27 اکتوبر: کشمیریوں کا یوم سیاہ اور چند سوالات

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

غزہ کے لوگوں کے پاس دو ہی آپشنز تھے۔ وہ جیل سے نکلنے کی ایک بڑی کوشش کرتے یا پھر نسل در نسل دنیا کی بدترین جیل میں وقت گزارتے، اسرائیل کی صیہونی حکومت کے رحم و کرم پر رہتے، جب کہ صیہونی فلسطینیوں کی گردن کے گرد شکنجہ مسلسل کس رہے تھے، ان کی زمین مسلسل ہتھیا رہے تھے، اس پر اپنی بستیاں بسا رہے تھے۔

ایسی بستیاں جنھیں اقوام متحدہ سے لے کر امریکا تک سب ناجائز قرار دیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ ایک آنکھ مِیچ کر ان بستیوں کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں اور ساتھ ہی انھیں تعمیر جاری رکھنے کا اشارہ کرتے ہیں، پھر نئی بستیوں میں آکر بسنے والے یہودی علاقے میں پہلے سے مقیم فلسطینیوں کو مار مار کر علاقہ بدر کرتے ہیں۔

یہ صورت حال 7 اکتوبر 2023 تک جاری رہی، حتیٰ کہ فلسطین کی تحریک مزاحمت حماس نے اسرائیل پر ایسا حیران کن حملہ کیا کہ صیہونی مبہوت رہ گئے۔انہوں نے سوچا نہ تھا کہ حماس کے حریت پسند فضاؤں سے اسرائیل میں اتر آئیں گے، مضبوط  دیوار کو توڑتے ہوئے مقبوضہ علاقے میں داخل ہو جائیں گے۔ بہرحال ایسا ہوگیا۔

اب مشرق وسطیٰ پہلے جیسا نہیں رہا کہ جب یہاں پہلے برطانوی سامراج دندناتا تھا، اس نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اسرائیل کے قیام کو ممکن بنایا، پھر امریکی اس خطے میں آگئے، وہ اسرائیل کی حفاظت کرنے لگے اور پھر اسرائیل کا جغرافیہ بڑھتا رہا، فلسطین کا جغرافیہ کم ہوتا رہا۔ حتیٰ کہ 7 اکتوبر 2023 آگیا۔

مکرر عرض ہے کہ اب مشرق وسطیٰ پہلے جیسا نہیں ہے۔ آنے والے دن دیکھیں گے کہ ظلم و جبر کی بنیاد پر قائم ہونے والی ریاست اسرائیل اور اس کے حامی امریکا، برطانیہ جیسے ممالک مزید دندنا نہیں سکتے۔ اگرچہ وہ اس وقت فلسطینیوں پر انسانی تاریخ کے بدترین مظالم ڈھا رہے ہیں لیکن اب ان کا یوم حساب آن پہنچا ہے۔ یہ کوئی بڑھک نہیں ہے۔

دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں کہ عرب  اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، ان کے ساتھ ایران اور ترکی  بھی ہیں اور چین اور روس بھی۔ ازل سے قانون یہی ہے کہ ظلم و جبر کو دوام نہیں۔ اسے ایک نہ ایک دن مٹ جانا ہوتا ہے۔

اسرائیل کا حامی بھارت بھی سمجھتا ہے کہ وہ ریاست جموں کشمیر پر قبضہ کرچکا، اس کا قبضہ برقرار رہے گا۔ جلد ہی وہ دن آئے گا جب بھارت مبہوت رہ جائے گا۔ سبب محض یہ ہے کہ فطری طور پر کشمیر بھارت کا حصہ نہیں بن سکتا۔

سوال یہ ہے کہ بھارت کیسے کشمیر کو اپنا حصہ قرار دے سکتا ہے، 1948 سے اب تک خود بھارت متعدد بار کشمیر کو ایک ایسا علاقہ تسلیم کرچکا ہے جس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔

اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو اقوام متحدہ کیسے اس کا حل استصواب رائے قرار دے سکتی تھی؟ اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو بھارت نے کیوں‌ پاکستان سے کہا کہ ہم اس کا فیصلہ باہم مذاکرات کے ذریعے کریں گے؟ اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو کشمیر کے ایشو پر بھارت پاکستان کے ساتھ کیوں‌ مذاکرات کی میز پر بیٹھا؟

اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو وہاں شیخ عبداللہ ’شیر کشمیر‘ نہ بنتے۔ وہ ہیرو اس لیے قرار دیے گئے کہ وہ کشمیر کے بھارت کا حصہ نہ ہونے کا نعرہ لگاتے تھے، جب وہ اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹے تو وہ زیرو ہوگئے۔

آج کون جانتا ہے شیخ عبداللہ کو؟ اور کہاں ہیں ان کے بیٹے فاروق عبداللہ اور کہاں ہیں پوتے عمرعبداللہ؟؟ بھلا بھارت نوازبن کر کوئی کتنی دیر زندہ رہ سکتا ہے؟

اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو سید علی شاہ گیلانی سمیت دیگر حریت پسند رہنما کشمیری قوم کی آنکھوں‌ کا تارا کیوں بنتے؟ اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو مسلح جدوجہد کیسے پنپ سکتی تھی اور کامیاب ہوسکتی تھی۔

90 کی دہائی میں خود بھارت سے بھیجے گئے گورنر کشمیر، یہاں کی کٹھ پتلی حکومتیں اور یہاں قابض بھارتی فوج کے جرنیلوں نے مسلح جدوجہد کے مقابل اپنی بے بسی ظاہر کی تھی، سادہ سی بات ہے کہ اگرحریت پسندوں کو کشمیری عوام کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو ان کا کشمیر میں رہنا بھی مشکل ہوتا۔

اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو برہان وانی اور اس سے پہلے کے شہدا کے جنازوں میں مٹھی بھر لوگ ہوتے لیکن یہاں‌لاکھوں لوگ شریک ہوتے تھے اور ہوتے ہیں۔ قابض بھارتی سرکار طرح طرح کی پابندیاں عائد کرکے لوگوں کو جنازوں میں شرکت سے روکتی ہے۔

اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو آج کیسے پورے کشمیر میں، تمام گھروں پر پاکستانی پرچم لہراتے؟ کیسے پاکستانی پرچموں کے سائے تلے مظاہرین سڑکوں پر نکلتے؟

اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو آج بھارتی ٹی وی چینلز پر اس سوال پر مباحثے نہ ہوتے کہ یہ عسکریت پسند کیسے کشمیریوں کے ہیرو بنے ہوئے ہیں؟ ان کے جنازوں میں لاکھوں ‌انسان کیوں شریک ہوتے ہیں؟ جب کشمیری عسکریت پسند بھارتی فوج کے گھیرے میں آتے ہیں تو کشمیری کیوں انھیں محاصرے سے نکالنے کے لیے بھارتی فوج پر پتھراؤ شروع کر دیتے ہیں؟

یہ سب کچھ کشمیر کی صورت حال کو روز روشن کی طرح عیاں کرتا ہے کہ کشمیر بھارت کا نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ کشمیری قوم اور پاکستان کا یہ مطالبہ دنیا کے کس اصول کے تحت غلط ہے کہ کشمیریوں‌ سے پوچھ لیا جائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ  یا پھر ایک خودمختار ریاست کے طور پر زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں؟

اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہے تو پھر بھارتی قیادت کو ڈر کس بات کا ہے؟ وہ استصواب رائے سے کیوں انکار کرتی ہے؟ اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہے تو کشمیری بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرلیں گے نا !!! پھر بھارتی قیادت ریفرنڈم سے کیوں گھبراتی ہے؟

کیا کشمیری کوئی گائے، بکریاں اور مویشی ہیں کہ ان کے گلے میں زنجیر ڈال کر، انھیں اپنے کھونٹے کے ساتھ باندھ لیاجائے گا؟

یہ سوالات ان لوگوں کے لیے بھی ہیں جو بھارتی قیادت کے بجائے بھارتی قوم سے ہیں اور ان لوگوں کے لیے بھی جو پاکستان میں بیٹھ کر بھارت کے گن گاتے ہیں، جو مسئلہ کشمیر کو غیراہم سمجھتے ہیں، جو کشمیر کے ایشو پر پاکستان کے بجائے بھارت کے پلڑے پر اپنا وزن ڈالتے ہیں۔ انھیں بھی خبر ہو کہ اب بھارت کے مبہوت ہونے کی باری ہے۔ مشرق وسطیٰ بدل رہا ہے تو جنوبی ایشیا بھی بدلے گا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں