علامہ اقبال اور ہمارے نوجوان

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

حکیم الامت علامہ محمد اقبال کی یاد کو جس انداز سے ان کے یوم پیدائش کے ساتھ مشروط کردیا گیا ہے، ہمیشہ میرے لیے تکلیف دہ رہا ہے۔

اب کے میں نے سوچا چلو اس حوالے سے کچھ نوجوانوں کی نگارشات دیکھتی ہوں، شاید کہ کچھ حیاتِ اقبال یا پیغامِ اقبال کی جھلک نظر آ جائے، لیکن میرے دکھ میں اس وقت اضافہ ہوا، جب زیادہ تر افراد نے 9 نومبر سے بات شروع کی، پھر خودی، شاہین اور عشق وغیرہ تین، چار الفاظ کی تکرار کے ساتھ ایسے فقرے گھسیڑ دیے جیسے پانچویں کلاس کا طالب علم نمبر لینے کے لیے اردو کے پرچے  میں اقبال پر سوالات کے جواب  لکھتا ہے۔

افسوس آج کا نوجوان پیغامِ اقبال کو سمجھنے سے قاصر ہے، سبب یہ ہے کہ وہ بیچارہ لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم کا حصہ ہے اور اس نظامِ تعلیم کا تو مقصد ہی یہ تھا کہ ہر سال ذہنی غلاموں کی ایک کھیپ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکلے اور سرمایہ دارانہ نظام کی نوکری کے قابل ہو جائے۔ ایسے میں کہاں کی خودی، کون سا شاہین، کدھر کی تہذیب؟

تہذیب سے یاد آیا نوجوانو! خود علامہ اقبال نے اس مادہ پرست تہذیب کے سمندر میں غوطہ زنی کی ۔ ہاں! مگر مرعوب ذہنیت کے ساتھ نہیں بلکہ آزاد طبع کے ساتھ ۔ آزاد طبع سے ہماری مراد آوارہ مزاجی نہیں بلکہ وہ مزاج جو پھول اور کانٹے میں فرق پہچان سکے۔

معلوم ہے نا بیرسٹری کی تعلیم انگلستان میں حاصل کی تھی اقبال نے! پھر جوں جوں وہ اس مغربی تہذیب کو قریب سے دیکھتے گئے، اس کی اصلیت، اس کے کھوکھلے پن اور قند کی صورت اس کے زہر ہلاہل کی جوہری ترکیب کو بھانپتے چلے گئے۔

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی

جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہوگا

ہاں مگر ۔۔۔۔۔ افسوس خود اقبال جس نوجوان سے امید لگائے بیٹھے تھے، جس کی تربیت کی خاطر کبھی طارق بن زیاد کے روپ میں اندلس کے میدان میں جا کھڑے ہوئے، کبھی خدائے ذوالجلال سے شکوہ کر بیٹھے، کبھی ابلیس کی پارٹی کے سارے ایجنڈے کھول کر رکھ دیے۔ افسوس وہی تن آسان اس شاخِ نازک کا سہارا بن گیا۔

ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالیں ایرانی

لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی

نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں

کہ پایا میں نے استغنا میں معراج مسلمانی

آج لوگ کسی مغربی ملک میں دو چار ماہ گزار لیتے ہیں تو اپنی زبان اردو ہی سے نظریں چرانے لگتے ہیں۔ میں متعدد ایسے افراد کو جانتی ہوں جو انگلینڈ، امریکا، کینیڈا میں مقیم ہیں اور ان کے بچوں کی زبان مکمل طور پر انگریزی ہے، نہ صرف زبان بلکہ دل و دماغ بھی۔

امت کے جوانو! اقبال نے مغربی تعلیم حاصل کی، ادب، معاشیات، فلسفہ سیاست۔ اس تعلیم میں بھی وہ مبتدی نہیں تھے بلکہ  ’امامت‘ کے درجے پر فائز تھے۔ موجودہ دور میں ان کے پائے کا امامِ فلسفہ دور دور تک نظر نہیں آتا۔ جانتے ہو مگر وہ شریعتِ اسلامی، اسلامی تہذیب، روح و معانئ قرآن کے بارے میں کسی احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہوئے بلکہ جوں جوں تعلیمی مدارج بڑھتے گئے وہ قرآن میں ڈوبتے گئے۔ حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آیا کہ اس ایم اے پی ایچ ڈی بارایٹ لاء نے تمام کتابوں کو الگ کر دیا اور سوائے قرآن کے وہ کوئی کتاب اپنے سامنے نہ رکھتے تھے۔ سالہا سال علوم و فنون کے سمندر میں غرق رہنے والے اقبال نے یہ راز پا لیا کہ اصل علم قرآن ہے۔

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن

قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن

ایک مرتبہ کسی نے ان کے پاس فلسفہ کے چند سوالات بھیجے اور ان کاجواب مانگا۔ اب علامہ اقبال کے قریب رہنے والے افراد توقع کر رہے تھے کہ اقبال فلسفہ کی کتب پہ مشتمل الماریاں کھولیں گے، کتب کھنگالیں گے اور پھر جواب لکھیں گے۔۔۔ مگر وہ  یہ  دیکھ  کر حیران رہ  گئے کہ  علامہ اقبال نے کسی الماری کو  ہاتھ  تک نہ لگایا بلکہ صرف قرآن ہاتھ  میں لیا اور جواب  لکھنے بیٹھ  گئے۔

یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

اقبال کے مخاطب نوجوان نے گزشتہ دو تین صدیوں سے نہ صرف کروڑوں بے گناہ انسانوں کو استعماری طاقتوں کی خوں آشام آرزوؤں کی بھینٹ چڑھتے دیکھا ہے بلکہ بین الاقوامی و قومی ہر سطح پہ عدل و مساوات کا خون ہوتا دیکھا ہے۔ بھوک، افلاس، جہالت کے عذابوں  نے اس کا کڑا امتحان لیا ہے۔ مایوسی کے کالے سائے بھی پھیلائے گئے۔ اس سب کے باوجود مزاحمت، نصب العین، استقامت، پامردی، خود داری،غیرت ملی کا استعارہ یہ نوجوان بہرحال میدان سے بھاگا نہیں ہے۔ بھلے وہ ڈاکٹر عبد القدیر خان ؒ ہو یا ڈاکٹرعافیہ صدیقی۔

اور۔۔۔۔۔

اور یا پھر بحیرہ روم  کے  مشرق میں القدس کی حفاظت کاعزم لیے حماس کے نوجوانوں کی اپنے سے کئی گنا بڑی طاقت کے آگے ڈٹے رہنے کی داستانیں ہوں۔ مارٹر گولے اسرائیل کے آہنی ٹینکوں کو تباہ کررہے ہوں۔ عالم کفر کے جدید ترین انٹیلی جنس نظام میں دراڑیں پڑتی نظر آ رہی ہوں۔

یہ سب علامہ اقبال ؒ کے تصور خودی کی عملی تعبیریں ہیں۔

غفاری و قہاری و قدوسی و جبروت

یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلماں

ہے کوئی اقبال کا مداح؟؟؟

سنو!

حکیم الامت کے اشعار کو گویوں اور سازندوں کے حوالے مت کرو خدارا ! بلکہ پاکستان کو شاعرمشرق کے خواب کی حقیقی تعبیر دینے کے لیے سنجیدہ کوشش کرو۔

اس کی شاعری کو گورکھ دھندا نہ بنا چھوڑو بلکہ اس کی شاعری کو تعلیمی نصاب میں اس کی روح کے مطابق شامل کرو۔

یہ سب تب ہی ممکن ہوگا جب ہم مملکت خداداد کو حقیقی اسلامی مملکت بنانے کی جدوجہد کا حصہ بن جائیں گے کیونکہ

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشاہو 

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں