خلیل-احمد-تھند، پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی

9 مئی: سانحہ، حادثہ یا مفروضہ؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

9 مئی کو سانحہ کہیں، حادثہ کہیں یا مفروضہ، اس واقعے نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ایک سال گزرنے کے باوجود ملک اس کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکا۔ ایک سیاسی جماعت اور اس کے ہم نواؤں کی طرف سے اس دن کو اس قدر مذاق کا نشانہ بنایا جارہا ہے گویا قوم اسے سنجیدہ لینے کی بجائے ایک طربیہ ڈرامہ تصور کر کے نظر انداز کر دے۔

یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ عدم اعتماد کے وقت عمران خان کا رویہ جمہوری سوچ کا عکاس نہیں تھا۔ انہوں نے تحریک عدم اعتماد کا سامنا جمہوری انداز میں کرنے کی بجائے دھکا شاہی کا طرز عمل اختیار کیا۔

انہوں نے گراؤنڈ پر موجود سیاستدانوں کا مقابلہ سیاسی انداز سے کرنے کی بجائے پس پردہ موجود اسٹیبلشمنٹ کو اپنے مقابل لا کھڑا کیا۔ اس سوچ سے تعین ہو جاتا ہے کہ عمران خان اقتدار کا اصل مالک اسٹیبلشمنٹ کو سمجھتے تھے۔ اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ 2018 میں وہ خود اس تجربے سے گزر چکے تھے۔

ساڑھے تین سال کے بدترین تجربے کے بعد اسٹیبلشمنٹ جب عمران خان کی حمایت سے دستبردار ہو رہی تھی تو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان سے یہ ہضم نہیں ہو رہا تھا۔ ماضی کے اپنے گہرے رومانس کی وجہ سے ہی انہوں نے سیاسی قوتوں کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کو نشانے پر رکھا۔ کبھی ان کے ترلے کیے اور کبھی دھمکی دی لیکن دلی ان سے دور ہی رہی۔

عمران خان کے حامیوں کا موقف ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کے بعد انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو ننگا کردیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ خود بھی بری طرح ننگے ہو چکے تھے۔

عمران خان نے موقف اختیار کیا کہ اسٹیبلشمنٹ چوروں کو اقتدار دے کر ملک تباہ کر دے گی جبکہ اسٹیبلشمنٹ نے کہا کہ وہ نیوٹرل ہیں۔ عمران خان نے جواباً کہا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیں۔ منت، ترلے، دھمکی سمیت تمام حربے جب کارگر نہیں ہوئے تو مایوس ہو کر انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی قیادت اور سیاسی مخالفوں کو غدار قرار دے دیا۔ اس کے بعد پی ٹی ورکرز کی طرف سے افواج پاکستان کے خلاف ملکی تاریخ کی انتہائی گھٹیا اور تضحیک آمیز مہم جوئی کی گئی۔

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھانے کے لیے عوامی پاور شو کا راستہ اختیار کیا۔ اپنے موقف میں جان پیدا کرنے کے لیے انھوں نے اپنی اقتدار سے محرومی کو امریکی کارروائی قرار دیا۔ جواز کے طور پر امریکی سفیر کی پاکستانی سفیر سے گفتگو پر مشتمل سائفر کو پیش کیا جو بذات خود ایک  تحقیق طلب قضیہ ہے۔ کسی امریکی آفیشل نے آج تک باضابطہ اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔

عمران خان اور ان کی ٹیم نے بہت ہوشیاری سے اپنا موقف آگے بڑھایا۔ پی ڈی ایم حکومت کی غلطیوں اور ناقص کارکردگی نے عمران خان کے موقف کو بھر پور تقویت فراہم کی۔ یہی وجہ ہے کہ  وزیراعظم عمران خان کے ساڑھے تین سال کی بدترین کارکردگی کے باوجود عوام نے ان کی مفروضہ باتوں پر ایک مرتبہ پھر یقین کرلیا۔

عوامی پذیرائی کے خمار میں عمران خان اور ان کے قابل اعتماد ساتھی ملک کو سری لنکا بنانے کی دھمکیاں اور مثالیں دیتے رہے جو ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ بنی گالا اور زمان پارک نو گو ایریاز بنا دئیے گئے۔ عدالتوں میں پیشی کے وقت عمران خان ہزاروں افراد کا جلوس لے کر چلتے۔ چیف جسٹس بندیال اور کئی دیگر ججز انہیں ایسا پروٹوکول فراہم کرتے رہے جس کی مثال ملکی تاریخ میں نہیں ملتی۔ وہ عدالتوں کے باہر اپنی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ضمانتیں حاصل کرتے رہے۔ انھوں نے سول عدالت کو عوامی اجتماع میں دھمکیاں دیں۔ ان حالات میں انہیں گرفتار کر لیا گیا جس کے بعد عوامی ردعمل کی آڑ میں پی ٹی آئی ورکرز نے ملک بھر میں افواج پاکستان کے مراکز پر چڑھائی کر دی۔ پی ٹی آئی بلوائیوں نے آرمی املاک میں بدترین توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔ فوجی وردیوں کو فاتحانہ انداز میں لہرا کر تضحیک کا نشانہ بنایا۔ افواج سے تعلق رکھنے والے قومی ہیروز کے مجسموں کو توڑا اور بدترین طریقے سے ان کی تذلیل کی۔ بلووں سے پہلے اور بلووں کے موقع پر پی ٹی آئی لیڈرشپ اور ورکرز کی گفتگو کوئی وہم وخیال نہیں ہے۔

عمران خان نے 9 مئی واقعات کو عوامی ردعمل قرار دیا۔ بعد میں اس کی حساسیت کے پیش نظر اس سے لاتعلقی کا اعلان کردیا۔ تیسرے مرحلے میں اسے خود ساختہ کارروائی قرار دے کر اپنے خلاف سازش قرار دے دیا۔ ان کی ٹیم نے موقف اختیار کیا کہ جائے واردات سے پولیس کا غائب ہونا اور سیکیورٹی اداروں کا مزاحمت نہ کرنا پی ٹی آئی کے خلاف سازش کی دلیل ہے۔

سوال یہ ہے کہ جائے واردات پر پی ٹی آئی قیادت اور ورکرز کیا کرنے گئے تھے؟

کیا موقع پر پی ٹی لیڈرز اور ورکرز کی موجودگی سے انکار کیا جاسکتا ہے؟

اگر مان لیا جائے کہ حکومت پی ٹی آئی کو ٹریپ کر رہی تھی تو کیا اس دلیل کو ان واقعات کا جواز قرار دیا جا سکتا ہے؟

ہماری نظر میں 9 مئی کے واقعات اتنا سادہ معاملہ نہیں ہے کہ اسے آسانی سے نظر انداز کردیا جائے۔ یہ ایک واقعہ یا سانحہ نہیں ہے بلکہ ایک منظم لیکن ناکام بغاوت کا نام ہے۔

ہماری سمجھ کے مطابق عمران خان، ان کی سیاسی جماعت، سول و فوجی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو 9 مئی واقعات سے الگ کر کے حقائق تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ یہ واقعات درست ہیں یا مفروضہ، ہر دو صورتوں میں اس کے خالقوں کا تعین اور انہیں نشان عبرت بنایا جانا ضروری ہے ورنہ مستقبل میں ایسی وارداتوں کی تکرار کو روکنا کسی صورت ممکن نہیں ہوگا۔ ہماری نظر میں حقائق پر پردہ پوشی ایک قومی جرم کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ایک تبصرہ برائے “9 مئی: سانحہ، حادثہ یا مفروضہ؟”

  1. جاوید اصغر Avatar
    جاوید اصغر

    بہت عمدہ اور جامع مضمون ۔۔۔۔ جس میں حل بھی تجویز کیا گیا ہے ۔۔۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے