محمدعاصم حفیظ
جیو ٹی وی کے ایک ڈرامے میں ایک امیر لڑکی کو اپنی شادی پر شراب پیتے دکھایا گیا۔ تنقید ہوئی تو بہت سے روشن خیال اور ہمارے ’دیسی لبرل‘ حلقوں کا کہنا تھا کہ یہ تو سین کی ڈیمانڈ تھی۔ لڑکی امیر ہے تو اسے عیاشی اور شرابی کے طور پر دکھانا ضروری تھا۔ شوہر غریب ہے تو اسے شراب پیش کرتے دکھایا گیا۔ یہ تھی سب سے بڑی لاجک اور یہ ہے تخلیق و ڈرامہ سازی کا عروج کہ امیر دکھانا ہے تو ضرور شرابی اور عیاش دکھانا ہے۔
بڑے اہتمام سے ’شراب حرام ہے‘ بھی لکھا گیا ہے تاکہ منظر مستند رہے۔ بہت سے لوگ اس منظر پر تنقید کر رہے ہیں۔ کیا اب ہر حرام حرکت کو، متنازعہ مناظر کو بس ایک جملہ لکھ کر اور سین کی ضرورت قرار دے کر دکھایا جائے گا؟ چلیں! اس طبقے کو وہیں سے ایک تازہ ترین مثال دیتے ہیں جہاں سے تخلیقی سوچ، اخلاقیات، اظہار رائے اور سب کچھ سیکھتے ہیں۔
بالی ووڈ کی چند روز پہلے ایک فلم ایمازون پرائم پر پیش کی گئی ہے۔ پلیٹ فارم پر آتے ہی ایک یہودی تنظیم نے ایمازون پرائم کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ وہ ہولوکاسٹ کی’غیر حساس تصویر کشی‘ کرنے پر بالی ووڈ فلم ’بوال‘ کو اپنے پلیٹ فارم سے ہٹا دے۔
یہودی انسانی حقوق کی تنظیم سائمن ویزنتھل سینٹر نے بھی اس تنقید میں حصہ لیا، اس نے ایک بیان میں کہا کہ گیس چیمبرز اور آشوٹز کو استعارے کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
سائمن ویزنتھل سینٹر کا کہنا ہے کہ اس فلم سے ہولوکاسٹ کو غیر اہم قرار دینے کا اندیشہ ہے۔ فلم میں گیس چیمبر کے حوالے سے ایک خیالی منظر شامل ہے اور اس میں ہٹلر اور آشوٹز ڈیتھ کیمپس کو استعاروں کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
اس فلم میں مشہور اداکار ورون دھون اور جھانوی کپور نوبیاہتا جوڑے کا مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں، جو یورپ کا سفر کرتے ہیں۔ وہ تاریخ کے استاد ہیں اور ان کا مقصد اپنے طلبا کو دوسری جنگ عظیم پڑھانے کے لیے انسٹاگرام ریلز بنانا ہے۔
یعنی یہودی ایک تاریخ کے استاد کو چند تاریخی استعارے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ فلم ہولوکاسٹ پر تنقید کے لیے نہیں بنائی گئی لیکن اس کے باوجود انہیں شک ہے کہ کہیں اس واقعے کی اہمیت میں کمی کا تاثر پیدا نہ ہو جائے۔
اور یہاں ایک امیر لڑکی کی شراب نوشی اور عیاشی کو گلیمرائز کیا جا رہا ہے۔ بظاہر نکاح کا منظر ہے۔ ایک مذہبی فریضے کی ادائیگی دکھائی جا رہی ہے۔
یہ تصور پیش کیا جا رہا ہے کہ امیر ہے تو ضرور عیاش اور شرابی ہو گی۔ کوئی سوال کرے کہ جن ناظرین کو دکھانا ہے ان میں سے کتنے شرابی ہوں گے۔ شادی نکاح اور چند رشتے روایات کے امین ہوتے ہیں، کیا انھیں گھٹیا روپ میں دکھانا ضروری ہے؟
جن سے متاثر ہو کر ایسے تخلیقی مناظر پیش کرتے ہیں، وہ تو ایسے منظر بھی برداشت نہیں کرتے کہ ایک مشکوک واقعے کی توہین کا شائبہ تک ہو۔
مانا کہ ایک محدود طبقہ شرابی بھی ہے، عیاش بھی ہے لیکن کیا ان کے گھٹیا پن اور گندگی کو یوں نشر کرنا ٹھیک ہے؟ کیا نکاح اور شادی کو شراب نوشی اور عیاشی سے جوڑنا ضروری ہے؟ کیا ہر حرام حرکت اور متنازعہ منظر کو محض ایک لائن سکرین پر لکھ کر دکھانا ضروری ہے؟
اپنی سوچ کو وسعت دیں۔ امیر ہونے کا مطلب شرابی اور عیاش ہونا نہیں ہوتا۔ یہاں کبھی شوہر کو تھپڑ مارنے کی مہم چلائی جاتی ہے اور کبھی خونی رشتوں میں ناجائز تعلقات کی۔ یہ تخلیق نہیں ہوتی، یہ صرف اور صرف اپنی ذہنی گندگی کو شہرت اور کمائی کے لیے دکھانا ہوتا ہے۔