے کا عمل نہایت قابل تحسین اور پسندیدہ ہے اور حوصلہ افزائی کا موجب ہے,شخصیت و کردار, اعمال میں تصحیح, امربالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ نہایت ذمہ دارانہ فعل ہے، نہ کہ بلاوجہ تنقید، طعن و تشنیع اور اپنی کم علمی سے معاشرے کے ایسے افراد کی زندگی کو اتنا اجیرن کر دیا جائے کہ وہ زندگی کو ایک بوجھ سمجھ کرموت کی تمنا کریں۔

ہمارا معاشرہ مخنث/ خواجہ سرا طبقے کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ یہ معاشرے کا وہ محروم طبقہ ہے جسے شاید خود ان کے والدین اور اعزہ و اقارب نے کبھی ایک زندہ وجود کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔

دین اسلام محبت اور شفقت کا دین ہے، جو طنز و تحقیر کی ممانعت کرتا ہے لیکن معاشرہ میں خواجہ سرائوں کو بطور انسان قابل احترام یا قابل ہمدردی نہیں سمجھا جاتا ہے۔ انہیں محض تفنن طبع کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، انہیں معمول کی زندگی گزارنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔

خنث پیدائشی معذوری ہے، اس پر خنثی افراد کو عار دلانا مناسب نہیں ہے۔ عام انسانوں کو اس سلسلے میں محتاط ہونا چاہیے اور ایسا تحقیر آمیز رویہ اختیار کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ان کے ساتھ بھی ویسا رویہ و سلوک روارکھناچاہیے جس کی تعلیم اسلام نے دی ہے۔ نیز ان خنثی افرادکو اگر خاندان کے تعاون و سرپرستی حاصل ہو تو ان کےمسائل کافی حد تک کم ہو سکتے ہیں.. باقی ماندہ مسائل دیگر افراد معاشرہ کے رویہ اور حکومتی اقدامات پر منحصر ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “گل چاہت’ بنا ‘معاویہ’ ، کیا وہ پھر گل چاہت بن جائے گا؟’”

  1. زبیدہ روف Avatar
    زبیدہ روف

    ہمارے معاشرے میں دوسروں کو قبول کرنے کا بہت فقدان ھے۔ ایسا ان معاشروں میں ھوتا ھے جہاں جہالت اور زہنی پسماندگی زیادہ ھوتی ھے۔ ہماری مساجد کو یہ بنیادی جہالت دور کر نے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ کیونکہ بد قسمتی سے سکولوں کے اساتذہ تو خود اس اہم دینی اور اخلاقی تعلیم سے بے بہرہ ہیں ( زیادہ تر) بہرحال یہ ایک بہت ہی حساس موضوع پر بہت اچھی تحریر ھے