ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر، سکالر

خواتین کے مذہبی حقوق

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر امتیاز عبد القادر، بارہمولہ

مسجد مسلم معاشرہ کا پہلا ادارہ ہے۔ وہ ایک طرف عبادت کی جگہ ہے، دوسر ی طرف علم کا گہوارہ بھی۔ علاوہ ازیں مسجد ہی معاشرتی و سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ ان تمام عوامل کی بنا پر عہد نبوی ﷺ میں مسجدوں کے دروازے عورتوں کے لیے اپنی شرائط کے ساتھ کھلے ہوئے تھے۔

مسجد نبویﷺ مردوں اور عورتوں دونوں ہی کے لیے عبادت و ثقافت اور معاشرت کا مرکز تھی۔ اگر کوئی عورت قرآن سننا چاہتی یا مشاغل درس وتدریس میں شریک ہونا چاہتی یا باہمی تعارف کی غرض سے یا خیر و تقوی ٰ کے کاموں میں تعاون کی غرض سے مسلمان خواتین سے ملنا چاہتی تو وہ یہ سارے خیر کے کام با پردہ ہوکر مسجد نبویﷺ میں کرسکتی تھی۔

آنحضورﷺ کی ازواج مطہرات کو علم و نیکی سے معمور ماحول ملا تھا۔ ان اسباب کی بنیاد پر تمام ازواج مطہراتؓ علم کے بلند مقام تک پہنچ گئیں۔ان کی حیثیت معلمات کی تھیں۔ اکابر صحابہ و تابعین ان سے حدیث، تفسیر اور فقہ میں استفادہ کیا کرتے تھے۔ اْس عہد میں خواتین صرف مسجد نبوی ﷺ میں ہی نہیں آیا کرتی تھیں بلکہ مدینہ کے اطراف میں موجود محلوں کی مسجدوں میں اور مدینہ سے باہر کی مسجدوں میں بھی آیا کرتی تھیں، ذیل میں تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر کچھ شواہد درج کیے جاتے ہیں:

حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ لوگ قباء میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے بتایا کہ آج رات نبی کریم ﷺ پر وحی آئی ہے اور آپ ﷺ کو خانہ کعبہ کی طرف رْخ کرکے نماز پڑھنے کاحکم دیا گیا ہے، لہٰذا تم لوگ بھی اپنا رْخ کعبہ کی طرف کرلو، اس وقت نماز پڑھنے والوں کے چہرے شام کی طرف تھے، لہٰذا تمام لوگوں نے اپنا رْخ کعبہ کی طرف کر لیا“۔(بخاری)

حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ ابن ابی حاتم ؓ نے ثویلہ بنت اسلمؓ کے حوالہ سے خانہ کعبہ کی طرف رْخ پھیرنے کی کیفیت کو بیان کیا ہے، ثویلہؓ فرماتی ہیں کہ ”عورتیں مردوں کی جگہ آگئیں اور مرد عورتوں کی جگہ آگئے، پھر ہم نے بقیہ دو رکعتیں خانہ کعبہ کی طرف رْخ کرکے ادا کیں۔“

نبی کریم ﷺ نے مسجدمیں آنے کے عورتوں کے حق کو تاکید کے ساتھ بیان کیا اور اس حق کو ہر طرح کی زیادتی سے بچانے کی بھی کوشش کی ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ” اگر تمہاری عورتیں رات میں مسجد جانے کی اجازت مانگیں تو تم انہیں اجازت دے دو“۔(بخاری ومسلم)

ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کی ایک بیوی فجر اور عشاء کی نماز مسجد میں باجماعت ادا کیا کرتی تھیں، ان سے کسی نے کہا کہ آپ مسجد میں کیوں جاتی ہیں جب کہ آپ کومعلوم ہے کہ حضرت عمرؓ اس کو ناپسند فرماتے ہیں اور ان کو غیرت بھی آتی ہے؟

جواب میں انہوں نے کہا: وہ مجھے خود کیوں نہیں منع کر دیتے؟ اس پر اس شخص نے ان سے کہا کہ دراصل وہ آپ کو اس لیے نہیں منع کرتے کیونکہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے کہ ’اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو‘۔(بخاری)، صحیح مسلم میں الفاظ یوں ہیں:’اگر کسی شخص سے اس کی بیوی مسجد جانے کی اجازت طلب کرے تو وہ اسے نہ روکے۔‘ مشہور شافعی مؤرخ و فقیہ امام نووی (المتوفیٰ 676ھ) اس بارے میں لکھتے ہیں:

”لیکن یہ حکم درج ذیل امور کے ساتھ مشروط ہے جنہیں علماء نے احادیث نبویہ ﷺ ہی سے اخذ کیا ہے۔ عورت نے خوشبو نہ لگا رکھی ہو، سج بن کر نہ جائے، لباس فاخرہ پہن کر نہ جائے، اس طرح نہ جائے کہ مردوں کے ساتھ اختلاط ہو، راستہ محفوظ ہو۔۔۔“(بحوالہ فقہ النّساء از عطیہ خمیس،ص512)

صحابہؓ جیسا معاشرہ تاریخ انسانی میں ایک لاثانی معاشرہ ہے۔ صحابہؓ ایک دوسرے کی رائے سے معقول اختلاف بھی کرتے تھے لیکن دل ایک دوسرے کے لیے پاک و صاف خیال دل موجزن رکھ کر۔ برداشت کا مادہ موجود تھا۔ شجرہ طیبہ نے ان کو جوڑ کے رکھا تھا۔ رزم ہو یا بزم، پاک دل و پاک باز تھے۔

حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت کا ہی واقعہ بہت مشہور و معروف ہے کہ منبر پر کھڑے ہوکر انہوں نے مہر کی حد مقرر کرنا چاہی تو اکابر صحابہؓ کی موجودگی میں امیرالمومنین کی رائے کے اختلاف میں جو آواز گونجی وہ ایک خاتون کی ہی تھی۔

عدم برداشت کی موجودہ تشویشناک صورت حال ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اس نے اُمت کومنتشر کرکے چھوڑا، غیر اقوام ہمیں سمجھنے سے قاصر ہیں۔جب سے عورتوں کے لیے مسجدوں کے دروازے بند ہوئے، شرک کے دروازوں پر دستک شروع ہوئی۔ اللہ کی بارگاہ پر جب ہم نے پہرے لگائے تو صنف ِنازک نے رہزنوں کی بارگاہ کو ترجیح دی۔ توحید کے مرکز سے ان کو دور کر کے ان کو اوروں کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونے پر مجبور کیا۔

رسول اللہﷺنے ترجیحات کو مدنظر رکھ کر خواتین کو گھروں میں نماز ادا کرنے کی صرف ترغیب دلائی مگر ہم میں سے ایک طبقہ نے اسے لایعنی مسئلہ بنادیا۔ نماز پنج گانہ کے علاوہ بیشتر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابیاتؓ نمازجنازہ میں بھی شریک ہوتی تھیں۔ عہدنبوی ﷺ کی معاشرت پر ژرف بینی سے نگاہ دوڑائیں تو خواتین مختلف محرکات کی وجہ سے مسجد جایا کرتی تھیں۔ ذیل کی سطور میں اس طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

(1) نمازکی ادائیگی:۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ہم مومن عورتیں فجر کی نماز میں نبی کریم ﷺکے ساتھ چادر اوڑھ کر شریک ہوا کرتی تھیں، پھر ہم عورتیں نماز پڑھ کر اپنے گھروں کو واپس ہوتی تھیں لیکن ہم سے کوئی بھی غلس (تاریکی) کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں (بخاری ومسلم)۔

حضرت عمر ہ بنت عبدالرحمٰن ؓ کہتی ہیں کہ ان کی بہن نے کہا کہ میں نے ’ق والقرآن المجید‘ جمعہ کے دن نبی کریم ﷺکی زبان مبارک سے یاد کیا۔ آپﷺ یہ سورہ ہر جمعہ کو منبر پر پڑھا کرتے تھے“۔(مسلم)

حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ مسجد میں داخل ہوئے تو آپ ﷺنے دیکھا کہ دو ستونوں کے درمیان رسی بندھی ہوئی ہے۔ آپﷺ نے پوچھا یہ رسی کیسی ہے؟ لوگوں نے بتایا حضرت زینبؓ نے یہ رسی باندھ رکھی ہے۔ جب وہ نماز پڑھتے پڑھتے تھک جاتی ہیں تو اس پر ٹیک لگا لیتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس رسی کوکھول دو۔ تمہیں اس وقت تک نماز پڑھنی چاہیے جب تک تمہارے اندر نشاط اور چستی باقی رہے۔ جب تم تھک جاؤ تو تمہیں بیٹھ جانا چاہیے۔(بخاری ومسلم)

حافظ ابن حجرؒ کے بقول اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں عورتوں کا نفل نماز پڑھنا جائز ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ سعید بن منصورؓ نے عروہ ؓکے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ حضرت عمرؓ نے رمضان میں تراویح کی نماز کے لیے لوگوں کو حضرت ابی بن کعبؓ کے پیچھے جمع کیا، وہ مردوں کو تراویح کی نماز پڑھایا کرتے تھے اور تمیم الداری ؒ عورتوں کو تراویح کی نماز پڑھایا کرتے تھے۔

امام نوویؒ نے ’المجموع‘میں لکھا ہے کہ عرفجہ الثففیؒ کہتے ہیں ’ حضرت علی ؓ لوگوں کو رمضان میں تراویح پڑھنے کا حکم دیا کرتے تھے۔ آپؓ مردوں کے لیے امام مقرر کرتے تھے اور اسی طرح عورتوں کے لیے ایک امام مقرر کرتے تھے، میں (عرفجہؓ) عورتوں کا امام تھا‘۔(بیہقی)

(2) خواتین کی تعلیم وتربیت:۔
حضرت عبداللہ ؓ کی بیوی حضرت زینبؓ فرماتی ہیں کہ میں مسجد میں تھی، میں نے حضورﷺ کو دیکھا۔ وہ فرما رہے تھے کہ” اے عورتو ! صدقہ کرو اگرچہ تمہیں اپنا زیور ہی کیوں نہ صدقہ کرنا پڑے۔“(بخاری و مسلم)

خیر القرون میں صحابیات ؓ کے اندر احکام دین معلوم کرنے کی ایسی تڑپ پیدا ہوگئی تھی کہ وہ شب و روز اس کے لیے بے چین رہتی تھیں اور اس تلاش و جستجو میں جو دشواریاں پیش آتیں وہ ان کو مایوس یا بددل نہ کرتیں بلکہ ہر عقدہ ان کے سمند شوق کے لیے تازیانہ کا کام دیتا۔ انصار کی عورتوں کے متعلق حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:

”انصار کی عورتیں بھی بہت خوب تھیں، دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے سلسلہ میں حیا اور شرم ان کے لیے رکاوٹ نہیں بنتی تھیں“۔ (مسلم۔کتاب الحیض)

مسجد کی علمی و عبادتی مجالس میں خواتین بڑے ہی ذوق و شوق کے ساتھ خاصی تعدادمیں شریک ہوتی تھیں۔ خولہ بنت قیسؓ حضور ﷺ کی بلندی آواز کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں ’جمعہ کے دن رسول اللہ ﷺ کا خطبہ اچھی طرح سنتی تھی حالانکہ میں عورتوں میں سب سے آخر میں ہوتی‘۔ (طبقات ابن سعد۔ج8)

موجودہ تمدنی و معاشرتی حالات پر غور و فکر کرنے والا ہر انسان اس اعتراف پر مجبور ہے کہ موجودہ بے راہ رو تہذیب نے عورت اور مرد کو ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کر دیا ہے جہاں سکون اور چین کے ہزار سامان کے باوجود وہ ان سے محروم ہیں۔ مادہ اور روح کی تعلیم و تربیت کے لیے ضروری ہے کہ آج بھی مسجد کے دروازے خواتین کے لیے وا کیے جائیں تاکہ موجودہ تمدنی و معاشرتی بحران کا خاتمہ ہو۔

بخاری میں مذکور ہے کہ مشہور تابعی عطاء ؒسے پوچھا گیا کہ آپ کا کیا خیال ہے کہ امام کو خطبہ سے فارغ ہونے کے بعد عورتوں کے پاس آنا چاہیے وعظ و نصیحت کے لیے جس طرح کہ نبی کریمﷺعید کے خطبہ سے فارغ ہونے کے بعد کیا کرتے تھے؟ عطا ؒ نے جواب دیا کہ ”یہ ائمہ کے لیے ضروری ہے اور وہ ایسا کیوں نہ کریں؟“

(3) اجتماع عام کی دعوت پرمسجد میں حاضرہونا:۔
حضرت فاطمہ بنت قیسؓ فرماتی ہیں جب میری عدت کے دن ختم ہوگئے تو میں نے نبی کریم ﷺکے منادی کو آواز لگاتے ہوئے سنا ”لوگو! مسجد میں جمع ہو جاؤ۔“ ایک روایت میں ہے کہ” لوگوں میں آواز لگادی گئی کہ مسجد میں جمع ہوجائیں تو لوگوں کے ساتھ میں بھی گئی، میں عورتوں کی سب سے اگلی صف میں تھی، جو مردوں کی سب سے پچھلی صف کے بعد تھی۔“(مسلم)

(4) زخمیوں کی تیمارداری:۔
ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ خندق کے دن حضرت سعد ؓ کے بازو کی رگ میں زخم آگیا، نبی کریم ﷺنے مسجد میں ان کے لئے خیمہ لگوادیا تاکہ آپ ﷺ ان کی قریب سے عیادت کرسکیں (بخاری)۔ حافظ ابن حجرؒ کے حوالے سے ابن اسحاق ؓ یہ ذکر کرتے ہیں کہ وہ خیمہ رفیدہ اسلمیہؓکاتھا۔ نبی کریم ﷺنے حضرت سعد ؓ کومسجد نبوی کے قریب موجود رفیدہ کے خیمہ میں رکھوایا۔ رفیدہ ؓ زخمیوں کاعلاج کرتی تھیں۔

(5) قضاء وفتویٰ کی مجلس میں شرکت:۔
حضرت سہل بن سعد ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ، آپ کا اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسرے مرد کو پائے، کیا وہ اس مرد کو قتل کر سکتاہے؟ پھر (مردوعورت) دونوں نے مسجد میں لعان کیا۔ میں اس وقت وہیں پر موجود تھا۔(بخاری ومسلم)

(6) مسجدمیں سونا:۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ عرب کے ایک قبیلہ میں ایک کالی باندی تھی۔ ان لوگوں نے اسے آزادکر دیا۔ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور ایمان لائی۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ مسجد نبوی میں اس کا ایک خیمہ تھا۔ راوی فرماتی ہیں کہ وہ میرے پاس آیا کرتی تھی اور مجھ سے باتیں کیا کرتی تھی۔(بخاری)

ظاہر ہے فی الوقت مسجدمیں صرف نماز اور تعلیم و تربیت ہی ممکن ہے۔باقی امورات کے لیے اب مختلف شعبے بنائے جاچکے ہیں۔ عہد نبوی ﷺ اور دور صحابہ میں مساجد یک منزلہ ہوا کرتی تھی؛ ایک بڑے ہال کے مانند۔ صحابہ ؓ، صحابیاتؓ اور بچے اْسی بڑے کمرے (مسجد) میں نماز کی ادائیگی، درس وتدریس اور اصلاح وتربیت کے لیے جمع ہوتے تھے۔

مرورِ زمانہ کی وجہ سے تمدن میں ترقی آتی گئی۔ تعمیرات کے نت نئے طریقے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ موجودہ دور میں نہایت ہی احتیاط سے عورتوں کے لیے مسجد میں الگ سے ایک حصہ مختص کیا جاسکتا ہے اور پردے کا معقول انتظام بھی ممکن ہے۔ اختلاط مردوزن کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بس فکر و نیت کی اصلاح کی ضرورت ہے، ورنہ خرابی و فتنہ کے سدباب کے تمام ذرائع موجود ہیں۔

مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کوبھی فاسد غذاؤں اور فاسد افکار و نظریات سے محفوظ رکھنے کے لیے ان کو عقلی و روحانی غذا پہنچانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ فساد زدہ ماحول میں عورت کو تھوڑی دیر کے لیے پاکیزہ اور صاف ستھری فضا فراہم کرنا بہت ناگزیر ہے۔

ایسے حالات میں جب کہ ہر طرف ایسی لڑکیاں اور عورتیں موجود ہیں جو نیم عریاں رہتی ہیں، خود بھی مردوں کی طرف مائل ہوتی ہیں اور مردوں کو بھی اپنی جانب رجھاتی ہیں اور ان کو اپنی جانب مائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں، ایسے ناگفتہ بہ ماحول میں مومن عورتوں کو ایسے مواقع فراہم کئے جائیں جہاں وہ نیک و صالح خواتین سے مل سکیں اور ان سے اپنے مراسم بڑھا سکیں۔ واضح رہے کہ عہدنبوی کی عورت ایک مکمل معاشرتی زندگی گزارتی تھی۔

گردش زمانہ سے مسلمانوں کی حالت بدلتی رہی ہے اور اس کی وجہ سے نظام مساجد میں بھی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔مسجد کی سیاسی، انتظامی اور عدالتی حیثیت کم ہوتی گئی لیکن اس کی مذہبی اور تعلیمی مرکزیت اب بھی برقرارہے۔ لوگ نماز پنچ گانہ، جمعہ اور عیدین کے لیے یہاں جمع ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح تعلیمی و اصلاحی سلسلے کا آغاز بھی مسجد ہی سے ہوتا رہا ہے لیکن مسلمان مرد و زن جب مسجد سے دور ہوئے، ان پر لادینی افکار و نظریات غالب آتے گئے۔ ابتدائی تعلیم کے نتیجے میں ذہن پر جو نقوش مرتب ہوتے ہیں وہ زندگی بھر سیرت کو متاثر کرتے رہتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺکے عہد مبارک میں مسجد کی تعلیمی حیثیت بالکل واضح تھی اور وہی طرزعمل ہر عہد کے مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔
٭٭٭


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “خواتین کے مذہبی حقوق”

  1. میر ذاکر Avatar
    میر ذاکر

    جب سے عورتوں کے لیے مسجدوں کے دروازے بند ہوئے، شرک کے دروازوں پر دستک شروع ہوئی۔ اللہ کی بارگاہ پر جب ہم نے پہرے لگائے تو صنف ِنازک نے رہزنوں کی بارگاہ کو ترجیح دی۔ توحید کے مرکز سے ان کو دور کر کے ان کو اوروں کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونے پر مجبور کیا۔

    بہت ہی جاندار تحریر ہے۔۔۔۔اللہ زور قلم اور زیادہ کرے