حافظ-نعیم-الرحمٰن-،-امیر-جماعت-اسلامی-پاکستان

جماعت اسلامی کو اب کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

آپ کی اپنی ذات ہو یا پوری کائنات، ان کے سرسری جائزے کے بعد ایک بات جو آپ کو بغیر کسی ابہام کے واضح طور پر نظر آتی ہے، وہ ان میں پائی جانے والی انتہا درجے کی تنظیم ہے۔ کائنات کا مطالعہ تنظیم سمجھنے کے لیے ایک درسی کتاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کائنات کو اس کے خالق نے ایسے شاندار تنظیمی ڈھب کے ساتھ بنایا ہے کہ انسانی عقل اس میں موجود نظم کو دیکھ کر خدائے باری تعالیٰ کی بے پایاں عظمت کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتی ہے۔ اس کائنات کے ہر عنصر کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ بیک وقت آزاد بھی ہے اور دوسرے عناصر کا محتاج بھی۔ وہ وصول کنندہ Recepient بھی ہے اور عطا کنندہ Donor بھی، وہ فاعل بھی ہے اور مفعول بھی، وہ اپنی ذات میں مکمل بھی ہے اور دوسروں کے بغیر ادھورا بھی۔ وہ چھوٹا ہے مگر مغلوب نہیں، اور بڑا ہے تو غالب بھی نہیں۔ ہر ایک کا اپنا اپنا دائرہ کار اور ٹائم ٹیبل ہے۔کوئی چیز بیکار نہیں ہے۔ کوئی کسی کے کام میں بے جا مداخلت نہیں کرتا، بلکہ کائنات کے ہر ذرے میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ہمہ وقت تعاون کی فضا قائم ہے۔ کائنات کے اس نظام میں تنظیم اور تدبیر کے واضح اشارات موجود ہیں۔

دنیا تیزی سے تبدیلیوں کا سامنا کر رہی ہے۔ ماضی میں حکومتیں زندگی کے بیشتر شعبوں میں نمایاں کردار ادا کرتی تھیں، لیکن اب اس کے برعکس نجکاری عام ہو چکی ہے۔ نئی تجارتی پالیسیاں کاروباری اداروں کو سپورٹ کر رہی ہیں۔ اس ماحول کا فائدہ اٹھا کر تجارتی اداروں نے اپنی سلطنتوں (امپائرز) کی تعمیر کا آغاز کر دیا ہے۔ بجا طور پر یہ خوف پایا جاتا ہے کہ مستقبل میں حکومتیں کمزور ہو جائیں گی اور کارپوریٹ اداروں کے اختیارات بڑھ جائیں گے۔ ان کاروباری اداروں کی ترقی کے پیچھے نئے مواقع اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ، بزنس اسٹرکچر اور کاروباری اداروں کی تنظیم نو کا بھی اہم کردار ہے۔ 

تنظیم جدید دور کا ایک ایسا زندہ موضوع ہے جس پر ہر روز نئی تحقیق سامنے آ رہی ہے۔ آج کی تنظیم اس تنظیم سے بالکل مختلف ہے جسے ہم پہلے جانتے تھے۔ پچھلی صدی میں تنظیم کا مطلب جکڑ بندیاں تھیں، جبکہ جدید تنظیم آزادی اور اختیارات پر مبنی ہے۔

حکومت ہو یا غیر حکومتی ادارے، کاروبار ہو یا مذہبی اور رفاہی ادارے، بہترین تنظیم کی اہمیت، بہتر کارکردگی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ جدید تنظیم کو سمجھنے کے لیے کارپوریٹ دنیا کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ بہترین تنظیمی سٹرکچر کی تحقیق پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری بھی کارپوریٹ دنیا ہی کر رہی ہے۔ انہیں یہ معلوم ہے کہ اگر کوئی بزنس وقت کی رفتار سے پیچھے رہ جائے تو اسے ماضی کا حصہ بنتے دیر نہیں لگتی۔

جدیدتنظیم کی بنیاد یہ ہے کہ اس کے سب سٹیک ہولڈرز، اختیار، احساس ملکیت، اور باہمی مفاد کے حصول اور ترویج کے لیے آزادی کے ساتھ کام کریں۔ اس کی کامیابی اس پر ہے کہ اس کی سیڑھی کے سب سے نچلے قدم پر کام کرنے والا کارکن بھی ملکیت اور مشترکہ اختیار کے احساس کا حامل ہوتا ہے۔ ایک اچھے تنظیمی سٹرکچر کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے خود کو نئے زمانے کے تقاضوں کے مُطابِق ڈھال لینے (Reinvent & Restructure) کی صلاحیت رکھتا ہے۔ موجودہ دور میں تنظیمی سٹرکچر کے مختلف ماڈل چل رہے ہیں۔ ہم طوالت سے بچنے کے لیے کچھ کاروباری اداروں کا ڈائریکٹ جائزہ لیتے ہیں بجائے کہ صرف سٹرکچرز کی بحث کریں۔

جدیدتنظیم کا ایک مظہر فرنچائز ماڈل ہے، جہاں مالک کمپنی اپنے کامیاب کاروبار کو بڑھانے کے لیے مختلف چھوٹے اداروں کو اپنے ساتھ ملاتی ہے۔ نام، کوالٹی، ٹریننگ، اور سپورٹ سسٹم مالک کمپنی کی ذمہ داری ہوتی ہے، جبکہ چھوٹا کاروباری سرمایہ لگاتا ہے، محنت کرتا ہے، اور منافع کماتا ہے، جو طے شدہ فیصلے کے مطابق دونوں میں تقسیم ہوتا ہے۔

سیون الیون اس وقت دنیا کی بڑی فرنچائزی کمپنی ہے، جس کے ساتھ ستر ہزار دیگر چھوٹے کاروبار مل کر اس کے سیون الیون سٹورز چلا رہے ہیں۔ سیون الیون کی طرف سے فرنچائزیوں کو دیا گیا برانڈ نام، ملکیتی احساس، اور اچھا شرح منافع وہ ٹولز ہیں جو اس کے کاروبار کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی دے رہے ہیں۔

تحریک اسلامی سے متعلقہ تنظیموں کے لیے اس ماڈل سے سیکھنے کے لیے بہت کچھ موجود ہے۔

جدید تنظیم کی ایک اور مثال اوبر، ای بے اور ایمیزون ہیں جہاں بہت خوبصورتی سے خریدار، دکاندار، اور مالک بزنس بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کر کے اپنے اپنے مقاصد حاصل کر رہے ہیں۔ افراد کی رسائی، اشیا کی فراہمی، اور کوالٹی اور منافع کا حصول بہترین طریق پر حاصل کیا جا رہا ہے۔ تمام سٹیک ہولڈرز میں آزادی فیصلہ، احساس ذمہ داری، اور ملکیت کا احساس بھرپور موجود ہے۔ 

بڑی کارپوریٹس مثلا GE، Siemens، Virgin Group کے تحت ایسی ذیلی کمپنیاں ہیں جو زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔ بعض ایسی کارپوریٹس بھی ہیں جن کی زیرِ انتظام کمپنیاں ایک ہی شعبے میں آپس میں مقابلہ کر رہی ہیں۔ جیسے JPMorgan کی ملکیت میں موجود دو فنانشل ادارے آپس میں ہی مقابلہ کر رہے ہیں۔ بعض کمپنیوں کی پراڈکٹس یا برانڈز آپس میں مقابلے کا شکار ہوتی ہیں۔ ان تمام مثالوں میں ایک مشترکہ بات یہ ہے کہ یہ ذیلی کمپنیاں تقریباً خود مختار ہوتی ہیں، لیکن سب مل کر مادر کارپوریٹ کو فائدہ پہنچا رہی ہیں۔

آئی ٹی میں ڈیٹابیسز سے تعلق رکھنے والے افراد MongoDB جیسے ڈیٹابیس کی آرگنائزیشنل سٹرکچر کے بارے میں خاص طرح کے مطالعات کے بعد اس بحث میں قابلِ قدر اضافہ کر سکتے ہیں، خاص طور پر Unstructured آور SemiStructured ڈیٹابیس کی صورت میں۔

تحریک اور تنظیم دونوں معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ دو الفاظ اکثر ایک دوسرے کے متبادل طور پر استعمال ہوتے ہیں، لیکن ان میں بنیادی فرق ہے۔

تنظیم ایک مستقل اور منظم ڈھانچہ ہوتی ہے جس کا مقصد کسی خاص نصب العین کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس میں شمولیت کا ایک مخصوص طریق کار ہوتا ہے اور اس کے ارکان کو واضح کردار اور ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں۔ یہ ایک مخصوص قیادت رکھتی ہے۔

جبکہ تحریکیں عام طور پر غیر رسمی اور غیر منظم ہوتی ہیں جو کسی نظریے کی بنیاد پر کام کر رہی ہوتی ہیں۔ تحریکیں عام طور پر عوام کے شعور کو اپیل کرتی ہیں اور جذباتی سطح پر انہیں متحرک کرتی ہیں اور ان میں مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے متحد ہونے کا جذبہ پیدا کرتی ہیں۔ اس کی کوئی مرکزیت نہیں ہوتی۔ ڈیفاینڈ لیڈرشپ نہیں ہوتی۔ کوئی بھی فرد اس نظریہ کو اپنا سکتا ہے اور اس کا پرچارک بن سکتا ہے۔ ایک یا ایک سے زیادہ ادارے، تنظیمیں یا ممالک اس کا حصہ بن سکتے ہیں۔

نظریہ کچھ اعتقادات اور اصولوں پر مشتمل ایک جامد اور بے جان شے ہے۔ افراد، تنظیمیں اور تحریکیں نظریے میں جان پیدا کرتی ہیں۔ یہ کہ لیجیے کہ نظریہ روح ہے جس کا جسم تحریک یا تنظیم ہے۔ روح اور جسم کے ملنے سے زندگی پیدا ہوتی ہے۔ نظریہ ایک فکری غذا ہے جس پر تحریکیں اور تنظیمیں نشو ونما پاتی ہیں۔ نظریہ کو گاڑی کے لیے ضروری پیٹرول کی طرح سمجھا جا سکتا ہے، اور تحریک اس گاڑی کی مانند ہے جو اس پیٹرول کو استعمال کرکے آگے بڑھتی ہے۔ جبکہ تنظیم وہ ڈرائیور ہے جو گاڑی اور اس میں موجود سواریوں کو منزل مقصود پر پہنچاتا ہے۔

نظریاتی تحریکیں جدوجہد کے مختلف راستے اختیار کر سکتی ہیں۔ کچھ تحریکیں ذہنی آبیاری، عوامی مطالبات اور قانونی دلائل پر مبنی ہوتی ہیں، جیسے کہ قراردادِ مقاصد جس نے پاکستان کے اسلامی تشخص کو محفوظ کیا۔ دوسری تحریکیں طوفان کی طرح تند و تیز ہوتی ہیں، جیسے کہ تحریکِ ختمِ نبوت جس نے سینکڑوں جانوں کی قربانیوں اور جیلوں اور پھانسی گھاٹوں کے بعد کامیابی حاصل کی۔

تاریخ میں کئی انقلابات اور احتجاجی تحریکیں سامنے آئی ہیں جنہوں نے دنیا کو بدل دیا ہے۔ انقلابِ فرانس اور انقلابِ ایران انقلابی تحریکوں کی مثالیں ہیں، جبکہ امریکہ کی سول رائٹس موومنٹ عوامی احتجاجی تحریک کی ایک بہترین مثال ہے۔

سوشلزم کی مثال ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح ایک شخص کے دماغ میں ایک سوچ ابھری، پھر اس نے اسے ایک نظریے کی شکل دی۔ نظریہ تحریک بنا اور اس نے لوگوں کے دلوں میں گھر کیا۔ اس عوامی پذیرائی نے ایک تنظیم کو جنم دیا اور پھر اس تنظیم نے اقتدار پر قبضہ کر کے ملک میں سوشلزم کو نافذ کر دیا۔ یہاں بات ختم نہیں ہوئی بلکہ اس نظریے کی بنیاد پر کئی ملکوں میں سوشلزم کی تحریکیں اٹھیں اور کئی تنظیمیں وجود میں آئیں۔ کچھ تنظیمیں انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہوئیں اور کچھ ناکام رہیں۔

بسا اوقات ایک نظریے کے بنیاد پر اٹھنی والی تحریک کے مقاصد کے حصول کے لیے کئی تنظیمیں بیک وقت کام کر رہی ہوتی ہیں. اس کی ایک واضح مثال تحریک نسواں (فیمینزم) ہے جس کے نصب العین کے حصول کے لیے بیک وقت ایک ہی ملک میں کئی تنظیمیں مختلف محاذوں پر کام کر رہی تھیں۔

 تحریک کے نتیجے میں اٹھنے والی عوامی بیداری ہو یا  طوفان، تنظیم کا کردار دونوں کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے بروئے کار لانا ہوتا ہے۔

بیانیہ کیا ہے؟ بیانیہ ایک ایسا جامع فقرہ یا نعرہ ہوتا ہے جس میں سیاسی جماعت کا ویژن، عوام کے مسائل کا حل، ان کی خواہشات کی ترجمانی اور ان کے جذبات کی وابستگی شامل ہوتی ہے۔

تحریک اسلامی سے متعلقہ دنیا بھر میں پھیلی کم و بیش تمام تنظیموں کا سٹرکچر کم از کم ایک صدی پرانا ہے۔ اس میں طاقت اور اختیارات کا منبع مرکزی شوریٰ ہے۔ امیر کا رول کارپورشن کے سی ای او جیسا ہے جسے شوریٰ کے تجویز کردہ فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا ہوتا ہے۔  اس سنٹرلائزڈ سٹرکچر کے اہم عناصر میں سست روی، فیصلوں میں تاخیر، ریڈ ٹیپ، کمیونیکیشن کی کمی، جدید زمانے کے مطابق خود کو ڈھالنے سےاحتراز، کارکنان میں بے اطمینانی اور سینس آف اونرشپ کی عدم موجودگی اور عوام سے فاصلہ ہونا شامل ہیں۔

جماعت اسلامی کے کارکنان کا مطلوب رضائے الہی بذریعہ انقلاب امامت ہے جو ایک طویل جدوجہد کا متقاضی ہے۔ چونکہ خدا کے ہاں کوشش مقصود ہے نتیجہ نہیں، اس لیے اس جدوجہد کو ماپنے کا طریقہ کار رزلٹ بیسڈ کے بجائے ایکٹویٹی بیسڈ ہے۔ اسی لیے بظاہر ناکامی بھی کسی نہ کسی درجے میں کامیابی ہے لیکن خیال رہے کہ یہ بات کارکن کی حد تک تو درست ہے لیکن ذمہ داران کا خدا کے ہاں دیہاڑی دار مزدور والا عذر کسی کام نہ آئے گا۔ ذمہ داران اور شوریٰ سے اللہ کو احسان کے درجے کی کوشش مطلوب ہے۔ ان کا کام یہ ہے کہ اگر تحریک کے راستے میں کوئی رکاوٹ آگئی ہے تو وہ دوسرا راستہ اختیار کریں گے۔ اگر ایک لائحہ عمل کامیاب نہیں ہو رہا تو وہ سائنٹفک ریسرچ اور مشاورت کے بعد ایک جدید طریق کار وضع کریں گے اور سٹریٹجی تبدیل کی جائے گی۔ لیڈرشپ کی سطح پر دیہاڑی دار مزدور والی سوچ موجود ہونا خطرناک ہے، یہی وجہ ہے کہ سالہا سال کی کوششوں کے باوجود کسی تبدیلی کا نہ آنا بھی کسی مؤثر احتساب کا باعث نہیں بنتا اور حالات جوں کے توں رہتے ہیں یا خراب تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔

عموماً یہ سوال کئی بار سر اٹھاتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ جماعت اسلامی سے متعلقہ لوگوں کے ذاتی کاروبار تو خوب ترقی کرتے ہیں لیکن انہی لوگوں کو جب کوئی ذمہ داری دی جاتی ہے تو وہ پرفارم نہیں کر پاتے۔ دیگر اہم وجوہات کے علاوہ ایک وجہ کارکردگی ماپنے کا یہ سسٹم بھی ہے۔ ذاتی/کاروباری اداروں میں ان لوگوں کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ اگر کوئی ملازم مطلوبہ KPIs کو حاصل نہیں کر پاتا تو اسے فارغ کر دیں۔ کاروبار میں پورا سسٹم کم ایکٹویٹی اور زیادہ نتائج کے گرد گھومتا ہے۔ اگر کاروبار کی کارکردگی / منافع میں کمی آ جائے تو اسٹیک ہولڈرز فوراً کارروائی کرتے ہیں۔ احتساب ہوتا ہے جس کے نتیجے میں کئی افراد اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ بہت سی تبدیلیاں اور اکھاڑ پچھاڑ ہوتی ہیں۔ جماعت میں کارکردگی ماپنے کا سسٹم رزلٹ بیسڈ کر دیا جاۓ تو یقیناً حالات بہتری کی طرف گامزن ہوں گے۔

جماعت اسلامی: پاکستان کی سب سے بڑی دینی جماعت ہے۔ دعوت و تبلیغ ہو یا سیاست، دینی و دنیوی تعلیم ہو یا صحت کا شعبہ، رفاہ عامہ کی خدمات ہوں یا معاشیات و معاشرت کے ادارے، جماعت اسلامی ملک کے طول و عرض میں زندگی کے ہر شعبے میں خدمات انجام دے رہی ہے۔ شاید ہی زندگی کا کوئی ایسا شعبہ ہو جہاں جماعت اسلامی سے متعلقہ تنظیم کام نہ کر رہی ہو۔

ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو نظر آتا ہے کہ اسکولز، کالجز، یونیورسٹیز اور دینی تعلیمی اداروں میں جماعت اسلامی سے متعلقہ دس سے بارہ تنظیمیں سرگرم ہیں۔ خواتین کا مضبوط ونگ علیحدہ سے فعال ہے۔ الخدمت کے علاوہ جماعت اسلامی کے نظم کے تحت غزالی اور ریڈ فاؤنڈیشن جیسے دیگر چھوٹے بڑے درجنوں ادارے کام کر رہے ہیں۔

اساتذہ کے لیے تنظیم اساتذہ، ڈاکٹرز کے لیے پیما، انجینئرز کے لیے انجینئرز فورم، کسانوں کے لیے کسان بورڈ، کاروباری افراد کے لیے بزنس فورم موجود ہیں۔ جماعت اسلامی اور اس کی ذیلی تنظیموں کے تحت درجنوں میگزین، رسالے اور مجلے ماہانہ بنیادوں پر شائع ہو رہے ہیں۔
جماعت اسلامی کا کارکن بہترین لٹریچر پڑھتا ہے، اس کے دل میں امت کا درد ہے، تبدیلی کا جذبہ ہے. لیکن یہ جذبہ اسے ایک خودکار کارکن کیوں نہیں بناتا؟ غلطی کارکن میں ہے، ٹریننگ میں ہے یا تنظیم میں؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا بہت ضروری ہے۔

یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اتنے ذیلی ادارے اور تنظیموں کا وسیع نیٹ ورک ہونے کے باوجود جماعت اسلامی عملی طور پر کوئی بڑی تبدیلی کیوں نہیں لا پا رہی؟

اس کی ایک کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی تنظیم نے اس کی تحریک کو اغوا کر لیا ہے۔ اتنا منظم تنظیمی سٹرکچر کسی فوجی یا نیم فوجی ادارے کے لیے تو موزوں ہوسکتا ہے لیکن کسی عوامی جماعت کے لیے ہرگز نہیں جو ووٹ کی پاور سے تبدیلی لانا چاہتی ہو۔ 

اخوان المسلمون اکثر مصر میں عتاب اور پابندیوں کا شکار رہتی ہے۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ تنظیمی ڈھانچے کی عدم موجودگی کے باوجود وہ ہر الیکشن میں ایک نئی سیاسی جماعت تشکیل دیتی ہے اور ووٹوں کا بڑا حصہ حاصل کر لیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اخوان المسلمون ایک تحریک ہے اور کسی تنظیمی ڈھانچے کی محتاج نہیں۔

طیّب اردوان کی کامیابی ہمیں بتاتی ہے کہ کیسے ایک نوزائیدہ اور مختصر سٹرکچر والی تنظیم نے ایک عوامی بیداری کی لہر پیدا کی اور پھر اس لہر پر سوار ہوکر الیکشنز میں پے در پے کامیابیاں حاصل کیں۔ 

پاکستان میں تحریک انصاف کی صورت میں عمران خان کی کامیابی کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ اس کی کامیابی میں بیرونی عوامل کا دخل تھا، پھر بھی یہ دیکھنا ضروری ہے کہ بیرونی یا اندرونی عوامل نے کون سے ایسے طریقے استعمال کیے کہ ایک شخص، جو کمزور تنظیم اور غیر مؤثر ٹیم کے باوجود، ایک دیوتا کی مانند مقبول ہو گیا۔ اور اس کی مقبولیت میں کسی قسم کی کمی نہیں آ رہی۔

اخوان المسلمون، طیّب اردوان اور عمران خان کی کامیابی کسی مضبوط تنظیمی سٹرکچر کی بجائے ان کے مضبوط بیانیہ کی مرہون منت ہے۔ کسی تنظیمی سٹرکچر کے بغیر ایک عام شہری پورے خلوص اور جذبے کے ساتھ اپنے لیڈر، بیانیہ اور تحریک کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے تحریک انصاف کی بیشتر لیڈرشپ کو بزور قوت منحرف کروایا، اس کا پہلے سے کمزور تنظیمی سٹرکچر بالکل ختم ہو گیا، لیکن اس کی مقبولیت میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی۔

کامیابی کی ان مثالوں سے یہ بات واضح ہے کہ مضبوط تنظیم، تربیت یافتہ کارکن اور لٹریچر کامیابی کی ضمانت نہیں بلکہ نظریہ اور بیانیہ کی مقبولیت ہی کسی عوامی جماعت کو الیکشن میں کامیابی سے ہمکنار کرسکتی ہے۔ 

جماعت اسلامی کی مضبوط تنظیم کا ایک نقصان یہ ہوا ہے کہ اس کی وجہ سے عوام اور جماعت کے درمیان ایک پردہ حائل ہوگیا ہے۔ اس سے بڑی مصیبت یہ ہوئی کہ کارکن دعوت، تربیت اور عوامی رابطے کے لیے تنظیمی دھکے کا محتاج ہوگیا ہے، از خود سٹارٹ نہیں ہوتا۔ آج آپ کسی شہر کا تنظیمی سٹرکچر ختم یا منجمد کر دیں، پورے کا پورا کام یک لخت ختم ہوجائے گا۔ اخوان کا کوئی بھی فرد بغیر کسی تنظیم اور ہدایات کے ازخود اپنا حصے کا کام میکانیکی انداز میں کر رہا ہوتا ہے۔

تنظیمیں دو طرح کی ہوسکتی ہیں۔ 

  • ایک، جہاں نظریہ موجود ہے اور اسے عوامی پذیرائی حاصل ہے۔ اس صورت میں تنظیم کا مقصد تحریک کومطلوبہ رخ دینا ہے اور عوامی پذیرائی کو جذب کر کے تبدیلی لانا ہے۔
  • دوسری صورت میں نظریہ موجود ہے لیکن اسے عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہے۔ اس صورت میں تنظیم کا مقصد نظریہ کو ہر ممکنہ طریقے سے عوام کے قلب و اذہان میں اتارنا ہوتا ہے اور ایک تحریک کو جنم دینا ہوتا ہے۔ جب تک نظریہ کو عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہوتی، تبدیلی کی کوئی بھی کوشش کار لاحاصل ہوتی ہے۔

پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جس کے عوام کی اسلام کے ساتھ جذباتی وابستگی بہت گہری ہے۔ اس سب کے باوجود جماعت اسلامی جس نظریے کو لے کر اٹھی ہے، تاحال اسے عوام میں پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی۔ ایسے میں لازم ہے کہ پہلے نظریے کی ترویج پر کام کیا جاۓ اور اس کی بنیاد پر تحریک اٹھائی جاۓ۔ عوام اور نظریے کے درمیان جتنی بھی رکاوٹیں ہیں انھیں ترجیح اول کے طور پر دور کیا جاۓ۔

موجودہ طریق کار اور سرگرمیوں کو ترک کر کے جدید تحقیق کے مطابق نیا طریق کار اور سرگرمیاں ڈیزائن کی جائیں۔ اس کی بنیاد جدید مواصلاتی ٹیکنالوجیز، بشمول سوشل میڈیا، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز، اور انٹرایکٹو ٹولز ہوں تاکہ وسیع تر سامعین کے ساتھ مؤثر طور پر رابطہ اور  نظریہ کی ترویج کی جا سکے۔ تنظیم براۓ دعوت و تربیت نہ ہو بلکہ دعوت، تربیت، تنظیم اور باقی سب کچھ بھی ​ تحریک برپا کرنے کے لیے ہو۔

جماعت اسلامی مختلف جہات میں کام کرنے اتنی بڑی جماعت بن چکی ہے کہ اس کے لیے کسی ایک تنظیمی سٹرکچر کا تجویز کرنا مشکل کام ہے لیکن ایک بات طے ہےکہ اتنی بھاری بھرکم جماعت کے لیے سینٹرلایزڈ سٹرکچر مناسب نہیں ہے۔ ایک نئی عمارت بنانا ہوتی تو شاید ہماری تجاویز بہت مختلف ہوتیں۔ ایک بنی بنائی اور بڑی عمارت کا نقشہ تبدیل کرنا بہت مشکل ٹاسک ہے۔ عمارت کو توڑ کر نئی عمارت تعمیر کرنے کی تجویز بھی شاید عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔ موجودہ منظر نامے میں اس قسم کی تجویز بھی شاید قابل قبول نہ ہو کہ چند سالوں کے لیے سیاست کو خیرباد کہہ کر ایک نۓ تنظیمی سٹرکچر کے ساتھ صرف نظریے کی ترویج پر کام کیا جاۓ لیکن اس جامد صورتحال کو بہرحال ایڈریس تو کرنا ہوگا۔ 

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تطہیر افکار اور تربیت عوام کے حوالے سے ہماری کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ سیاسی محاذ پر ہلچل تو خوب ہوتی ہے لیکن اس ساری جدوجہد کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ دہائیاں قبل جہاں پر ہم کھڑے تھے آج بھی کم و بیش وہیں پر ہیں۔

موجودہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ہماری تجویز یہ ہے کہ  جماعت صرف اور صرف نظریے کی ترویج کا کام سنبھالے۔ سیاست اور خدمت  کے کام کو نئی آزاد و خودمختار تنظیموں میں ڈھال دیا جاۓ۔ جن کا فکری تعلق تو جماعت اسلامی کے ساتھ ہو لیکن کوئی تنظیمی تعلق نہ ہو۔ یہ صرف اور صرف ایک مشترکہ سلوگن کے ذریعے جماعت کے ساتھ جڑی ہوں۔ عوام کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد نے یہ نۓ سیٹ اپ بناۓ ہیں لیکن ان سیٹ اپس کی فیصلہ سازی میں جماعت کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ بنیادی تصور یہ ہے کہ فکری محاذ پر تو متحدہ جدوجہد ہو اور نظریہ کے حوالے سے کوئی کمپرومائیز نہ کیا جاۓ لیکن سیاست اور خدمت کے محاذ پر موقع و محل کے مطابق فیصلے کیے جائیں۔ ویژن کی صراحت، طریق کار کی وضاحت اور ٹارگٹ کی سادگی کی وجہ سے اس تقسیم کا فوری فائدہ یہ ہوگا کہ کارکن اور تنظیم دونوں یکسو ہو جائیں گے، رزلٹ بیسڈ جدوجہد کے نتائج کارکن اور قیادت کو تازہ دم اور پر امید رکھیں گے۔ 

​اب ہم اس سٹرکچر اور سٹریٹیجی پر بات کریں گے جو دعوت و تربیت اور نظریے کی ترویج پر کام کریگا۔ سیاست اور الخدمت اس کا حصہ نہیں ہوں گے۔ سیاست اور خدمت کے لیے قائم کردہ تنظیم/تنظیموں پر ہم اگلے باب میں بات کریں گے۔ 

اس تنظیم کو ہم جماعت اسلامی کے نام سے موسوم کریں گے جو ایک نئے عزم، تنظیمی ڈھانچے اور جدید حکمت عملی کے ساتھ دعوت، تربیت اور نظریے کی ترویج کی جدوجہد کرے گی۔

 جماعت اسلامی ایک ہائی برڈ قسم کا تنظیمی سٹرکچر اپناۓ جس کے اوصاف میں لائٹ ویٹ،  فاسٹ کمیونیکیشن، فوکسڈ کوشش اور فاسٹ عمل درآمد ہو۔ جس میں بیوروکریسی اور ریڈ ٹیپ کم سے کم ہو۔ جس کی سٹریٹیجی واضح ہو۔ شوریٰ اور امیر جماعت کے اختیارات میں توازن ہو۔ شوریٰ اورعاملہ میں جدید پروفیشنلز اور کامیاب کاروباری افراد کی تعداد کو بڑھایا جاۓ۔ بیرون ملک موجود تجربہ کار تحریکی افراد سے استفادہ کیا جاۓ۔ ایسا سٹرکچر جس میں کارکنان میں احساس ملکیت (SenseOfOwnership ) ہو۔ ساری کوششوں کر مرکز کارکن بنانا اور اسے نظریے کی ترویج کے لیے کھپانا ہو۔ ( کارکن سے مراد فرد بھی ہوسکتا ہے، ادارہ بھی اور آن لائن ٹول بھی)

بہتر یہ ہے کہ اضلاع ڈائریکٹ مرکز کے ساتھ کام کریں۔ صوبائی تنظیم کو ختم کر دیا جاۓ۔  ضلع کو آبادی کے لحاظ سے مختلف علاقوں میں تقسیم کیا جاۓ۔ ہر علاقے کا دفتر کسی بڑی مسجد میں ہو جس کے ھال میں ۵۰۰ نمازیوں کی گنجائش ہو۔ اگر یہ مسجد بڑے رقبہ پر مشتمل ہو تو بہتر ہے کہ اس کے ساتھ کچھ دیگر سروسز کی فراہمی بھی ہو جیسے عورتوں کے لیے ہال، بچوں کے لیے پارک، سلائی کڑھائی یا دیگر سکلز کی ٹریننگ، میت گاڑی، شادی ہال وغیرہ۔
حلقہ جات ختم کر دیے جائیں۔ کتیبہ طرز پر ہر رکن کو ایک حلقہ تصور کیا جاۓ جس کے ساتھ دیگر کارکن اور عام لوگ جڑے ہوئے ہوں۔ اس رکن/حلقہ اور اس کے ساتھ جڑے دیگر لوگوں کا کام صرف عوام سے رابطہ ہو اور روابط سازی ہو اور اس رابطے کے نتیجے میں عام لوگوں کو علاقائی پروگرام میں شرکت کروانا ہو۔ 

SOPs بناۓ جائیں تاکہ ضلع، علاقہ، ذمہ داران، رکن اور کارکن خودکار طریق پر کام کریں۔ کام اور طریق کار ڈیفائنڈ ہوں۔ ضلعی تنظیم کے ذمہ بہت کم کام ہو، دعوت و تربیت اور ذمہ داریوں کا اصل مرکز علاقہ اور علاقائی مسجد ہو۔

جب انسان کسی شے کو حاصل کرتا ہے یا یہ محسوس کرتا ہے کہ کسی شے کو حاصل کرنے کے قریب ہے تو انسان کا دماغ ایک مادہ خارج کرتا ہے جسے ڈوپامین کہتے ہیں۔ ڈوپامین کی یہ اچانک بڑھنے والی مقدار خوشی، تکمیل، اور کامیابی کے احساسات کو جنم دیتی ہے اور آپ کو اس طرزِ عمل کو دہرانے کی ترغیب دیتی ہے۔

یہ بہت ضروری ہے کہ علاقائی پروگرامز ڈیزائن کرتے ہوۓ ڈوپامین ایفیکٹ کو مدنظر رکھا جاۓ۔ اس بات کو یقینی بنایا جاۓ کہ شرکت کرنے والا ہر فرد علمی، جذباتی اور روحانی fulfilment کا احساس لے کر اٹھے۔ یہ نقطہ بہت اہم ہے۔ اس کے مطابق پروگرام کے مختلف حصے کیے جاسکتے ہیں۔ ایک جس میں علمی گفتگو ہو اور کچھ نیا سیکھنے کو ملے۔ دوسری کوئی چیز عملی ہوسکتی ہے جیسے نوافل کی ادائیگی یا مسنون دعاؤں کا سیکھنا اور اذکار کی ادائیگی۔ پروگرام کے آخر میں ایک اچھی دعا۔

ہر پروگرام میں اس بات کی یاد دہانی کہ آپ کو اللہ نے اگر اپنی راہ میں چن لیا ہے تو اس سے بڑھ کر کوئی اور انعام نہیں ہوسکتا۔ اب ہمیں اس انعام کا حق ادا کرنا ہے۔ خود کار کارکن کی تیاری میں یہ یاد دہانی اہم کردار ادا کرےگی۔

اس لحاظ سے تبلیغی جماعت کی سٹریٹیجی کا مطالعہ مفید رہے گا۔ تبلیغ کے ساتھ ٣ دن لگانے والا شخص بغیر کسی تنظیمی دھکے کے  تبلیغ کے ساتھ خود بخود کیوں جڑا رہتا ہے، اس سوال کے جواب میں آپ کو  ڈوپامین ایفیکٹ ضرور نظر آئے گا۔

کارکن: وہ فرد جو علاقائی پروگرامز میں ریگولر شرکت کرے اور نماز، روزہ کا پابند ہو۔ 

رکن: جس نے بنیادی نصاب رکنیت پڑھا ہو جس کی تمام نمازیں باجماعت ہوں۔ جو اپنی زکوٰۃ جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کرواۓ۔ خودکار کارکن ہو،  لوگوں کو  باقاعدگی سے علاقائی پروگرام میں شریک کرواۓ۔ مرکز جماعت میں ٣ روزہ تربیت گاہ میں شریک ہو، جس کے آخر میں اس سے حلف رکنیت لیا جاۓ۔

 ہمارا رکن حسن البنا کا تیار کردہ وہ کارکن ہو کہ جو تنظیم کی ایک کال پر کرفیو کے باوجود چھتوں کو پھلانگتا، سکیورٹی کی قائم کردہ رکاوٹوں کو عبور کرتا اور ہر قسم کے خطرات کا مقابلہ کرتا مقررہ وقت پر طے کردہ مقام پر پہنچ جائے۔ 

سسٹم میں یہ اہلیت موجود ہو کہ اگر ایک رکن غیر فعال ہوجائے تو سسٹم خودکار طریقے سے اس رکن کو کارکن کے لیول پر لے آئے۔ رکنیت کے معیار پر کوئی کمپرومائز نہ ہو تاکہ فرد کو یہ معلوم ہو کہ اگر میں رکنیت کے فرائض ادا نہیں کروں گا تو رکن نہیں رہ سکوں گا۔

جو لوگ دین کا مزید علم حاصل کرنا چاہیں، ان کے لیے آن لائن کورسز موجود ہوں جنہیں وہ گھر میں بیٹھ کر اٹینڈ کرسکیں۔ گھر میں سہولت نہ ہو تو علاقائی مسجد کے دفتر میں کمپیوٹر کی سہولت موجود ہو۔ 

رکن سازی کی بجائے کارکن سازی پر زور دیا جاۓ۔ رکن ہو یا کارکن دونوں سے تنظیم کا صرف ایک ہی مطالبہ ہو کہ وہ عوام سے رابطے اور روابط سازی کے ذریعے لوگوں کو علاقائی پروگرام میں شریک کروائیں۔ اس سے کارکن یکسو بھی ہوگا اور اسے خود احتسابی کا موقع بھی ملے گا۔ 

جماعت کو ذیلی تنظیموں کا باریک بینی سے جائزہ لیکر دیکھنا چاہیے کہ آیا ان تنظیموں کا جماعت یا نظریہ کو عملاً کوئی فائدہ ہے یا نہیں۔ اگر فائدہ نہیں تو اسے ختم کرکے جماعت میں مدغم کر دینا چاہیے جتنا بوجھ کم ہوگا، اتنا فوکس ہونے میں مدد ملے گی۔ 

 اگران تنظیموں کا جماعت یا نظریہ کو فائدہ ہو رہا ہے تو پھر ان تنظیموں کے دستور کو جماعت کے دستور کے ساتھ لنک کردیا جاۓ جس میں جماعت کو اختیار دیا جاۓ کہ وہ ضرورت پڑنے پر اس ذیلی تنظیم کے نظم کو ختم کر کے نیا نظم بنا سکتا ہے۔ نیز ان تنظیموں کے ووٹنگ ارکان وہی ہوں گے جو جماعت کا نصاب رکنیت پڑھ کر جماعت کے رکن بنیں گے۔ ان کا ہر رکن لوکل حلقے میں جماعت کے نظم کے ساتھ اٹیچ رہے گا۔ ان تنظیموں سے منسلک ہر تعلیمی ادارے، مسجد، مدرسہ، ہسپتال کی بلڈنگ پر جماعت اسلامی کا مشترکہ سلوگن ہوگا۔ اس کے علاوہ برینڈنگ کے لیے مشترکہ یا نیم مشترکہ لوگو، جھنڈا یا رنگوں کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ 

اسلامی جمعیت طلبہ کے لاکھوں فارغین آج جماعت کا حصہ نہیں ہیں۔ اس مسئلے کا حل بھی ذیلی تنظیم کے سٹرکچر میں ہے۔

جس طرح دریا کے وجود کے لیے ضروری ہے کہ پہاڑوں میں بہنے والے جھرنے، ندی اور نالے اس میں آکر ملتے رہیں، اس طرح ایک تحریک کے لیے ضروری ہے کہ مختلف اطراف میں ہونے والی جدوجہد بالآخر تحریک کے دریا میں مدغم ہوجاۓ۔ اس لیے ضروری ہے کہ الخدمت ہو، پیما ہو یا کوئی اور ذیلی تنظیم سب کا ڈائریکٹ ٹارگٹ نظریے اور بیانیے کی ترویج ہو۔

کوئی ایک ایسی ٹیگ لائن ہو جو ہر ذیلی تنظیم، ادارے اور رسالے کے لیے مشترکہ سلوگن کے طور پر استعمال ہو۔ مثال کے طور پر ہر ذیلی تنظیم، ادارہ یا رسالہ ’ ہماری منزل: اسلامی پاکستان، خوش حال پاکستان‘ کو سلوگن کے طور استعمال کرے۔ 

 آسان لٹریچر: یہاں پر یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ ہمارے پاس کوئی ایسا آسان لٹریچر موجود نہیں جس کی مدد سے ہم اپنا  نظریہ کسی کم پڑھے لکھے انسان کو سمجھا سکیں۔ اگر آپ مختلف کارکنان سے تحریک اسلامی کا نظریہ پوچھیں تو سب اسے مختلف انداز سے بیان کریں گے۔ سب سے پہلے تو اس رکاوٹ کو دور کرنا چاہیے۔ 

سادہ لیکن پاورفل بیانیہ: اگر آپ عوام کو اپنے نظریہ کے گرد جمع کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کے پاس نظریے کی بنیاد پر ایک ایسا مضبوط  بیانیہ ہونا چاہیے کہ بزم پیغام کے ایک کارکن سے لے کر ایک ان پڑھ انسان تک بھی آپ کا پورا بیانیہ صرف ایک منٹ میں بغیر کسی ابہام کے بیان کر سکے۔ 

حلقہ جات: المیہ یہ ہے کہ چھوٹی سطح کے ذمہ داران کا بھی بہت سا وقت رپورٹنگ اور فارمز کو فل کرنے میں اور پھر تنظیمی پروگرامات میں شرکت میں صرف ہوتا ہے۔ اس سب کو ایک موبائل اپلیکیشن کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے۔ حلقہ جات کے روایتی دعوتی پروگرامات بالکل غیر موثر ہوچکے ہیں۔ پروگرام کی کوالٹی اور دو چار افراد کی حاضری پہلی بار شرکت کرنے والوں کو مایوس کر دیتی ہے۔ دعوتی پروگرام میں کم از کم ١٠٠ افراد کی شرکت ضروری ہے۔ بہتر ہے کہ اسے حلقے کی بجائے بڑے علاقے کی سطح پر کیا جاۓ۔ موضوعات  کا چناؤ کم تعلیم یافتہ لوگوں کو راغب کرنے کے لیے ہونا چاہیے۔ حلقہ اور کارکن کی بنیادی ذمہ داری عام لوگوں کو اس پروگرام میں شرکت کروانا ہو۔ تعلیم یافتہ طبقہ کے لیے یوتھ کلب سٹائل میں پروگرام تشکیل دینے چاہئیں۔

خودکار کارکن کی تیاری: ایک زمانہ تھا کہ کسی علاقے میں جماعت کا صرف ایک کارکن ہوتا تھا لیکن وہ ایک کارکن اپنی ذات میں خود ایک تنظیم ہوتا تھا۔ وہ بغیر کسی سرکلر اور ہدایات کے دن رات دعوت میں مشغول رہتا۔ اس خلوص اور محنت کے نتیجے میں درجنوں اور سینکڑوں لوگ قافلہ راہ حق کے ہمراہی بن جاتے تھے۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کی دعوت کی ابتدا اس کی ایک بہترین مثال ہے۔ ہمیں اس خود کار کارکن کو دوبارہ پیدا کرنا ہے۔ 

واضح سٹریٹیجی: اگر پوچھا جاۓ تو شاید ہی کوئی کارکن یقین سے بتا سکے کہ تحریکی مقاصد کے حصول کے لیے ایک کارکن کی کیا سٹریٹیجی ہونی چاہیے۔ کارکن جلسے، جلوسوں یا غیر ضروری حلقہ جاتی پروگرامز میں شرکت کر کے مطمئن رہتا ہے کہ اس نے اپنے حصہ کا کام کر لیا ہے۔ حلقہ اور کارکن کو ایک واضح سٹریٹیجی، ٹارگٹ اور رزلٹ بیسڈ رپورٹنگ سسٹم دیا جانا چاہیے۔

ترجیحات کا تعین: جماعت کے تحت جتنے بھی ادارے، رسالے اور تنظیمیں ہیں، سب کو یک رخ کرکے ایک مقصد کے حصول پر مرکوز کردینا چاہیے۔ ترجیحات کا تعین ہونا چاہیے اور پھر سارے پروگرامات کا رخ ان ترجیحات کی طرف موڑ دینا چاہیے۔ 

مرکزی پروفیشنل ادارے:  یہ ادارے ایک جدید کارپوریشن کی طرح کام کریں اور تنخواہ یافتہ پروفیشنلز پر مشتمل ہوں۔  ان کے تحت  ٹیلی ویژن، ریڈیو، پرنٹ میڈیا، موبائل ایپلیکیشنز، ویب ایپلیکیشنز، تھنک ٹینک، فیڈبیک پر کام کیا جاۓ۔ اس کے علاوہ آن لائن تعلیم و تربیت، سوشل میڈیا ٹریننگ، پوڈکاسٹ ٹریننگ، وی لوگنگ کی ٹریننگ پر بھی کام کیا جاۓ۔ 

ایک خاص موبائل ایپلیکیشن بنائی جائے جس کے ذریعے افراد، ادارے اور حلقہ جات اپنی اپنی لائیو رپورٹنگ کرسکیں۔ اسی ایپلیکیشن کے ذریعے کارکنان سے مشاورت کے لیے پولز بھی کروائے جا سکیں گے، ہدایات دی جاسکیں گی اور فیڈبیک بھی لیا جاسکے گا۔ مختلف پراجیکٹس، مہمات اور حلقہ جات کی ریٹنگ بھی کی جا سکے گی۔ الیکشن بھی کروائے جا سکتے ہیں۔ اعانت بھی جمع کی جاسکتی ہے. ​اس ایک ایپلیکیشن کے ذریعے بہت سے کاموں کو زیادہ بہتر اور مستعد انداز میں کیا جاسکتا ہے۔ ہزاروں افراد کو کئی ذمہ داریوں سے فارغ کرکے دعوت کے کام پر مرکوز کیا جاسکتا ہے۔ 

١٠٠ فیصد کارکنان کو سوشل میڈیا کی ٹریننگ دی جائے گی۔ واٹس ایپ، فیس بک، ٹویٹر، ٹک ٹاک وغیرہ پر مشتمل ایک وسیع سوشل میڈیا نیٹ ورک تیار کیا جائے گا جس میں علاقائی بنیادوں پر کارکنان گروپس کے ذریعے جڑے ہوں گے اور جماعت کے پیغام کو عوام تک پہنچائیں گے۔ 

  • تنظیم کو لائٹ ویٹ کیا جاۓ 
  • نظریہ کی بنیاد پر خودکار کارکن تیار کیے جائیں۔ ایسا کارکن جسے پیٹرول لینے تنظیم کے پٹرول سٹیشن پر نہ جانا پڑے بلکہ اس کے اندر ہی ایک تعلق باللہ اور جواب دہی آخرت کے احساس پر چلنے والا جنریٹر ہو جو اسے چوبیس گھنٹے ایندھن فراہم کرے۔
  • پروگرامات کا روایتی سٹائل تبدیل کرکے نۓ تجربات کیے جائیں۔ تحریک سے جڑی ہر شے کو نظریے کی ترویج پر مرکوز کیا جاۓ۔
  •  کارکن کو اختیار اور ذمہ داری دی جائے۔ اگر وہ خود سے کوئی کام کرنا چاہے، جیسے مدرسہ یا مسجد بنانا، قرآن فہمی کی کلاسیں لینا، سی ایس ایس کی تیاری کا ادارہ بنانا ہو یا کوئی رفاہی ادارہ قائم کرنا، تو اس کی  بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے۔ اس کے کام کو تحریک کے مقصد کے ساتھ جوڑ دیا جائے تاکہ وہ اپنی محنت کو تحریک کے نصب العین کے ساتھ جڑا ہوا محسوس کر سکے۔
  • تنظیم، ذیلی تنظیمیں، ادارے، کارکن، مسجد و مدرسہ و سکول، سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور دیگر تمام ذرایع و وسائل کو نظریہ کی ترویج پر مرکوز کر دیا جاۓ۔ 

ترقی یافتہ ملک ہوں یا ترقی پذیر، عوام کی اکثریت ان لیڈرز کو پسند کرتی ہے جو انہیں ان کے پسندیدہ خواب بیچ سکے۔ ڈونلڈ ٹرمپ، مودی اور عمران خان اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ لوگوں کی اکثریت نظریے سے زیادہ شخصیات، نعروں اور بیانیوں کو پسند کرتی ہے۔

بیانیہ کیا ہے؟ بیانیہ ایک ایسا جامع فقرہ یا نعرہ ہوتا ہے جس میں سیاسی جماعت کا ویژن، عوام کے مسائل کا حل، ان کی خواہشات کی ترجمانی اور ان کے جذبات کی وابستگی شامل ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ کسی حد تک ڈوپامین کے اخراج سے بھی جڑا ہوتا ہے۔ تعصب، ہم بمقابلہ وہ، ہمارا حق، احساس اخلاقی برتری، انعام اور امید وغیرہ وہ عوامل ہیں جو ڈوپامین کے اخراج کا باعث بنتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں عوام کے ان جذبات کو استعمال کرتے ہوئے اپنا بیانیہ تشکیل دیتی ہیں۔ کچھ سیاسی بیانیے مخالفین یا دشمن کا ڈر اور خوف پیدا کرکے عوام کے جذبات کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ 

آپ کا بیانیہ لوگوں کے جذبات سے جڑا ہو، لوگوں کی محرومیوں کا ازالہ کرتا ہو اور لوگوں کی خواہشات کا ترجمان ہو۔ اگر آپ ایسا بیانیہ تخلیق کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو نصرمن اللہ والفتح والی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔ آپ کارکن کو نہیں ڈھونڈیں گے، کارکن آپ کو ڈھونڈے گا۔ 

بیانیہ میں اتنی جان ہو کہ یوٹیوبرز ، وی لاگرز اس پر صرف اس وجہ سے بات کریں کہ اس بیانیہ پر بات کرنے سے ویوز ملتے ہیں اور آمدن بڑھتی ہے۔ اگر آپ اپنے بیانیے کو لوگوں کی آمدن سے جوڑ دیتے ہیں تو جہاں جہاں ان کی ریچ ہے وہاں تک آپ کا بیانیہ پہنچ جائے گا۔ آپ کی مین سٹریم میڈیا کی احتیاج کم ہوجائے گی۔ 

ڈوپامین کے علاوہ کچھ اور بھی عوامل ہوتے ہیں جو انسانی دماغ کے ریسپٹرز کو متحرک کرتے ہیں جیسے Oxytocin یا Glutamate. بیانیہ اور سٹرٹیجی تشکیل دیتے ہوئے ان جدید تحقیقات کو مدنظر رکھنا ایک سیاسی جماعت کے لیے بہت ضروری ہے۔ بیانیہ کی پشت پر اگر مؤثر ابلاغ اور مستند حقائق شامل ہوں تو بیانیہ کی اثر انگیزی بڑھ جاتی ہے۔

یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ جماعت اسلامی یا اس کا پولیٹیکل ونگ یا جماعتی نظریات پر بنی کوئی سیاسی جماعت ملک گیر سیاسی کامیابی / الیکشن جیت سکتی ہے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اگر ایسا کبھی ممکن ہوبھی گیا تو مقامی و عالمی اسٹیبلشمنٹ کسی بھی قیمت پر جماعت کو اقتدار میں نہیں آنے دے گی۔

اس لیے تجویز ہے کہ پورے پاکستان میں ایک سیٹ اپ بنانے کی بجائے مختلف علاقوں میں وہاں کی ضروریات کے مطابق علیحده علیحدہ سیاسی جماعتیں بنانی چاہئیں۔  مقامی سیاست کے اور بھی بہت سے فوائد ہیں، جن میں چیدہ چیدہ کارکردگی، ایمپاورمنٹ، بروقت فیصلے اور ان پر عمل درآمد، جدید طریقوں کا استعمال، فوری احتساب شامل ہیں۔ مقامی لیڈرز، کارکنان اور ووٹرز سب میں اپنے پن اور اونرشپ کا احساس پیدا ہوگا۔ مقامی مسائل و ضروریات کے مطابق بنایا گیا بیانیہ جیت میں اہم کردار ادا کرے گا۔

کراچی مسائل سے بھرپور ایک ایسا شہر ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں بشمول تحریک انصاف وہاں ناکام ہوچکی ہیں۔ ایک بہت بڑا سیاسی گیپ وہاں موجود ہے۔ کراچی کا ہر شہری حافظ نعیم الرحمن بھائی کی شخصیت اور ان کی جدوجہد کا معترف ہے۔ انہیں اگر وہاں ایک نئی سیاسی پارٹی لانچ کرنے کا موقع مل جاۓ تو یقین ہے کہ وہ آرام سے بڑی میجوریٹی کے ساتھ الیکشن جیت جائیں گے اور اسٹیبلشمنٹ بھی ان کے آڑے نہیں آئے گی۔ کراچی میں کسی قدر عصبیت موجود ہے، ہر شخص بجاطور پر شکوہ کناں ہے کہ کراچی کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ اس لیے یہاں کی سیاسی جماعت کے نام میں کراچی اور حقوق کا ذکر ہو تو بہتر ہے۔ اگر ایک مرتبہ بلدیات میں کامیابی حاصل کرکے اسے مثالی طریقہ سے چلا لیا جائے تو کراچی سے طیب اردگان کو لانچ کیا جاسکتا ہے۔ حیدرآباد اور بقیہ سندھ  میں وہاں کے حالات کے مطابق تجربہ کیا جاسکتا ہے۔

اگر سراج الحق صاحب اور مشتاق احمد خان صاحب کچھ دیگر جماعتی سیاسی لیڈرز کے ساتھ مل کر اپنی علیحدہ جماعت بنائیں اور مقامی مشران کو ساتھ ملائیں تو وہ کے پی کے اور بلوچستان کے پشتون علاقوں میں ایک اچھی پیش رفت کر سکتے ہیں۔ اگر وہ جماعت کی چھاپ سے آزاد ہوجائیں تو دیوبندی اور اے این پی کے لوگوں کے ووٹ بھی انہیں مل سکیں گے۔ سابقہ فاٹا کے علاقے کے مسائل کے پیش نظر وہاں علیحدہ جماعت بنائی جاسکتی ہے۔ مقامی قیادت یا قبائلی تعلق ایک بہت بڑا سیاسی فیکٹر ہے۔ عمران خان کو اس صوبہ سے بہت سے ووٹ پٹھان ہونے کی وجہ سے ملے ہیں۔ پٹھانوں میں پشتون جماعت کا فیکٹر بہت زیادہ موثر ثابت ہوگا۔

لاہور کی حد تک ایک جماعت بنائی جائے جس کی قیادت پروفیشنلز کے ہاتھوں میں ہو اور جس کا مرکزی ٹارگٹ بلدیاتی انتخابات ہوں۔ یہ ٹیم لوگوں کے انفرادی و اجتماعی مسائل کے لیے ہر وقت متحرک رہے۔ بہتر ہوگا کہ صوبائی اور قومی انتخابات میں حصہ نہ لیا جائے تو شاید الیکشنز میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی مدد سے کچھ پیشرفت کر سکے۔ 

سرائیکی علاقوں کی سیاست میں دہائیوں سے قابض سرداروں کے خلاف تحریک انصاف نے  کامیابی حاصل کر کے ایک نئی امید پیدا کی ہے۔ سرائیکی علاقوں کی پسماندگی، حقوق یا علیحدہ صوبہ کے پس منظر پر مشتمل بیانیہ مقامی لوگوں کو اپیل کر سکتا ہے۔ حالات کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے مناسب جوڑ توڑ کرکے کچھ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ 

فیصل آباد، سرگودھا، گوجرانوالہ اور باقی بڑے شہروں میں ان کی بلدیات کو ٹارگٹ کرکے علیحدہ سیٹ اپ بنا ئے جاسکتے ہیں۔ 

نۓ سیٹ اپ بناتے وقت مندرجہ ذیل باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے 

  • ان جماعتوں کو ٹھوس مذہبی بنیادوں کے ساتھ نہ اٹھایا جاۓ۔ فکر تحریکی ہو لیکن بہتر ہے کہ اس کا اظہار نہ کیا جاۓ تاکہ معاشرے کے تمام طبقات ان کے ساتھ مل کر جدوجہد میں شریک ہوں۔
  • نئے سیاسی سیٹ اپ میں تنظیم اسی قدر موجود ہو جس قدر دوسری جماعتوں میں ہے۔ 
  • انتخابی سیاست پہلی اور آخری ترجیح ہو۔ 
  • یہ تنظیمیں کسی شخصیت پر مبنی بھی ہو سکتی ہیں یا مسائل، علاقے، زبان، اور حقوق کو ہدف بنا کر بھی تشکیل دی جا سکتی ہیں۔معاشرے کا کوئی بھی باصلاحیت اور باکردار فرد اس کے ٹکٹ کے لیے درخواست دے سکتا ہے۔
  • نۓ سیٹ اپ میں معاشرے کے ہر طبقے کے اچھے لوگ ضرور ہوں. مفتی منیب الرحمان، مولانا طارق جمیل اور مولاناثاقب رضا مصطفائی جیسے علما پر کام کیا جاۓ.
  • ٢٠١٣ کے انتخابات کے بعد تجاویز میں ہم نے لکھا تھا کہ "بریلویت کو خاص ٹارگٹ کیا جاۓ۔ اگر اس پہلو پر کام نہ کیا گیا تو آنے والے دنوں میں اسٹیبلشمنٹ اس پر کام کرکے ایک اور اپ سیٹ کرسکتی ہے” یہ اپ سیٹ تو ہوچکا لیکن اب بھی اس پہلو پر کام کیا جانا ضروری ہے۔
  • نئی جماعتوں میں جوان اور نیا خون سامنے آنا بہت ضروری ہے، مشہور لوگوں، کھلاڑیوں اور دانشوروں پر کام کیا جاۓ۔ 

اگر الخدمت فاونڈیشن کو ڈی سنٹرلایزڈ کیا جاۓ تو کئی  نئے ادارےلانچ کیے جاسکتے ہیں جو اپنے شعبوں میں سب سے بڑے برینڈز بن سکتے ہیں۔ موجودہ الخدمت کمیونٹی سروسز، ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور واش پروگرامز کو اپنے پاس رکھے اور باقی جو بڑے ونگز ہیں، انہیں نئے ناموں کے ساتھ علیحدہ خودمختار اداروں کے طور پر رجسٹر کروائے۔ پھر نئے اداروں کو متعلقہ شعبوں میں سب سے بڑا برینڈ بنانے کو کوشش کریں۔ 

 ان سب اداروں کو مشترکہ سلوگن کے ساتھ آپس میں اٹیچ رکھا جاسکتا ہے۔ تحریک جتنے بھی برینڈز جنم دےگی، اتنا ہی نیک نامی اور پبلک سپورٹ میں اضافہ ہوگا۔ اگر ہم ان اداروں کو متعلقہ شعبوں واقعی برینڈز بنانے میں کامیاب ہوگئے تو ملک کے ہر شہری کے ذہن میں یہ بات نشین ہوجائے گی کہ جماعت اسلامی سے متعلقہ لوگوں کے ادارے پاکستان کے ہر شعبہ زندگی میں عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔ اور اگر جماعت اسلامی موجود نہ ہو تو معاشرے میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوجائے گا۔ یہ امپیکٹ تحریک سے متعلقہ دیگر فکری و سیاسی اداروں کو بھی مدد فراہم کرے گا۔ 

اگرچہ الخدمت ہیلتھ فاونڈیشن علیحدہ خود مختار ادارے کے طور پر رجسٹرڈ ہے لیکن اس کا دفتر الخدمت کے دفتر میں ہی ہے۔ اس کا نام تبدیل کرکے کوئی مختلف نام رکھیں.  اسے کسی تحریکی نئی سیاسی جماعت کے ساتھ بھی اٹیچ کیا جاسکتا ہے۔ اسے ہیلتھ سیکٹر میں سب سے بڑا برینڈ بنانے کی کوشش کریں۔ ہیلتھ سیکٹر میں آگے بڑھنے کا بہت بڑا سکوپ موجود ہے۔ اس میں ادارے کی اپنی آمدن بھی ہوتی ہے اور نیک نامی ہو تو مخیر حضرت دل کھول کر عطیات بھی دیتے ہیں۔ بڑا برینڈ بننے کے لیے ضروری ہے کہ کوالٹی میں نام پیدا کیا جاۓ۔ بدقسمتی سے ہمارے بہت سے ہسپتال بری مینجمنٹ کے حوالے سے بدنام ہیں۔

آغوش کو بالکل علیحدہ خود مختار ادارے کے طور پر رجسٹر کروائیں۔ یہ دنیا کا بڑا برینڈ بن سکتا ہے۔ 

اسی طرح آرفن فیملی سپورٹ پروگرام تقریباً ٣٠ ہزار یتیم بچوں کو سپانسر کر رہا ہے۔ اسے علیحدہ خود مختار ادارے کے طور پر پاکستان کا سب سے بڑا یتیم بچوں کا ادارہ اور برینڈ بنایا جاسکتا ہے۔ 

 کراچی الخدمت پہلے ہی تنظیمی طور پر مرکزی الخدمت فاونڈیشن سے علیحدہ رجسٹرڈ فلاحی تنظیم ہے، بہتر ہے کہ اس کا نام تبدیل کرکے ایک آزاد و خود مختار ادارہ بنا دیا جائے۔ اسے کراچی کی نئی سیاسی جماعت سے لنک کیا جاسکتا ہے۔

الخدمت فاونڈیشن کی موجودگی میں اس کے مقابل مزید ادارے کھڑے کیے جائیں۔ بہتر ہے کہ ہمارے اپنے ادارے آپس میں مقابلہ کر رہے ہوں۔ اس مسابقت سے جہاں کوالٹی بڑھے گی وہیں ڈونیشن کی اوور آل رقم بڑھ جائے گی۔ اگر غزالی فاؤنڈیشن اور ریڈ فاؤنڈیشن کو موقع دیا جائے کہ وہ الخدمت کی طرح دیگر فیلڈز میں بھی سروسز مہیا کریں تو ان میں بڑے ادارے بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ 

ہیلپنگ ہینڈ پاکستان میں بہت بڑا رفاہی کام کر رہی ہے لیکن عوام کو اس کے متعلق کچھ زیادہ معلوم نہیں۔ اس کی وجہ لوکل فنڈ ریزنگ کا نہ ہونا اور اس ادارے کی اپنی پالیسی ہے۔ ہیلپنگ ہینڈ سے بات کرکے اسے اس تحریکی ادارہ کے طور پر پروموٹ کیا جاسکتا ہے۔


ہمیں اس بات کا ادراک ہے کہ جماعت کی قیادت ہم سے زیادہ تنظیم، تحریک اور طریق کار کے متعلق جانتی ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ جماعت کے پاس ایسا کوئی میکنزم نہیں ہے جس سے تحت اتفاق راۓ سے کوئی انقلابی فیصلہ کیا جاسکے. شوریٰ کا ادارہ بذات خود ایک بہت بڑا ادارہ بن چکا ہے جس میں علم و عمل کے دھنی اور پختہ راۓ رکھنے والے افراد کثیر تعداد میں موجود ہیں جو جماعت کی روشن اقدار و روایات کے نگہبان ہیں۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ گاہے اقدار و روایات بھی کسی انقلابی فیصلے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کی مکہ سے مدینہ ہجرت ایک بہت بڑا فیصلہ تھا جو ہمیں اس بات کا سبق دیتا ہے کہ جب تحریک اسلامی سالہا سال کی محنت کے بعد بھی جمود کو توڑ نہ پاۓ تو سٹریٹیجی پر ازسر نو غور کرنا اور  انقلابی  فیصلے کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ 

رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ


جناب عمران عمر نرم دم گفتگو ، گرم دم جستجو ہیں۔بچپن ہی سے ایسے ہیں۔ پرائمری سکول کی تعلیم کے دوران ہی بچوں کی ایک اصلاحی تنظیم بزم پیغام سے منسلک ہوگئے۔ بعدازاں ایف سی کالج لاہور میں تعلیم حاصل کی، وہاں اسلامی جمعیت طلبہ کے ہر دل عزیز ناظم بنے۔اس کے بعد آسٹریلیا تشریف لے گئے جہاں آئی ٹی اور مارکیٹنگ کے شعبوں میں تعلیم حاصل کی اور پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے۔

آسٹریلیا میں عمران عمر نے کئی نئے اسلامی اداروں کی تشکیل کی۔ وائے اسلام، ساربان اسلامک ٹرسٹ وغیرہ کا قیام انہی کی کوششوں سے ہوا۔ ٢٠١٨ میں انھوں نے کریسنٹ ریلیف کے نام سے ایک رفاہی ادارہ بنایا جو  اس وقت پاکستان میں ہزاروں یتیم بچوں اور غریب طلبا کو اسکالرشپ دے رہا ہے۔ جناب عمران عمر آج کل ایک اور ادارے کی تشکیل پر کام کر رہے ہیں۔

عمران عمر سے درج ذیل ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

[email protected]


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

6 پر “جماعت اسلامی کو اب کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے؟” جوابات

  1. سجاد حسنی Avatar
    سجاد حسنی

    اگرچہ گاہے گاہے اختلاف کی گنجائش اور متبادل اسٹریٹیجی پر بات ہو سکتی ہے لیکن تنظیم ‘ تحریک کے عنوان سے تحریک اسلامی کی ہمہ جہت پیش رفت کے ضمن میں بہترین آرٹیکل ہے ۔ ۔
    ضرورت اس امر کی ہے کہ ‘ آئین نو’ سے ڈرا نہ جائے اور تحریک کے وسیع تر مفاد میں نئے رجحانات کے مطابق ممکنہ حد تک تحریک خود کو ڈھالے

  2. ڈاکٹر مختار احمد Avatar
    ڈاکٹر مختار احمد

    جماعت اسلامی کی قیادت کا سب سے بڑا مسئلہ پالیسیوں اور سلوگنز میں تسلسل کا فقدان رہا ہے۔ مثال کے طور پر اس آرٹیکل میں سیاسی ونگ کو الگ کرنے کی جو تجویز دی گئی ہے اس پر 1993ء میں پاکستان اسلامک فرنٹ کے نام سے انتخابی اور سیاسی پلیٹ فارم بنایا گیا تھا لیکن اسے جاری نہیں رکھا گیا بلکہ الیکشن کے بعد اس کا ذکر تک ختم کردیا گیا۔ جس طرح بغیر ہوم ورک اور اتفاق رائے کے اس کی تشکیل کی غلطی کی گئی تھی اسی طرح بغیر مشاورت اور اعلان کے خاموشی سے اس سے ہاتھ اٹھانا دوسری بڑی غلطی تھی۔
    اس کے علاوہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں جو کو کھوٹے سکے کے دو رخ قرار دے کر تیسری قوت بننے کا نعرہ بھی اسی زمانے اور اسی پلیٹ فارم کا تھا۔ لیکن کاش اس پلیٹ فارم کو نہ سہی ، اس سلوگن کو جاری رکھا جاتا کیونکہ قوم کو ایک بات سمجھانے کیلئے انتخابی مہم کے دو مہینے کبھی کافی نہیں ہو سکتے بلکہ اس کام میں دس سے پندرہ سال مستقل مزاجی سے کام کرنا پڑتا ہے۔ قاضی حسین احمد صاحب مرحوم نے اپنا سیاسی نعرہ خود تو تین مہینے چلایا لیکن جب انہوں نے اسے عمران خان کو تھمایا تو عمران خان دس سال اس نعرے کو دہرا دہرا کر بچے بچے کے ذہن نشین کرادیا۔ بلکہ ایک نسل یہ نعرہ سن کر جوان ہوگئی کہ نواز اور زرداری دونوں بدعنوان اور چور ہیں۔ بس یہی تسلسل عمران خان کی اس کامیابی کا سبب بنا جس کا ذکر اس آرٹیکل میں کیا گیا ہے۔

  3. Imran Umer Avatar
    Imran Umer

    بالکل صحیح نشاندہی کی آپ نے سجاد حسنی صاحب آپ نے. میرے نزدیک تجاویز اہم تو ہیں لیکن ان کے پیچھے جو ریشنل / منطق ہے وہ اہم تر ہے. اس منطق کی بنا پر تجاویز میں تبدیلی بھی کی جاسکتی ہے. یا یکسر نئی تجاویز بھی سامنے لائی جاسکتی ہیں.

  4. ایوب خاں میو Avatar
    ایوب خاں میو

    اسلام علیکم ، تبصرہ کی ضرورت نہیں ھے ایک جامع اور سطعی سے کامل تحریر ھے .

  5. Saqib Mehmood Avatar
    Saqib Mehmood

    بہت پراثر تحریر ہے، بات مگر وہی ہے کہ عمل کون کرے گا؟
    جس جرات اوربہادری کی ضرورت انقلابی قدم اٹھانے کے لیے ہوتی ہے وہ جماعت کی موجودہ قیادت میں مفقود ہے

    1. Dr Muazzam saeed Avatar
      Dr Muazzam saeed

      تنظیمی طور پر ایک ( Mother organization ) ضروری ہے۔ اگر شہروں یا صوبوں کی سطح پر چھوٹی سیاسی جماعتیں بنائیں جائیں تو عین ممکن ہے کہ مفادات کا ٹکراؤ ہو اور اصل مقصد نظروں سے غائب ہو جائے۔۔
      اسی لئے ایک سپریم لیڈر اور مدر جماعت کا ہونا ضروری ہے، بیشک وہ صرف دعوتی پہلو سمبھالیں۔۔
      تجاویز بہرحال بہترین ہیں مگر انقلابی فیصلے ہوتے نظر نہیں آرہے ، خصوصا پچھلے زمانے کے اکابرین کی موجودگی میں ، جنریشن گیپ کا اثر پانچ سے دس سال تک اپنا اثر دکھاتا رہے گا ۔