بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مشیر کاظمی کی ایک مشہور نظم بہت پڑھی گئی اور بہت سنی گئی۔ وہ نظم نہیں بلکہ ایک نوحہ ہے۔

مشیر کاظمی اسے ایک خاص ترنم کے ساتھ پڑھا کرتے تھے، اور خوب رویا کرتے تھے، اس نظم میں ایسی تاثیر تھی کہ سامعین کی آنکھوں سے بھی ٹپ ٹپ برسات برستی رہتی تھی۔

یہ نوحہ سانحہ مشرقی پاکستان کے تناظر میں لکھا گیا۔

پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں

مشیر کاظمی مزید زندہ رہتے تو اقبال کو یاد کرتے، سن اکہتر کے بعد پاکستانی قوم جن المیوں سے گزری، ہر المیے پر مزید ایک نوحہ لکھتے۔ کیا یہ کم المیہ ہے کہ ہم ساری دنیا کو بتاتے ہیں کہ اقبال ہمارے ہیں لیکن اپنی فکرو عمل سے کبھی ثابت نہ کیا کہ وہ ہمارے ہیں۔

جب بھی کوئی پاکستانی بچہ پیدا ہوتا ہے، اس کے کانوں میں اذان اور تکبیر کے بعد ہم یہی بات ڈالتے ہیں کہ پاکستان کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور اس حسین خواب کو تعبیر قائد اعظم محمد علی جناح نے دی، یوں وہ ’بانی پاکستان‘ قرار پائے۔ سین یہاں پر ختم ہوجاتا ہے اور کہانی بھی تمام ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد کون اقبال اور کہاں کا اقبال؟

ہر سال یوم اقبال آتا ہے، اور ایک سوال ذہن میں کلبلانے لگتا ہے کہ  قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں جو کچھ ہوتا رہا اور ہو رہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے علامہ اقبال کہہ سکتے تھے کہ ہاں! میں نے ایسے ہی پاکستان کا خواب دیکھا تھا؟

یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جو آج ہر خاص و عام پاکستانی کو اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر، چند لمحات کے لیے آنکھیں بند کرکے، اپنے آپ سے پوچھ ہی لینا چاہیے۔ اس سوال سے جڑے ایک دوسرے سوال کا جواب بھی دینا چاہیے کہ علامہ اقبال قیام پاکستان کے بعد بھی اب تک زندہ ہوتے تو ان سے کیسا سلوک کیا جاتا؟

آئیے! اس بڑے سوال پر غور و فکر کے لیے میں آپ کی مدد کرتا ہوں۔

سوچیے کہ راولپنڈی کے مشہور لیاقت باغ  میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کے قتل کی خبر  علامہ اقبال کو سننے، پڑھنے کو ملتی تو وہ کیا سوچتے؟

سوچیے کہ 1958 تک سیاست دانوں اور بیورو کریٹوں کے درمیان ہونے والی کشمکش کو دیکھ کر اقبال کی کیفیت کیا ہوتی؟ بالخصوص پاکستان سے محبت کرنے والے مخلص سیاست دانوں سے جو برا سلوک کیا گیا، ان کی دستاریں اتار کر پھینکی گئیں، اسے دیکھ کر مفکر پاکستان کیا کہتے؟

اقبال کی اس وقت کیفیت کیا ہوتی جب وہ دیکھتے کہ ایوب خان نام کا ایک فوجی جنرل دن رات ایسی کتابیں پڑھ رہا ہے کہ ملک پر حکمرانی کیسے کی جاتی ہے؟ اور پھر اس جرنیل نے پستول کی نوک پر اپنے لیے ایوان اقتدار کے دروازے کھلوائے، 10 برس تک ملک پر قبضہ کیے رکھا۔ اس دوران بانی پاکستان کی بہن کو احترام دینے کے بجائے انھیں غدار وطن قرار دیتا رہا۔ اپنی ہی قوم کے مختلف لوگوں کی تضحیک اور توہین کرتا رہا، بنگالیوں، بلوچوں اور پختونوں کے بارے میں طرح طرح کے خیالات ظاہر کرتا رہا، سیاسی جماعتوں پر پابندیاں عائد کرتا رہا۔

سوال یہ ہے کہ علامہ اقبال یہ سب کچھ دیکھ کر خاموش رہ سکتے تھے؟ یقیناً وہ خاموش نہ رہتے۔ سوال یہ ہے کہ وہ بولتے تو کیا بولتے؟ اور ان کے بولنے پر جرنیل ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے؟

یہ ایسا سوال ہے کہ اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے کسی کو ذرا سے تردد کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ اقبال جو بھی بولتے، اس پر وہ بھی غدار وطن قرار دیے جاتے، ان پر غداری کا مقدمہ چلتا، اور پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جاتا۔

آپ کا کیا خیال ہے کہ جس جرنیل نے محترمہ فاطمہ جناح کو بانی پاکستان کی بہن تو دور کی بات ایک عام خاتون جتنا احترام بھی نہ دیا، انھیں قتل کرنے کے طرح طرح کے منصوبے بناتا رہا، اس کے سامنے علامہ اقبال کیا حیثیت رکھتے تھے!

میرا خیال ہے کہ اکہتر کے سانحہ پر مشیر کاظمی نے اقبال کے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے بہت رعایت سے کام لیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اقبال 10 سال تک ملک پر مسلط رہنے والے جرنیل کو سانحہ مشرقی پاکستان کا سب سے بڑا ذمہ دار قرار دیتے۔ اس پاداش میں جنرل ایوب کا جانشین جنرل حسیناؤں کے جھرمٹ میں بیٹھ کر، شراب کے جام لنڈھاتے ہوئے حکم جاری کرتا کہ اس مفکر پاکستان کو ایک بار پھر تختہ دار پر لٹکا دو۔

آپ کا کیا خیال ہے کہ پاکستان کا خواب دیکھنے والے کو 1977 میں ایوان اقتدار پر قبضہ کرنے والا جرنیل زندہ رہنے دیتا؟ 1999 میں پاکستان پر قبضہ کرنے والا جرنیل تو ضرور علامہ اقبال کے فکر و فلسفہ کو دہشت گردی کا منبع قرار دیتا اور اس کی پاداش میں انھیں کسی ڈرون حملہ میں مار دیتا، یا پھر انھیں پکڑ کر امریکا کے ہاتھ بیچ دیتا، انھیں کئی سال گوانتا ناموبے کی جیل میں گزارنا پڑتے۔

 ویسے تو سویلین ادوار میں بھی علامہ اقبال کے ساتھ برا سلوک ہی ہوتا۔ ذرا سوچیے کہ 1971 کے بعد 1977 تک علامہ اقبال کے ساتھ کیا حسن سلوک ہوتا؟ 1988 کے بعد سویلین یا نیم سویلین ادوار میں حکمرانی کرنے والوں میں بہت سے لوگ اب بھی موجود ہیں، وہ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں کہ وہ علامہ اقبال کے فکر و فلسفہ کو کس قدر برداشت کرسکتے تھے؟

ہم شاید عشق و محبت کے  خالی دعوے کرنے والے لوگ ہیں۔ ہم 9 نومبر اور 21 اپریل کو اقبال کی قبر پر صرف پھول چڑھانے والے لوگ ہیں، ہم اقبال کو مفکر اور فلسفی  سمجھتے تو ان سے ایسا سلوک کرتے؟ ہم اقبال کو اپنا سمجھتے تو مملکت پاکستان کی تعمیر ان کے فکر و فلسفہ کی بنیاد پر کرتے اور جہاں میں شاہین کی صورت زندہ رہتے اور ہمیشہ زندہ رہتے۔ اقبال کی فکر اور فلسفہ  محض فکر و فلسفہ نہیں، ایک مکمل دستور مملکت ہے، آئین جہاں بانی ہے۔ لیکن ہم انھیں سمجھ نہ سکے۔

افسوس کہ ہم اقبال کی قدر نہ کرسکے!! کیا ایسا نہیں ہے؟؟؟

خون میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی
روح قائد بھی سر کو جھکائے ہوئے
کہہ رہے تھے سبھی کیا غضب ہوگیا
یہ تصور تو ہرگز ہمارا نہیں


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں