الیکشن 2024: کیسے بدلے گی آپ کی تقدیر؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا:  

اے اللہ کے رسول ﷺ ! قیامت کب آئے گی؟ 

آپ نے فرمایا :

جب امانت میں خیانت ہو تو قیامت کا انتظار کرنا۔

اس شخص نے پوچھا: امانت میں خیانت کیا ہے؟

آپ ﷺ نے فرمایا: امانت میں خیانت یہ ہے کہ معاملات نااہل لوگوں کے سپرد کر دیے جائیں؟

(صحیح بخاری ، کتاب العلم، حدیث (59)

یہ حدیث پاک قرآن مجید کی سورہ النساء؛ آیت نمبر58 کی تفسیر ہے:

 ’مسلمانو! اللہ تعالیٰ تمھیں تاکید حکم دیتا ہے کہ امانتیں، اہل امانت کے سپرد کرو۔ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو، تو عدل کے ساتھ کرو اللہ تعالیٰ تمھیں بہترین نصیحت کرتا ہے اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے‘۔

شرعی اعتبار سے ووٹ کی چند حیثیتیں ہیں۔

ووٹ کی پہلی حیثیت شہادت اور گواہی کی ہے۔ ووٹر اپنے اس ووٹ کے ذریعے اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ یہ ممبر اپنی استعداد کے اعتبار سے اس منصب کی قابلیت و صلاحیت رکھتا ہے، اسلام اورملک وقوم کے لیے مفید و خیر خواہ بھی ہے۔

 ووٹ کی دوسری حیثیت مشورہ دینا ہے۔ ملک کا شہری اپنے ووٹ کے ذریعے دور حکومت اور انتظامی امور کے سلسلہ میں اپنی رائےکا اظہار کرتا ہے کہ سیاسی امور میں کون زیادہ بہتر، ایماندار اور دیانتدار ہے۔

 ووٹ کی تیسری حیثیت سفارش کی ہے کہ ووٹر اپنے ووٹ کے ذریعہ سفارش کرتا ہے کہ یہ امیدوار ایک اہم عہدہ سنبھالنے اور اس کو کماحقہ نبھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ووٹ کی چوتھی حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹر اپنے ووٹ کے ذریعہ اس امیدوار کو اپنی نمائندگی کے لیے حکومت میں اپنا وکیل نامزد کرتا ہے۔

 ووٹ کی پانچویں حیثیت سیاسی بیعت کی ہے کہ ووٹر اپنے ووٹ کے ذریعے متعلقہ امیدوار کو وکیل بناتا ہے کہ وہ اس کی طرف سے سربراہ مملکت کا انتخاب کرے۔ بیعت کے لیے ضروری نہیں کہ ہاتھ ہی سے بیعت کی جائے، چنانچہ بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ہے:

’حضرت عبداللہ بن دینار فرماتے ہیں: میں اس وقت موجود تھا جب لوگوں نےعبدالملک بن مروان پر اتفاق کر لیا ( یعنی اس کے ہاتھ پر بیعت کی) تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیعت کا خط ( عبدالملک بن مروان کو ) اس مضمون کا لکھا: میں اللہ کے بندے عبدالملک بن مروان کا حکم سننے اور اطاعت کرنے کا اقرار کرتا ہوں، اللہ کی شریعت اور اس کے پیغمبر کی سنت کے موافق جہاں تک مجھ سے ہو سکے گا ، اور میرے بیٹے بھی ایسا ہی اقرار کرتے ہیں‘۔(صحیح بخاری).

اسی طرح  صلح حدیبیہ کے موقع پر بیعت رضوان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مکہ جانے کے بعد منعقد ہوئی، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :

یہ میرا دایاں ہاتھ عثمان کا ہے‘ اور اسے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا’

’یہ عثمان کی طرف سے بیعت ہے‘۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بات کافی ہے کہ امیر کسی کو بیعت کے لیے وکیل بنائے یا بیعت کرنے والا کسی کو بطور وکیل بھیجے یا خط کے ذریعے سے بیعت کرے۔ جیسا کہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نے بوادر النوادر میں غائبانہ بیعت کے جواز کو مدلل تحریر فرمایا ہے۔ بہر حال اپنا حق رائے دہی کے استعمال کی حیثیت بڑی نازک اور اہم ہے۔

انتخابات اور ووٹوں کی سیاست کو ایک دنیاوی معاملہ سمجھنا اور یہ کہ اس کا دین و مذہب سے کوئی واسطہ نہیں، درست نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ایک عام غلط فہمی یہ پیدا ہوگئی ہے کہ آج کی سیاست محض مکر و فریب کا نام بن چکی ہے،اس لیے کہا جاتا ہے کہ دین دار اور شریف آدمی کو سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے لیکن اس حقیقت کو تسلیم کیا جائے کہ اس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں:

آپ کے ووٹ اور شہادت کے ذریعے جو نمائندہ کسی اسمبلی میں پہنچے گا، وہ اس سلسلہ میں جتنے اچھے یا بُرے اقدامات کرے گا، اُن کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوگی، آپ بھی اُس کے ثواب یا عذاب میں برابر شریک ہوں گے۔   

  اس معاملہ میں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ شخصی معاملات میں کوئی غلطی بھی ہو جائے تو اس کا اثر بھی شخصی اور محدود ہوتا ہے، ثواب بھی محدود، عذاب بھی محدود، لیکن قومی اور ملکی معاملات سے پوری قوم متاثر ہوتی ہے۔  

  سچی شہادت کا چُھپانا از روئے قرآن حرام ہے، اس لیے کسی حلقۂ انتخاب میں اگر کوئی صحیح نظریہ کا حامل اور دیانت دار نمائندہ کھڑا ہے تو اس کو ووٹ دینے میں کوتاہی کرنا گناہ کبیرہ ہے۔  

   جو امیدوار نظریۂ اسلامی کے خلاف کوئی نظریہ رکھتا ہے، اس کو ووٹ دینا ایک جھوٹی شہادت ہے، جو گناہ کبیرہ ہے ۔  

  ووٹ کو پیسوں کے معاوضے میں دینا بد ترین قسم کی رشوت ہے اور چند ٹکوں کی خاطر اسلام اور ملک سے بغاوت ہے۔ دوسروں کی دُنیا سنوارنے کے لیے اپنا دین قربان کردینا کتنے ہی

 مال و دولت کے بدلے میں ہو، دانشمندی نہیں ہو سکتی۔ رسو ل پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:

’وہ شخص سب سے زیادہ خسارے میں ہے جو دوسرے کی دنیا کے لیے اپنا دین کھو بیٹھے‘۔

(تاریخ ابن عساکر ج51:ص 133)

ووٹ کا معاملہ دراصل ہم میں سے ایک ایک فرد کا ذاتی معاملہ ہے ، جس میں وہ اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اگر ہمارے ووٹوں سے فاسق و فاجر اور اللہ کے باغی لوگ منتخب ہو کر ہم پہ مسلط ہو گئے تو اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو پکڑ کر پوچھیں گے کہ جب میں نے تم کو آنکھیں دی تھیں تو تم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی بجائے دوسروں کی اندھادھند پیروی کیوں کی؟ بتائیے، اس سوال کا آپ اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے؟ (تقاریر، مولانا مودودی رحمہ اللہ: حصہ دوئم ص  :142 )

آپ کا ایک ایک ووٹ انتہائی اہميت کا حامل ہے۔ ووٹ جمہوری معاشرے میں ایک طاقتور ترین غیر متشدد ہتھیار ہے۔ ووٹنگ کے ذریعے آپ اپنی حکومت پر ملکیت کا احساس پیدا کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی خاطر خواہ تبدیلی بھی لا سکتے ہیں۔ ووٹنگ افراد کو ملک، مقامی حلقے یا انتخابی امیدوار کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی بھی اجازت دیتی ہے۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا بالکل غلط نہیں ہے کہ دن بدن ووٹرز کی تعداد ہمارے ملک میں گھٹ رہی ہے، یا گھٹائی جا رہی ہے، لوگوں کو حق انتخاب سے دور کیا جا رہا ہے اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ لوگ خود دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔

دیہاڑی دار مزدوروں  کا کہنا ہے کہ اگر وہ ووٹ دینے جائیں گے تو اس دن کی چھٹی کرنا پڑتی ہے، اس سے پیسہ بھی خرچ ہوتا ہے اور اس دن کی مزدوری بھی نہیں مل پاتی، جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کوئی بھی لیڈر اس لائق نہیں ہے کہ اس کو ووٹ دے کر کرسی پر بٹھایا جائے، جیتنے کے بعد وہ اپنی گاڑیوں میں گھومیں گے اور ہمیں پوچھنے والا کوئی بھی نہ ہوگا۔

ایک بڑی وجہ ووٹ نہ دینے کی یہ بھی ہے کہ زیادہ تر لوگ اپنے شہر یا گاؤں سے باہر رہتے ہیں، ان کے اندر کسی طرح کی قومی دھارے میں شامل ہونے کی  بیداری نہیں ہوتی۔ کچھ مسائل بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں مثلا  آپ کا نام ووٹنگ لسٹ میں نہ آنا، نام کے اسپیلنگ غلط ہونا، ووٹر لسٹ میں جنس کی غلطی یا مکان تبدیل کرنے پر آپ کا الیکشن کمیشن کی طرف سے نام ہٹا دیا جانا،عام بات ہے۔  یا فوت شدہ لوگوں کا لسٹوں میں نام موجود رہنا جعلی ووٹنگ کی وجہ بنتا ہے ۔

 آپ کا ووٹ ہی فیصلہ کرے گا کہ آپ کس کو حکومت میں بٹھانا چاہتے ہیں اور کس کو گرانا چاہتے ہیں؟

 حکومت عوام کی، عوام کے ذریعہ اور عوام کے لیے ہوتی ہے۔

 یہ پتہ لگانا ہمارا فرض ہے کہ ہم غربت کو کم کرنے، بزرگوں کی تعلیم، بنیادی سہولتوں، ماحولیاتی تحفظ ، زراعت اور یہاں تک کہ شہری ترقی جیسے مسائل پر کہاں کھڑے ہیں۔ دنیا میں اب بھی کچھ ممالک ایسے ہیں، جہاں لوگ اپنی حکومت کا انتخاب نہیں کرسکتے، کیونکہ ان کو ووٹ دینے کا حق نہیں ہے۔ ووٹنگ ایک حق اور خصوصی استحقاق ہے جسے پانے کے لیے ہمارے آباؤاجداد نے لڑائی لڑی ہے۔ اس لیے لوگوں کو صرف ناظرین بنے رہنے اور شکایت کرنے کے بجائے جمہوریت کی کامیابی کے لیے اس میں حصہ لینا ہو گا، کیونکہ اگر آپ اپنے مفادات کے لیے ووٹ نہیں دیں  گے تو پھر کون ملت کی تقدیر بدلنے کو آگے آئے گا؟

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہرفرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

ملت کی خیر خواہی کے لیے عوام و خواص کے احساس کو زندہ کرنے اور مستقل زندہ رکھنے کے لیے دن رات ایک کرکے محنت کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور سچے دل سے گزشتہ کوتاہیوں کی معافی مانگتے رہنا، نیت کے اخلاص کی پہلی شرط ہے ۔

تیز ترک گامزن منزل ما دور نیست


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “الیکشن 2024: کیسے بدلے گی آپ کی تقدیر؟”

  1. Eesha Raazia Avatar
    Eesha Raazia

    بہت اہم نکات ۔آسان انداز میں واضح کئے گئے ہیں۔