تحریر: ڈاکٹر اظہار الحق ہاشمی
بچھڑنے والے کو آج تین سال ہو گئے۔
دعائے مغفرت!!!
شاہد حمید اور بک کارنر، یک جان دو قالب
مَیں نے ڈرتے، جھجکتے دُکان کی سیڑھیوں پر قدم رکھا۔ حالات ہی کچھ ایسے تھے۔ جب میں نے نظر اُٹھا کر اُوپر دیکھا تو ایک شخص کو متوجہ پایا۔ اُس کی گول گول گھومتی آنکھیں گویا مجھے تول رہی تھیں۔ ایک لمحے کے لیے میں نے سوچا کہ واپس لوٹ جاؤں لیکن اُس شخص کی نظر نے جیسے میرے پاؤں منجمد کر دیے ہوں۔ چند لمحے اور گزر گئے، پھر میں نے ہمت کی اور دُکان میں داخل ہو گیا۔
میرے مقابل شخص خاموش تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ میرے متزلزل اعتماد کو بحال کرنا چاہ رہا ہو اور میں بھی یہی چاہ رہا تھا۔ میں نے یونہی دائیں بائیں کتابوں میں جھانکنا شروع کر دیا۔ وہ شخص خاموش تھا۔ میں نے مُڑ کر دیکھا تو محسوس ہوا، اُسے قطعاً جلدی نہیں ہے اور وہ مجھے بولنے کا موقع فراہم کرنا چاہ رہا ہے۔
ضیاء کا مارشل لا اپنے عروج پر تھا۔ نظریاتی کشمکش نے لوگوں کے درمیان منافرتوں کے پہاڑ کھڑے کر دیے تھے۔ اندھی طاقت کے سامنے لوگوں کے حوصلے پھر بھی لا جواب تھے۔ قید، کوڑے، اذیتیں اور کردار کشی نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ بھٹو صاحب کو پھانسی دی جا چکی تھی۔ خوف و ہراس کا دامن وسیع تر ہوتا جا رہا تھا۔ ایسے میں نظریاتی اور ترقی پسند ادب، ادیب اور قارئین کے لیے زمین تنگ ہو چکی تھی۔
ظلِ الٰہی کا حکم تھا کہ معاشرے میں ایسی تحاریر اور افراد کی بیخ کنی کی جائے اور انھیں استحصالی کوڑے سے سبق سکھایا جائے۔ سفّاکی، بربریت، نحوست اور ظلم کی اِس رات کو سر پر آئے ہوئے تین برس گزر چکے تھے۔ مایوسیوں کے گہرے بادل چھٹنے کا تاحال کوئی امکان بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔
’وہ جی… السلام علیکم، میں وہ…‘ میں نے ہکلاتے ہوئے گفتگو کا آغاز کیا۔ ساڑھے سولہ برس کا پریشان حال لڑکا اور کر بھی کیا سکتا تھا۔
کاؤنٹر کے پیچھے کھڑا ہوا شخص بھانپ چکا تھا کہ نوخیز، نو آموز بھی ہے اور ابھی پَر پُرزے نکلنے میں کچھ وقت درکار ہے۔
ایک توقف کے بعد اُس نے سلام کا جواب دیا۔ اُس نے خانۂ چشم میں تھرکتی آنکھوں، چہرے کے مدوجزر اور اشارے کنائے سے پوچھا، ’کیا چاہتے ہو؟‘
’ بس مَیں نے سوچا کتابیں دیکھتا چلوں اور بس ‘
’برخوردار !کیا مسئلہ ہے، کیا چاہیے، پریشانی کیا ہے؟ ‘ اب اُس شخص کا رویّہ مشفقانہ اور مخلصانہ معلوم پڑا۔
میرا تھوڑا سا اعتماد بحال ہوا اور میں نے دو تین لمبے لمبے سانس لیے۔
اگست 1980ء کا تیسرا ہفتہ تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے، عیدالفطر کو گزرے کچھ ہی دن ہوئے تھے اور میرے پاس عیدی کی مد میں کچھ پیسے اکٹھے ہوئے تھے۔ میں کتاب خریدنا چاہتا تھا۔
میں نے کاؤنٹر پر آگے کی طرف جھکتے ہوئے اور ہکلاتے ہوئے کہا، ’وہ بھٹو صاحب والا عید کارڈ ہے؟ ‘
اُس شخص نے معنی خیز نظروں سے میری طرف دیکھا اور بولا، ’عید گزر چکی ہے، اب تم عید کارڈ کا کیا کرو گے؟ تمھیں پتا ہے، ایسے کارڈ بیچنا منع ہے۔ تم کون ہو اور کیا کرتے ہو؟ ‘
میں مکمل طور پر حواس باختہ ہو چکا تھا۔ گلا خشک ہوگیا، سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگی اور میں نے عافیت سمجھی کہ بھاگ نکلوں۔
میں جیسے ہی مڑا، شکاری نے بھانپ لیا، شکار راہِ فرار اختیار کرنے والا ہے۔ اُس نے بڑی رازداری سے کہا ’آؤ، عید کارڈ لے جاؤ‘۔ میں شش و پنج میں تھا، اسی اثنا میں اُس شخص نے بھٹو صاحب کی تصویر والا کارڈ میری آنکھوں کے سامنے لہرایا۔
میں دوبارہ مڑا اور کاؤنٹر سے قریب ہوا۔ وہ بڑے دھیمے۔۔۔۔ لیکن پُریقین لہجے میں بولا، ’تم کون ہو اور کیا کرتے ہو؟‘
میں نے اپنا نام بتایا اور مزید کہا، ’میں ایف ایس سی، پری میڈیکل کا طالب علم ہوں۔‘
اُس شخص نے دوبارہ پوچھا، ’کارڈ کا کیا کرو گے؟‘
چند لمحوں کے بعد میں نے اُنھیں بتایا، ’مجھے کارڈ نہیں چاہیے۔‘ مجھے … پھر سے چُپ لگ گئی۔ خاموشی کا وقفہ طویل ہوتا گیا اور بالآخر اُس نے پوچھ ہی لیا، ’بتاؤ کیا چاہیے؟‘
’مینی فیسٹو چاہیے۔‘ ہچکچاتے ہوئے میں نے کہا۔
’م ایف ایس سی میں پڑھتے ہو، ڈاکٹر بننا چاہتے ہو، جاؤ اپنی تعلیم پر توجہ دو اور اِن فضولیات سے دور رہو۔‘ اُس شخص نے بہت اپنائیت سے یہ بات کہی۔
’تو کیا آپ جانتے ہیں میں کیا مانگ رہا ہوں؟‘
’ہاں مجھے معلوم ہے تم ’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘ کی بات کر رہے ہو اور وہ میرے پاس موجود ہے لیکن تمھیں نہیں دوں گا۔‘
اُس کا لہجہ قطعیت کا غماز تھا۔ میں جیسے ہی واپسی کے لیے مڑا، اُس نے جلدی سے شیلف سے ایک کتاب نکالی اور لفافے میں ڈال کر میری طرف بڑھا دی۔ میں نے چپ چاپ وہ کتاب پکڑ لی، پیسے ادا کیے اور چل دیا۔
راستے میں حواس بحال ہوئے تو اپنی حالت پر تاسف ہوا، لینے کیا گیا تھا اور پتا نہیں کیا لے آیا ہوں۔ گھر آ کر بھورے کاغذی لفافے سے کتاب نکالی تو وہ سعید راشد صاحب کی کتاب تھی۔
کتابوں سے محبت، 10پیسے اور پھر 15پیسے کرائے پر لائبریری کی کتب سے شروع ہوئی۔ یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری تھا۔ یہ پہلی کتاب تھی جو انگریزی زبان میں تھی اور موضوع لیڈر شپ تھا۔
تو یہ تھی پہلی مُلاقات شاہد حمید صاحب سے، پہلی شناسائی بک کارنر سے اور پہلا تعارف سعید راشد صاحب سے۔ یہ واقعہ تمام تر جزئیات کے ساتھ میری آنکھوں کے سامنے محوِ رقص ہے۔ اِس کے قریباً چھے ماہ بعد، بوجوہ جہلم سے لاہور ہجرت کرنا پڑی۔ جہلم چھوڑنا میرے لیے بہت ہی تکلیف دہ امر تھا۔ بہرصورت ایسا ہی ہونا تھا اور ایسا ہی ہوا۔
ایف ایس سی کے امتحان کے بعد میں دوبارہ جہلم آیا۔ پہلے ہی دن میں شام کے وقت بک کارنر پر موجود تھا۔ وہی شخص، بے قرار آنکھیں، دھیمی سی مسکراہٹ اور خیر مقدمی رویّہ۔ اِس مرتبہ میں قدرے پُراعتماد طریقے سے دُکان میں داخل ہوا۔
’جی سر، کیسے ہیں آپ؟ بہت عرصے بعد دوبارہ آئے ہیں، خیریت ہے…‘ وغیرہ وغیرہ۔ میں نے جواباً کہا ’میں ٹھیک ہوں شاہد صاحب، آپ کیسے ہیں؟‘
شاہد صاحب نے حیرت سے دیکھا اور پوچھا، ’میرا نام آپ کو کیسے معلوم ہوا؟‘میں نے کہا، ’کیا مطلب ہے آپ کا؟ آپ کو تو بہت سے لوگ جانتے ہیں۔‘ وہ بولے، ’لیکن میں نے پہلی مُلاقات میں نام تو نہیں بتایا تھا۔‘ شاہد صاحب کی یادداشت کمال کی تھی۔
میں نے کہا، ’جناب آپ گُم نام شخص نہیں ہیں۔ ‘
’اچھا تو ایف ایس سی کا کیا بنا؟‘ شاہد صاحب نے پوچھا۔
’امتحان دے آیا ہوں، ان شاء اللّٰہ اچھی اُمید ہے۔‘
’بھئی میڈیکل کالج داخل ہو جاؤ گے۔‘ وہ دوبارہ بولے۔
’ان شاء اللّٰہ۔‘ میں نے مختصراً کہا۔
شاہد صاحب نیچے جھکے اور ذرا سی دیر میں انھوں نے ایک خاکی لفافہ میرے ہاتھ میں تھما دیا۔
میں نے حیرت سے اُن کی طرف دیکھا اور بولا، ’سعید راشد کی ساری کتابیں میں نے ہی پڑھنی ہیں۔‘
شاہد صاحب نے میری طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا اور بولے، ’ذرا لفافے میں جھانک لیجیے۔‘
میں نے لفافے میں جھانکا تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔ ’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘ میری طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ میں حیرت اور خوشی سے گنگ تھا، مجھ پر شادیٔ مرگ کی کیفیت طاری تھی۔ شاہد صاحب میری مسرّت اور جوش سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ میری حالت دیکھ کر وہ بولے، ’برخوردار میں نے پہلی مُلاقات کے بعد ہی یہ کتاب تمھارے لیے علیٰحدہ کر رکھی تھی۔ مجھے یقین تھا، تم ضرور آؤ گے۔‘
حیرت اور استعجاب سے میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا، لفظ کہیں کھو سے گئے تھے۔ پہلی مُلاقات کا ناصحانہ اجنبی پن یک لخت ریزہ ریزہ ہو گیا۔ میرا دل چاہا اس شخص کو بے اختیار گلے لگا لوں۔ تھوڑی دیر میں گفتگو شروع ہوئی تو مجھے پتا چلا کہ وہ میرے والد کو جانتے تھے اور مجھے بھی پہچانتے تھے۔ شاید کسی جگہ انھوں نے مجھے والد صاحب کے ہمراہ دیکھا ہو۔
میڈیکل کالج کے پانچ سال پَر لگا کر اُڑ گئے۔ اس دوران چند ہی مرتبہ جہلم جانا ہوا اور ہر مرتبہ مُلاقات رہی۔ ڈاکٹر بننے کے فوراً بعد جہلم کی محبّت نے بدن توڑ انگڑائی لینا شروع کر دی۔ میں لاہور چھوڑ کر جہلم آ گیا۔ شاہدصاحب سے رابطہ دوبارہ اُستوار ہو گیا، کتابوں اور کتابوں کی باتیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میرے ذوق کی آبیاری میں شاہد صاحب اور بک کارنر نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ معیاری کتابیں، خصوصی رعایت اور محبّت کے ساتھ۔
کئی مرتبہ ایسا ہوا، میں نے سوچا آج صرف شاہد صاحب سے مُلاقات کروں گا اور کتاب نہیں خریدوں گا اور ہر مرتبہ یہ ہوتا کہ خوش اطوار، چابک دست اور مہربان مجھے کچھ نہ کچھ تھما دیتے۔ میں خود کو کوستا اور کتاب اُٹھا کر چل دیتا، بعد ازاں خوش بھی ہوتا۔
ایک مرتبہ میں نے سوچا، اب کی بار میں خالی جیب بک کارنر جاؤں گا اور دیکھوں گا، شاہد صاحب کتاب کیسے بیچتے ہیں۔ انھوں نے گفتگو کے ساتھ ساتھ چند نئی کتابیں سامنے رکھیں۔ میری طرف سے صاف انکار تھا۔ وہ میرے منہ کی طرف دیکھتے رہے، پھر دوسری دُکان میں گئے اور چند لمحوں بعد لوٹ آئے۔ اُن کے ہاتھ میں کافی پُرانی کتاب تھی۔ کتاب میرے سامنے رکھتے ہوئے بولے، ’’کشف المحجوب کا انگریزی ترجمہ ہے! نکلسن کا… سن کا چھپا ہوا ہے۔‘‘ (سالِ اشاعت مجھے یاد نہیں رہا)، ’تحفہ ہے تحفہ۔‘
میں نے بے بسی اور بے چارگی سے شاہد صاحب کی طرف دیکھا اور بولا، ’میرے پاس تو پیسے ہیں ہی نہیں، پھر لے جاؤں گا۔‘ شاہد صاحب بولے، ’ڈاکٹر صاحب آپ کے لیے رکھا تھا، آپ ہی لے کر جائیں گے اور ہاں پیسے آ جائیں گے۔‘ واہ کیا محبّت تھی!
کچھ عرصہ بعد شیلف کا مزاج بدلنا شروع ہو گیا۔ اب رنگا رنگ، مختلف موضوعات سے متعلق کتب کی جگہ سرخ، سبز اور نیلی جلدوں نے لینا شروع کر دی۔ ایک دن میں نے کتابوں کی شیلف کی طرف دیکھتے ہوئے شاہد صاحب سے کہا، ’بس اب دال روٹی پر گزارا ہو گا۔ رُوح کی تسکین، اب لطافت، تنوُّع، تغیّر، تفکّر، تدبُّر اور تعقُّل کی بجائے صرف ثواب سے ہو گی اور وہ بھی اندھے مقلد کی طرز پر، کولہو کے بیل کی مانند۔‘
مجھے پہلی مرتبہ محسوس ہوا کہ میرے سوال سے وہ محظوظ نہ ہو پائے۔ بیگانگی اور دُکھ کی خفیف لہر نے ان کے چہرے کو گہنا دیا۔ ان کی روایتی مسکراہٹ اور پتلیوں کی ہمہ وقت حرکت دم توڑ گئی۔ ’ڈاکٹر صاحب، جو بکتا ہے وہی چھاپوں گا۔ بہت مشکل سے زندگی کے معاملات سیدھے ہوئے ہیں۔ آپ کیا چاہتے ہیں؟‘
’ماشاء اللّٰہ دُکانیں ایک سے دو ہو گئی ہیں اور گودام علیٰحدہ۔‘ میں نے فوراً ہنس کر بات ٹال دی۔
میں دوبارہ لاہور آ گیا۔ زندگی میں مصروفیت بڑھ گئی۔ جہلم کا چکّر لگتا رہا اور بک کارنر سے رابطہ بھی۔ بک کارنر ترقی کی منازل طے کرتا جا رہا تھا، ایک سے ایک بڑھیا کتاب، متنوع موضوعات اور بے مثال طباعت۔ خیال آفرین، جمال آفرین، وجد آفرین۔ ایک طرف بک کارنر ترقی کی شاہراہ پر گامزن تھا تو دوسری طرف گگن و امر، شاہد صاحب کے زیرِ سایہ حسنِ کردار اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے مالا مال ہو رہے تھے۔ شاہد صاحب ان بچوں کے اتالیق ٹھہرے۔ انھوں نے بچوں کو محبّت کرنا، اطاعت کرنا، محنت کرنا اور ادب نوازی سے مرصّع کر دیا اور خود اکھاڑے سے باہر بیٹھ کر حوصلہ افزائی شروع کر دی۔
ان کے آخری چند برسوں میں مُلاقات کچھ کم رہی اور لگتا تھا وہ بھی کچھ تھک سے گئے ہیں۔
مرنجان مرنج، ہنستا مسکراتا اور رابطہ ساز آہستہ آہستہ سنجیدہ ہوتا گیا۔ میں نے ایک دو مرتبہ اس طرف توجہ دلائی۔ مجھے لگا وہ اپنے بچوں کی تربیت اور بک کارنر کی ترقّی، دونوں کو جیسے بہت غور سے دیکھ رہے ہوں۔ وہ مطمئن اور پُراعتماد تھے۔
بہت سی باتیں یاد آ رہی ہیں، بہت سی یادیں شاہد حمید صاحب اور بک کارنر سے وابستہ ہیں۔ جاتے جاتے بھی یقیناً وہ کئی احسان کر گئے ہیں۔ گگن اور امر کی شکل میں کتابوں اور بک کارنر کو جاوداں کر گئے ہیں۔
آخری بات، شاہد حمید صاحب اور بک کارنر لازم و ملزوم ہیں، یک جان دو قالب۔ بک کارنر دراصل ایک زندہ جاوید کردار ہے۔ شاہد حمید صاحب اِس کے دل میں ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
اللّٰہ ان پر اپنی بے حساب نعمتوں کے دروازے وا کر دے اور جنت میں اعلیٰ ترین مَقام عطا فرمائے۔ آمین!
ایک تبصرہ برائے “آہ شاہد حمید، واہ شاہد حمید!”
بہت عمدہ ۔۔۔۔ خاکہ،تاثراتی مضمون ،تاریخ،احساسات و جذبات کا مرقع،ادبیت سے
بھر پور انداز بیان ،نادر تشبیہات ۔۔۔اور بہت کچھ۔۔